ویلنٹائن ڈے۔ ہم خوشیاں کیوں نہیں بانٹتے؟۔۔سہیل احمد لون

دن تو سارے اللہ نے بنائے ہیں البتہ دنوں کا استعمال انسانوں کی مرضی اورمنشا کے مطابق ضرور ہے۔ہم نے شاید طے کرلیا ہے کہ ہم نے ہر خوشی کے موقع پر کوئی نہ کوئی اُستاکاری ضرور لگانی ہے۔ وہ عید ہو یا رمضان ٗ محرم ہوں یا پھر عید میلاد النبی اُس پر کوئی نہ کوئی اختلاف منظر عام پر ضرورآئے گا جب ہم اپنے مذہبی تہوار متفقہ علیہ نہیں منا سکتے تو پھر غیر مذہبی ٗ روایتی یا پھر دنیا کے عالمی گاؤں بننے کے بعد سامنے آنے والے تہواروں پر کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں؟

ہم نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اتنی لاشیں اٹھا لی ہیں ٗ اتنا ماتم و گریہ کر لیا ہے کہ اب ہم خود خوشی کے  دشمن ہوچکے ہیں ٗ ہمیں خوشی کی خبر سن کر شایدسانپ سونگھ جاتا ہے اورعجیب سی  لگتی ہے اسی لیے ہم خوشی کی ہر خبر پر بھی اختلاف کرکے اُسے کچھ نہ کچھ غمگین کرکے اپنی مرضی کے مطابق کر لیتے ہیں۔ فروری کے وسط میں برطانیہ اور یورپ میں شدید سردی اور برف باری کے باعث باغات سمیت ہر شے کو سفید اوڑھنی میں ڈھانپ لیتی ہے۔ایسے میں “سرخ گلاب” بڑا نایاب ہو جاتا ہے۔خاص طور پر ”ویلنٹائن ڈے“ پر اس کی مانگ اور قیمت دونوں میں ایسے اضافہ ہو جاتا ہے جیسے وطن عزیز میں گرمیوں میں بجلی اور سردیوں میں گیس کی آب حیات کی طرح افسانوی سی بات لگتی ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ مغربی ممالک کے اس تہوار کومنانے کے لیے سرخ گلاب کے ساتھ ساتھ کئی دوسری اشیاء بھی بازاروں میں بکنا شروع ہو گئیں جن کا رنگ سرخ ہوتاہے۔ کیونکہ مغربی معاشرے میں سرخ رنگ کو محبت اور پیار کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔اس وقت برطانیہ سمیت یورپ کے دیگر ممالک معاشی بحران کے عذاب سے گز ررہے ہیں ایسی صورت حال میں ترجیحات تبدیل کرنا مشکل ہو چکاہے۔اب لوگوں میں اس تہوار کو منانے میں وہ جوش و جذبہ نظر نہیں آتا جو پہلے کبھی ہوا کرتا تھا۔

گزشتہ کچھ برسوں سے اس تہوار کی مخا لفت کرنے والوں میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کے نزدیک یہ فضول اور محض پیسے کا ضیاع ہے۔مگر حیرانگی اس بات کی ہے گزشتہ کچھ برسوں سے وطن عزیز میں ا س” ولائتی تہوار” کو منانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ اس ولائتی بیمار ی کو پھیلانے میں ہمارے میڈیا کا کردار بھی ایسا ہی  ہے جیسے کرپشن کا وائرس گھر گھر پھیلانے میں حکومت اور ریاستی اداروں کا۔شاید “جمہوریت” اسی چیز کا نام ہے کہ عوام کوئی بھی رسم یا تہوار کسی بھی “رنگ “میں منائیں اُن کے آزادی ِاظہار پر کوئی بھی قدغن نہیں لگائی جا سکتی مغرب کی حد تک تو جمہوریت ایسی ہی ہے اور جب برطانوی پارلیمنٹ کو دوسری پارلیمنٹو ں کی ماں کہا جاتا ہے تو کچھ بعید نہیں کہ سب بچوں کو اس ماں سے ہی سب کچھ سیکھنا پڑے۔

یہ بات اب نیو ائیر یا ویلنٹائن ڈے تک ہی محدود نہیں رہے گی کیونکہ دوسری طرف بھارتی ذرائع ابلاغ اپنی مذہبی رسومات، تہوار، اور کلچر کا پرچار جس رنگین انداز میں کر رہے ہیں اس کے رنگ میں بھی ہمارا معاشرہ بڑی تیزی سے رنگتا جا رہا ہے۔جیسے آج ویلنٹائن ڈے اور نیو ائیر منائے جا رہے ہیں وہ وقت دور نہیں جب “راکھی”اور “ہولی” کے تہوار بھی ادھر عام ہو جائیں گے۔دکھ اور حیرانگی اس بات کی ہے کہ ہم نقل بھی کرتے ہیں تو ان رسموں اور تہواروں کی جوہماری تہذیب، مذہب اور ثقافت کا حصہ نہیں۔ جس کے اپنانے سے ہمارے معاشرے میں کوئی صحت مند تبدیلی نہیں آسکتی۔ جن کی تقلید سے ہمارے نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔

اس کے برعکس مغربی معاشرے میں لا تعداد ایسی اچھائیاں موجود ہیں جن کی نقل کرنے سے ہمارے مسائل کم ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ترقی یافتہ ریاستیں شہری کے حقوق کی ذ مہ دار ہوتی ہے، ہر شہری کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ریاست اپنی پوری کوشش دیانتداری سے کرتی ہے، شہریوں کو بنیادی ضروریات کے لیے ترسنا نہیں پڑتا کیونکہ اسکی ذمہ داری بھی ریاست کی ہوتی ہے، ہر شہری کے لیے بنیادی تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے جس کے حصول کو ہر صورت میں ممکن بنائے جانے کے لیے عملی اقدام کیے جاتے ہیں، بنیادی تعلیم کے اخراجات کا ماں باپ کو فکر نہیں ہوتا، اچھے سکول میں داخلے کے لیے میرٹ کو بنیاد بنایا جاتا ہے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ بچے کے ماں باپ کی معاشی اور سیاسی حالت کیا ہے، غریب آدمی کو قانونی معاملات حل کروانے کے لیے حکومت کی طرف سے(Legal Aid)پر وکیل کا انتظام بھی کیا جاتا ہے، حکمران وقت بھی کسی معاملے میں عدالت میں پیش ہونے پر ہتک محسوس نہیں کرتا اور نہ ہی عدالت کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں، فوجی جرنیل، جج، یا اشرافیہ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہوتا۔

ہمارے ہاں اگر وزیراعظم یا آرمی چیف خود کار چلا کر کہیں چلا جائے تو اس کو بھی ایک خبر کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے جبکہ یہاں (برطانیہ میں) بڑے بڑے وزیر عام شہریوں کے ساتھ لوکل بسوں اور ٹرینوں میں سفر کرتے عام نظر آتے ہیں۔ وہ خود کو عوام کا خدمت گار تصور کرتے ہیں۔ کسی شہری کو اپنے علاقے کے منسٹر یا مئیر کو ملنا اتنا ہی آسان ہوتا ہے جتنا ہمارے ہاں امام مسجد کو ملنا ۔۔

فرق صرف اتنا ہے کہ ادھر کا وزیر عوام کی خدمت کے لیے ہوتا ہے جبکہ ہمارے امام مسجد کی خدمت کے لیے عوام ہوتی ہے۔ قانون و انصاف کی بالا دستی کا یہ عالم ہے کہ کوئی حکمران استثناء کی ڈھال میں اپنے آپکو نہیں چھپاتا اور نہ ہی اپنے قرضوں اور کالی کرتوتوں کو پاک کرنے کے لیے “این آر او کی گنگا میں شنان” کرتاہے۔جہاں عوام کے حقوق کی پاسداری ہو تی ہے وہاں عوام بھی اپنے فرائض انجام دیتی نظر آتی ہے۔ سرکاری،نیم سرکاری، غیر سرکاری ملازمین سمیت بزنس کمیونٹی کے لوگ حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ٹیکس کی چھری صرف مخصوص طبقے پر ہی چلتی ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی قوم کے نظم و ضبط کے معیار کا پتہ لگانا ہے تو اس کے ٹریفک کے بہاؤ کو دیکھ لو۔ لندن کی سڑکیں لاہور سے کم کشادہ ہیں اور ٹریفک کا لوڈ بھی بہت ہے مگر یہاں لوگ ٹریفک کے قوانین کی  پابندی کرتے ہیں جس سے گاڑی کا پہیہ چلتا رہتا ہے۔ جہاں پیدل چلنے والے کے پاس زیادہ حقوق ہیں مگر ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ پیدل چلنے والوں کی کون پروا کرتا ہے اسی لیے تو فٹ پاتھوں پر ٹھیلے لگے ہوتے ہیں اور سڑکوں پر کہیں بھی پارکنگ کرنا عام سی بات ہے۔

دنیا میں آج وہی قومیں ترقی یافتہ یا بہتر زندگی گزار رہی ہیں جنہوں نے اپنا نظام اچھے اصولوں پر استوار کیا۔ حضرت عمر ؓ کا دور خلافت اس لحاظ سے بڑا سنہری دور تھا کہ ان کے عہد خلافت میں بہت سی اصلاحات متعارف کروائیں گئیں جس کی تقلید مغربی ممالک نے کی اور آج وہ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں ہیں۔ہمارے فیملی سسٹم کی مثال دی جاتی تھی اب یہاں بھی مغرب زدہ لوگوں نے اولڈ ہاؤس بنانے اور آباد کرنے شروع کر دیے ہیں۔نقل کرنے میں برائی نہیں مگر بزرگوں کا قول ہے کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ عقل کبھی اپنے مفاد کے خلاف فیصلہ نہیں کرتی۔مگر افسوس ہم نقل بھی کر رہے ہیں اور عقل سے بھی ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویلنائن ڈے منانے میں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں لیکن  بہتر ہوتا کہ ہم زرعی معاشرے کے لوگ اس موقع پر دنیا بھر میں یہ تہوار منانے والوں کو پاکستان سے سرخ گلاب بھیجتے تو دنیا بھر کے  انسان اس تہوا ر پر نا صر ف پاکستانی گلاب مانگ کر پاکستان کا نام سربلند کر رہے ہوتے بلکہ اپنے اس تہوار میں ہمیں شامل سمجھتے ہوئے اور کروڑوں ڈالر سرخ گلاب کی خریداری کی صورت میں پاکستانی عوام کی جیب میں ہوتے لیکن افسوس کہ اپنے دیس میں تو عوام کی  جیب میں ڈالنے کی نہیں نکلوانے  کی عادت عروج پر ہے سو حکومت کوئی ایسا کام نہیں کرئے گی جس سے عوام خوشحال ہو اور پاکستان کا ہر دن ویلنٹائین ڈے بن جائے۔

Facebook Comments