لیاری کی درسگاہ اور فیض احمد فیض۔۔انور اقبال

ابھی حال ہی میں فیض کا دن منایا گیا ہے۔ اس مناسبت سے آج ہم فیض کی ہمہ گیر شخصیت کے کچھ خاص پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔
فیض کی جمہوری و ترقی پسند اقدار، بطور فلم کہانی کار، دنیا بھر میں چلنے والی قومی آزادی اور امن کی تحریکوں سے وابستگی اور بطور متحرک سماجی شخصیت کے ان کی تعلیمی خدمات۔ فیض کے ان پہلوؤں کو ہم نے پاکستان بننے کے ابتدائی برسوں یعنی 1951 سے 1972 تک کے برسوں میں رونما ہونے والے ایسے واقعات سے جوڑا ہے جس میں فیض صاحب کی شخصیت ہمیں بہت فعال دکھائی دیتی ہے۔ ویسے تو ان کی پوری زندگی ہی فعالیت سے بھرپور گزری تھی لیکن یہاں پر ہم اپنے آپ کو صرف ان ہی برسوں میں محدود رکھ کر فیض کے بارے میں بات کریں گے۔


23 فروری سن 1951 کی بات ہے۔ یہ آٹھ گھنٹوں پر محیط نشست میجر جنرل اکبر خان کے گھر پر منعقد ہوئی تھی اور اس میں حکومتِ وقت کا تختہ الٹنے کے منصوبے پر غور کیا گیا تھا۔ اس نشست کے ایک شریکِ محفل فیض احمد فیض بھی تھے۔ یہی واقعہ بعد میں پنڈی سازش کیس کے نام سے مشہور و معروف ہوا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض اس میں کیسے اور کیوں ملوث ہوئے تھے؟؟؟

Advertisements
julia rana solicitors


دراصل “فیض” کمیونسٹ پارٹی سے جذباتی طور پر وابستہ تھے۔۔اس انقلاب کی کامیابی سے ان کی پارٹی کو فائدہ پہنچتا، دوسری جانب وہ بطور شاعر بھی معروف تھے اور پھر شاعرِ طرح دار ہونے کے ناتے سارا ملک ان کا پرستار تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اُس وقت کے ایک سرکردہ اخبار “پاکستان ٹائمز” کے مدیر بھی تھے. اس لیے ان کے ذمے انقلاب کے بعد کی فضا میں عوامی رائے عامہ کو ہموار کرنے کا کام لگایا جانا تھا۔
اصولی طور پر فیض اس غیر جمہوری عمل کے حق میں نہیں تھے۔ انھوں نے اس کے خلاف دلائل دیے۔ بالآخر آٹھ گھنٹوں کی تند و تیز بحث و تمحیض کے بعد جنرل اکبر خان کے پیش کردہ منصوبے کو ناقابلِ عمل سمجھ کر رد کر دیا گیا تھا۔ اسی رات ایک مخبر نے چپکے سے پولیس کو جنرل اکبر کے گھر میں ہونے والی اس نشست کے بارے میں خبر کر دی۔ نو مارچ 1951 کو وزیرِ اعظم لیاقت علی خان نے اس سازش کو طشت از بام کر دیا، جس کے بعد اس محفل کے دیگر شرکت کنندگان کے ساتھ “فیض” کو بھی گرفتار کر کے قیدِ تنہائی میں ڈال دیا گیا۔ فیض کی زندگی کے اگلے چار سال ملک کی مختلف جیلوں میں گزرے۔
یہ دور یقیناََ ان کے لیے ذاتی طور پر ضرور تکلیف دہ رہا ہو گا لیکن اس سے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز لگی۔ ان کی کئی پُرکیف نظمیں اور غزلیں اسی دور کی دین ہیں۔ فیض جیل ہی میں تھے کہ ان کا مجموعۂ کلام ’دستِ صبا‘ منظرِ عام پر آگیا۔ اس کے علاوہ ’زنداں نامہ‘ کی اکثر و بیشتر شاعری بھی پسِ زنداں ہی تصنیف ہوئی تھی۔
جیل میں فیض کے ایک ساتھی قیدی میجر محمد اسحٰق
“زنداں نامہ” کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ
“شعر کا عالم طاری ہوتا تو فیض صاحب خاموش ہو جایا کرتے تھے۔ البتہ اٹھتے بیٹھتے، گُنگنا چکنے کے بعد اِدھر اُدھر دیکھنے لگتے۔ ہم بھانپ لیتے تھے کہ سامعین کی ضرورت ہے۔۔۔ اگر نظم یا غزل تیار ہوتی تھی تو ایک آدھ شعر سنا دیا کرتے تھے”۔
ہمارے لیے یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ فیض کی مارکسیت کے ساتھ فکری وابستگی کتنی ہی شدید کیوں نہ رہی ہو لیکن وہ کسی بھی صورت میں ایک غیر جمہوری اور غیر سیاسی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے۔ فیض کی شخصیت کا یہ ایک قابل غور پہلو ہمارے اُن ادیبوں اور دانشوروں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہونا چاہیے جو بعد میں جمہوریت پر شب خون مار کر اقتدار میں آنے والی فوجی حکومتوں کے کاسہ لیس بنے رہے اور آج بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے۔۔
فیض نے بطور کہانی نویس کہ فلم “جاگو ہوا سویرا” بھی لکھی تھی۔ یہ فلم 1958ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ سود خوروں کی گرفت کا شکار ماہی گیروں کی تلخ زندگیوں کی عکاسی کرتی ہوئی یہ فلم حقائق پر مبنی تھی۔ فلم کے موسیقار کولکتہ میں رہنے والے “تیمر بارن” تھے۔ جبکہ فلم کی واحد پیشہ ور اداکارہ “ترپتی مترا” تھیں جن کا تعلق بھی بھارت سے تھا اور سیاسی طور پر ان کی وابستگی بھی بائیں بازو سے تھی۔ اس تحریر کے ساتھ منسلک فلم “جاگو ہُوا سویرا” کا یہ اشتہار روزنامہ ڈان میں سن 1958 ماہِ دسمبر میں شائع ہوا تھا۔ پاکستان کی ابتدائی فلمی تاریخ میں اس فلم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ فلم ماسکو کے بین الاقوامی فلمی میلے میں بھی پیش کی گئی تھی اور وہاں پر پذیرائی کے ساتھ ساتھ ایک ایوارڈ بھی اس فلم کے حصے میں آیا تھا، مگر افسوس کہ جس ملک کی عوام کا شعور بیدار کرنے کے لیے یہ فلم عکس بند کی گئی تھی انہیں اس فلم سے دور رکھا گیا اور ابھی بھی یہ فلم ڈبوں میں بند ہے۔ پاکستان میں اُس وقت مارشل لاء کا دور تھا۔ فوج نے حکومت کی باگ ڈور نئی نئی سنبھالی تھی۔ نشرواشاعت، فلم، ریڈیو کے اداروں پر کڑی سنسرشپ تھی۔ جرنیلی حکومت امریکہ کی سرپرستی میں ہر اُس عمل اور نظریے کی مخالفت کرتی تھی جو ترقی پسند یا بائیں بازو کی طرزِ فکر کو فروغ دیتا ہو۔ فلم کے مصنف فیض احمد فیض چونکہ سیاسی طور پر بائیں بازو سے وابستہ تھے اس لیے اس فلم کو شائقین سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور پریمئر شو سے ایک روز پہلے ہی حکومت کی طرف سے پابندی عائد کر دی گئی اور جب بیرون ملک اس فلم کا پریمئر شو لندن میں منعقد ہوا تو حکومتِ پاکستان کی طرف سے وہاں پر قائم “پاکستان ہائی کمیشن” کے دفتر میں کام کرنے والے ارکان کو بھی فلم کے پریمیئر میں شرکت کرنے سے منع کر دیا گیا تھا۔
فیض احمد فیض کو سوویت یونین کی طرف سے سن 1962 میں “لینن پیس پرائز” سے بھی نوازا گیا تھا۔ عالمی طور پر یہ وہ دور تھا جب سامراج کی مخالفت میں قومی آزادی کی تحریکیں اپنے عروج پر تھیں اور امریکی جنگی عزائم کے خلاف امن تحریکیں بھی چل رہیں تھیں۔ فیض چونکہ سامراج مخالف امن تحریکوں اور دنیا بھر میں چلنے والی قومی آزادی کی تحریکوں کے پُرجوش حامی اور عوام کی آزادی کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس لیے عوامی خدمات کے عوض ان کا نام “لینن پیس پرائز” کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
فیضؔ ایک بڑے عوامی شاعر ہی نہ تھے بلکہ سماجی طور پر تعلیم کے لیے بھی ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ تعلیم اور فنون لطیفہ سے فیض کو گہرا شغف تھا۔۔
سن 1964ء میں لندن سے واپسی پر آپ “عبد اللہ ہارون کالج” کراچی میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے اور 1972ء تک اسی کالج میں بطور پرنسپل تعلیمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ فیض صاحب نے اپنے کیرئیر کا آغاز ہی برطانوی راج میں استاد کی حیثیت سے “ایم اے او کالج” امرتسر سے 1935ء میں کیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے کچھ سال بعد فیض نے کراچی کی غریب بستی لیاری میں کالج کا سربراہ بننا کیوں پسند کیا۔۔۔؟ اس سوال کا جواب فیض صاحب نے ڈاکٹر غلام حسین اظہر کو اپنے ایک انٹرویو میں دیا تھا۔ یہ تاریخی انٹرویو ڈاکٹر طاہر تونسوی کی مرتب کردہ کتاب ’’فیض کی تخلیقی شخصیت: تنقیدی مطالعہ‘‘ میں شامل ہے۔ یہاں پر ہم مندرجہ ذیل میں اس کتاب سے ایک اقتباس نقل کر رہے رہیں؛
“آپ نے اس ادارے کی سربراہی کیوں قبول کی تھی؟
فیض صاحب کا کہنا تھا ’’جس علاقے میں حاجی عبد اﷲ ہارون نے کالج قائم کیا تھا اس میں ہائی سکول کے علاوہ تعلیم کی اور سہولتیں نہ تھیں، اس علاقے میں اکثریت غریب عوام کی ہے، ماہی گیر، گاڑی چلانے والے اور مزدور پیشہ لوگ جو بچوں کو کالج نہیں بھجوا سکتے تھے۔ یہ علاقہ بُرے لوگوں کا مرکز تھا۔ یہاں پر ہر قسم کا غیر مستحسن کاروبار کیا جاتا تھا۔ اکثر غلط راہ پر بچپن ہی سے پڑ جاتے تھے۔ یہاں عبد ﷲ ہارون نے یتیم خانہ بنوایا تھا، جو ہائی اسکول کے درجے تک پہنچ گیا تھا، باقی کچھ نہیں تھا۔ حاجی عبد ﷲ ہارون کے جانشینوں کی مصروفیات کچھ اور تھیں، صرف لیڈی نصرت ہارون کو اس ادارے سے دلچسپی تھی۔ لندن سے واپسی پر انھوں نے ہم سے فرمائش کی کہ ہم یہ کام سنبھال لیں۔ ہم نے جا کر علاقہ دیکھا، بہت ہی پس ماندہ علاقہ تھا، یہاں انٹر میڈیٹ کالج بنایا، پھر ڈگری کالج پھر ٹیکنیکل اسکول اور پھر آڈیٹوریم، کچھ رقم ہارون انڈسٹری سے خرچ کی گئی، کچھ ہم نے فراہم کی۔ ماہی گیروں کی سب سے بڑی کوآپریٹو سوسائیٹی بنی، انہوں نے ہمیں ڈائریکٹر بنا لیا، ہم نے طے کیا کہ سوسائیٹی کے اخراجات سے بچوں کو مفت تعلیم دی جائے اور بچوں کے سب اخراجات یہی ادارہ برداشت کرے، اس کالج میں طلبہ کی اکثریت کو مفت تعلیم دی جاتی تھی”
مندرجہ بالا اقتباس سے ہم بخوبی اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ فیض کے نزدیک کسی بھی سماج کی بہتری کے لیے تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ فیض معاشرے کے تمام طبقوں میں تعلیم کو عام کرنا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے لیاری کے پس ماندہ علاقے میں تعلیمی مشاغل کو عام لوگوں تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب آخر میں ہم اس تحریر کو ختم کرنے سے پہلے مختصر طور پر کراچی کے علاقے “لیاری” کے عبداللہ ہارون کالج اور اس تحریر میں شامل کالج کے دو اشتہاروں کے بارے میں بھی اپنے پڑھنے والوں کو آگاہ کرتے چلیں۔ تاریخی لحاظ سے لیاری کے تعلیمی نظام میں حاجی سر عبداللہ ہارون فیملی کا نمایاں کردار رہا ہے۔ عبداللہ ہارون کالج نجی طور پر 1960ء کے ابتدائی عشرے میں لیاری کی غریب عوام کو سستی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے ٹرسٹ کے طور پر قائم کیا گیا تھا۔ 1972 میں جب بھٹو حکومت نے ملک کے دوسرے اداروں کی طرح شعبہ تعلیم کو بھی قومی تحویل میں لے لیا تو یہ کالج بھی سرکاری سرپرستی میں چلا گیا۔ اس تحریر میں شامل کی گئی کالج کے اشتہار کی پہلی تصویر روزنامہ جنگ مورخہ 29 ستمبر سن 1966 اور دوسری تصویر مورخہ 18 ستمبر 1970 کی اشاعت سے لی گئی ہے۔ ان دونوں تصویروں سے یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے کہ ابتدائی طور پر یہ کالج صرف لڑکوں کے لیے بنایا گیا تھا لیکن پھر آنے والے کچھ سالوں کے اندر ہی اس تعلیمی ادارے کو لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے مختص کر دیا گیا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply