تقسیمِ مدارس کا حریفانہ وار۔۔نعیم اختر ربانی

“مدارسِ دینیہ اسلام کے قلعے ہیں” یہ وہ جملہ ہے جو آپ ہر اسلامی ذہن رکھنے والے شخص کی زبان سے سنتے ہیں۔ گویا اسلامی حلقوں میں زبان زدِ  عام ہے۔ لیکن یہ ایک جملہ اپنے اندر حقائق کے وسیع سمندر کو سموئے ہوئے ہے۔ کیونکہ تعلیم کسی بھی نظریے ، مذہب ، فکر ، شعور ، تحریک اور ریاست کے بنیادی خدوخال کی وضاحت ، استقامت اور بقا کے لئے لازم ہے۔ یہ نظریے اور مذہب کو مضبوط بنیاد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فکر و شعور کے نئے راستے مہیا کرتی ہے اور پہلے سے موجود راستوں پر چلنے والوں کی فقاہت میں اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ جس کی بدولت ترقی کی منازل اولاً دکھائی دیتی ہیں۔ گویا خوابِ مدہوش سے تعلیم کی تاثیر کا آغاز ہوتا ہے اور پھر یہ خوابوں کی سیر گاہ سے مسلسل ترقی کا سفر طے کرتے کرتے حقیقت کی دنیا میں لے آتی ہے۔ تب پھر ان منازل کے چہار طرفہ پہلوؤں کی نشاندہی میں مدد فراہم کرتی ہے اور بعد ازاں روڈ میپ مہیا کر کے نشیب و فراز کی آگاہی میں تعلیم کا ہی کردار ہوتا ہے۔
غرض تعلیم کی بنیادی افادیت سے لے کر انتہائی نفع کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

بعینہ  مدارس میں اسلامی تعلیمات کا صبح و شام چرچا رہتا ہے۔ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائیں گونجتی ہیں۔ کمسن بچوں سے لے کر جوان مرد و خواتین تک سب اسلامی تعلیمات سیکھنے اور بعد ازاں فکر و تدبر کی حدود میں داخلے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اگر یہ تعلیمات ان کی دسترس سے دور ہو جائیں ، ان میں کھوٹ کی آمیزش اور نقص کی ملاوٹ کر دی جائے یا ان تعلیمات کو مخصوص طبقے ، گروہ اور قوم تک محدود کر دیا جائے۔ تو دھیرے دھیرے ان کی روشنی مانند پڑتی جائے گی۔ افادیت ، ظلمت کے زیر اثر آ کر کہیں گم ہو جائے گی اور پھر اس کی ضرورت بھی ناپید ہو جائے گی۔

جب اسلام کی بنیاد اپنے فولاد کو گم کر دے گی اور اپنی ساخت سے بے خبر ہوکر ریت کے ٹیلے پر اپنے وجود کو قائم کرنے کی موہوم کوششیں شروع کر دے گی۔ تو لامحالہ اس نام نہاد عمارت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ پھر کفر کی آندھی کا ایک جھونکا ہی اسے ملبہ بنانے کے لیے کافی ہوگا۔

لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس عمارت کو ملبے کی صورت میں دیکھنے والا سفاک خود ہمارا محسن ہے۔ اسے آئے روز ایسی چیزوں کے نظارے سے دلی سکون ملتا ہے۔ کیونکہ اس عمارت میں چند دکانیں ایسی ہیں جن سے اس محسن کے حریف کی روزی وابستہ ہے۔ وہ اس مارکیٹ میں بیٹھ کر اپنے پیٹ کے لئے چند نوالے حاصل کرتا ہے۔ لیکن محسن کی آرزو ہے کہ یہ نوالے اس کے ہاتھ سے چھین کر اپنے دسترخوان تک لے آئے۔ اپنے تندور کی آگ میں اس کے ایندھن سے اضافہ کرے۔ تاکہ پکوان جلد پک کر تیار ہو اور اس میں فتح کا ذائقہ اور شکست کی دیدہ وری کی لذت پنہاں ہو۔ مگر محسن اس بات سے ناواقف ہے کہ حریف کی روزی روٹی چھین کر یا اس کی دکان کو ملیامیٹ کرکے بظاہر تو اسے نفع ہوگا لیکن پیش آمدہ ایک بڑے طوفان کی روک تھام کے لیے اس کے پاس بند باندھنے کو خام مال بھی میسر نہ ہو گا۔ وہ طوفان چھوٹی بڑی عمارت اور سرسبز و بنجر زمین کی تفریق بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف تباہی کا سلیقہ رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر ایک دوسرے کی دکانوں سے بے خبر رہتے ہوئے فقط پیش آمدہ طوفانوں سے بچاؤ کی تدابیر پر غور و خوض کرتے تو آج بے یار و مددگار نہ ہوتے۔

یہ محسن و حریف کا قصہ محض استعاراتی نہیں بلکہ غنیم کی چارہ دستیوں کی عمدہ مثال ہے۔ کیونکہ غنیم کی عافیت اس میں ہے کہ مدارسِ دینیہ اپنی ساخت کھو بیٹھیں اور یوں دیوار کے ساتھ لگ جائیں کہ ان کے جذباتی نعروں کی گونج ، آہ و زاریوں کی سوزی اور امنگوں کی قلقاریاں دیوار ہی سن پائے۔ پسِ دیوار یاجوج ماجوج کی عملی تصویر دکھائی دیں اور اگر کہیں جدوجہد کا ارادہ کریں تو دیوار چاٹتے چاٹتے صدیاں بیت جائیں۔ اس لیے غنیم نے حریفانہ وار کرنے کی کوشش کی۔ ان لوگوں کو مسندِ صدارت عطا کی جو کل کلاں چارپائی کی پائینی جانب ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے تھے۔ غلامانہ فکر کے حامل افراد کو قائدانہ مناصب عطاء کرنے کی جسارت اِس قرآنی آیت کی عملی تصویر پیش کرتی ہے “اور ہم نے سلیمان علیہ السلام کی کرسی پر بے جان جسم ڈال دیا”(سورہ صٓ: 34)

اگر ہم تمثیلی دنیا سے نکل کر حالیہ حکومتی اقدام کا جائزہ لیں۔ نئے پانچویں وفاقوں کے قیام کی منظوری اور بعد ازاں مقتدر حلقوں کی جانب سے اس اقدام کی پذیرائی کا باریک بینی سے مشاہدہ کریں اور پہلے سے موجود پانچ فاقوں کی متحدہ تنظیم “تنظیمات مدارسِ دینیہ” کی کاوشوں کا مطالعہ کریں۔ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سیاسی منافع کے حصول ، بیرونی قوتوں کی داد کے وصول اور خود تنظیمات مدارسِ دینیہ کی پشت میں وار کرنے کی چال ہے اور اسے اس رنگ اور زاویے سے پیش کیا جا رہا ہے کہ خود ان اداروں کی جانب سے مطالبہ کرنے کے بعد ہی انہیں بورڈ کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا حالانکہ بورڈ کا درجہ دینے کے لیے ایک کسوٹی اور معیار ہوتا ہے۔ چند شرائط کی تکمیل کے بعد ہی انہیں بورڈ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ جیسے یونیورسٹی کی منظوری میں ایجوکیشن بورڈ کی طرف سے چند شرائط ہیں۔ ان کی تکمیل کے بعد اس ادارے کو یونیورسٹی کا درجہ دینے کے لیے زیر بحث لایا جاتا ہے تاکہ تمام پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہوئے راست فیصلہ کیا جائے۔ مگر یہاں تو خود معیار کو لات ماری گئی ہے۔ ان حلقوں اور اداروں کو بورڈ کا درجہ دیا گیا ہے جن کا تعلیمی سفر میں کوئی کارنامہ نہیں اور نہ ہی کوئی تجربہ ہے کہ جس کی بنا پر فیصلہ کیا جاسکے کہ یہ طلبہ کے وقت کے ضیاع کا باعث نہ ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ فیصلہ اسلام کی بنیاد یعنی تعلیمِ دین کو کمزور کرنے اور خود اپنے من پسند افراد کو قائد بنا کر من چاہا نصاب داخل کرنے کی طرف پہلا قدم ہے۔ اگرچہ مقتدر حلقوں نے اس وقت سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے مگر مستقبل قریب میں اسلام کی مضبوط عمارت ملبہ بنتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ ہم تنظیمات مدارسِ دینیہ کے اس موقف کے ساتھ ہیں کہ حکومت کا نئے پانچ وفاقوں کے قیام کا اقدام قابلِ قبول نہیں۔ ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔