علی کی بیوی کی نظر اب بھی کے ٹو کی چوٹی پر اٹکی تھی جو سکردو سے کبھی کبھار صاف موسم میں خوب نظر آتی تھی۔
وہ روتی بھی نہ تھی کہ کہیں رونے سے آنکھوں میں آنسوؤں کی وجہ سے اُس کی نظر دھندلی پڑ جائے۔ اور علی اس ایک سیکنڈ میں بھی شاید اس کی نظر کو نظر آ جائے۔
دروازے کھڑکنے کی آواز آتی تو وہ ہوشیار ہو جاتی کہ اُس کے کان کہیں اُسے دھوکہ نہ دے دیں اور علی کی واپسی کی خبر وہ سن نہ پائے۔ ابھی بھی وہ رات کا بستر بنا کے رکھتی کہ علی شاید ابھی آ جائے اور گرم بستر سے ایک پل کے لیے بھی محروم نہ ہو۔
زیادہ تر برادری و خاندان کے افراد اُسے کہتے کہ اب تو علی کی واپسی ناممکن ہے۔ وہ شہید ہو چکا ہوگا۔ وطن کی شان کے خاطر وہ پہاڑ سے لڑ گیا۔ مگر اُمید کی ایک کِرن بھی اُس کی بیوی کو ایک دن کے جینے اور سارا دن اُسی بات پر سوچنے کے لیے کافی تھی۔ کئی دن کئی غازی کی اُمیدیں علی کی بیوی کو ملی مگر نااُمیدی کو اُس نے اپنے قریب نہ آنے دیا۔
آخر کار آس پاس کے لوگ، حکومت کے نمائندے، خاندان کے بیشتر افراد اب واپسی کی کسی بھی قسم کی اُمید کی بات اب نہ کرتے۔ شہید اور غازی کے بیچ کی اذیت کو چننا ہی علی کی بیوی کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔ اُس اذیت کی کیفیت کا پہلے کوئی خاص نام نہ تھا۔ اب جب ملک میں ایسی اذیتیں بڑھنے لگیں تو اُس کا نام “مسنگ” رکھ دیا گیا ہے۔
اب علی نہ غازی رہا تھا نہ شہید ہی۔ وہ غازی اور شہید کے بیچ کے فاصلے میں کہیں مسنگ تھا۔ شہید تو زندہ ہوتے ہیں اور غازی کی زندگی باقی، مگر یہ مسنگ کیا ہوتے ہیں؟ کمبخت یہ لفظ بھی فعل حال جاری کی ہی علامت ہے… نہ دن دیکھتا ہے نہ رات، بس جاری رہتا ہے۔
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں