پانچ سو نوے روپیہ میں کروڑوں کا کام۔۔اعظم معراج

میں نےجب سے ہوش سنبھالا ہے ہر سال ایک مہینہ ایسا آتا ہے جس میں جگہ جگہ بینر  ٹانک دیے جاتے ہیں کہ”شجر کاری مہم جاری ہے”۔اور بڑے خوبصورت نعرے ان بینروں پر درج ہوتے ہیں   کسانوں کو لبھانے کیلئے،مثلاً۔۔
“درخت اُگاؤ غربت مکاؤ، درخت لگاؤ موسم بچاؤ”۔

شہری بابوں کو آرام دہ زندگی کے خواب دکھانے کے لیے “ایک درخت ایک ائیرکنڈیشنڈ کے برابر ٹھنڈک فراہم کرتا ہے”۔

اور تو اور پچھلے سال کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کراچی نے ڈیفنس کے باسیوں کو ایک ایک مریل سا انار،امرود اورایک اور پودا جس کا نام میں بھول گیا ہوں یقیناً  وہ بھی انار کی قسم کا کوئی دور دیسوں کے قبیلے کے کسی درخت کا بچہ تھا ،فراہم کیے ،اب یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ  کراچی کے موسموں میں یہ پردیسی درخت میرے مالی شفیق جو کہ درختوں کے لیے اپنے نام سے بھی زیادہ شفیق ہے ، کی کوششوں کے باوجود مر گئے، اب اگر پاکستان میں ہر سال تواتر سے ہفتہ یا مہینہ  شجر کاری منانے اور کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود درختوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے تو اسکی سینکڑوں وجوہات ہوں گی ،لیکن بنیادی وجہ یہ ہے کہ  پودے لگا دینا کافی نہیں ہوتا، بلکہ ایک خاص مدت تک ان درختوں کی بچوں کی طرح حفاظت کرنی پڑتی ہے، اور شجر کاری مہم کے بعد یہ ہی نہیں ہو پاتا ۔

پچھلے سال مبشر زیدی سے متاثر ہو کر میں نے بھی سو لفظوں کی کہانی لکھنی شروع کی۔ ان میں ایک کہانی قبرستانوں میں درخت لگاؤ کے نام سے تھی۔ یہ خیال میں نے کئی متعلقہ لوگوں سے ڈسکس کیا لیکن یہ فضول اور غریبانہ سا خیال کسی کو بھی سمجھ نہ آیا، پچھلے اتوار  اگست 2018 میں نے اپنے پڑوسی عاقب ہاشمی صاحب اور عبدل جبار قریشی صاحب( ڈپٹی ایڈووکیٹ جنرل پاکستان) کو فون کیا، اور انہیں کہاکہ  مجھے آپ سے ایک بزنس پروپوزل ڈسکس کرنا ہے، دونوں نے کہا  آجائیں، میں نے کہا نہیں آ پ باہر آ جائیں۔۔۔ اسکے بعد ہم تینوں اپنے گھروں سے تیسری گلی میں نو ایسٹ  سٹریٹ ڈی ایچ اے فیز ون میں واقع قبرستان پہنچے۔ گورکن فرید سے کہا  ہم آپ کو مٹی کھاد بیج اور پنیری لگانے والی پلاسٹک کی تھیلیاں، نیم ،سوانجنا (مورنیگا)کے بیج دیتے ہیں۔ پنیری اُگائیں، قبرستان میں چاروں طرف لگائیں جو لواحقین اپنے پیاروں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں ان سے معمولی پیسے لے کر ان کے لئے درخت لگائیں ،پھر دیکھ بھال کے پیسے لیں ،اور اس قبرستان کو سر سبز کر دیں، گورکن فرید نے خوشی کا اظہار کیا، میں نے عقیل (مٹی کھاد سپلائی والے) کو فون کیا اس نے پانچ سو کی آدھی سوزوکی مٹی اور کھاد قبرستان پہنچا دی ۔عاقب بھائی چالیس روپے کی تھیلیاں اور مشتاق صاحب(میرے ڈرائیور ) کسی کو پچاس روپے دے کر نیم کے بیج اکٹھے کروا کر لے آئے.۔میں نےفصیل آباد سے منگوائے ہوے سوانجنا(moringa) کے بیج دیے ,اس طرح پانچ سو نوے روپے اور ایک دو گھنٹے میں یہ پروجیکٹ شروع ہوگیا۔

یہ ہی کارروائی میں نے سردار معراج کی مدد سے کشمیر کالونی کے مسیحی قبرستان میں کی ،وہاں یہ پروجیکٹ اور سستا شروع ہوا، کیوں کہ  بقول عقیل”اعظم بھائی سوزوکی کھاد مٹی زیادہ ہے ایک بوری کھاد اور ایک بوری مٹی کافی ہے بلکہ بیج لگانے کے لئے کھاد کی نہیں صرف مٹی کی ضرورت ہوتی ہے”۔

اب امید ہے یہ ایک سیلف سسٹینڈ (خود کفیل/انحصار) قسم کا پروجیکٹ ہو گا، اور اگر خدانخواستہ یہ پروجیکٹ فیل بھی ہو گیا تو ملک اور قوم کو کروڑوں کا نقصان نہیں ہو گا ،اور اگر کامیاب ہو گیا تو پانچ سو نوے روپے سے ملک اور قوم کی ماحولیاتی آلودگی کم کرکے اپنی  آنے والی نسلوں کے لیے کروڑوں کا فائدہ ہو گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں ۔15 کتابوں کے مصنف ہیںِ نمایاں  تابوں میں پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، دھرتی جائے کیوں، شناخت نامہ، کئی خط ایک متن پاکستان کے مسیحی معمار ،شان سبز وسفید شامل ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔