زلزلے کیوں آتے ہیں؟۔۔سعید چیمہ

اس شخص کی برگزیدگی لاریب ہے جس کو خدا تعالیٰ اپنا دوست کہہ دیں، سیدنا ابراہیم کی عظمت تین ادیان میں مسلمہ ہے، یہودیت، عیسائیت اور اسلام۔ نوعِ انسانی کے صبر کو اگر سیدنا ابراہیم کے صبر کے ساتھ تولا جائے تو یقیناً سیدنا ابراہیم کے صبر والا پلڑا جھک جائے گا، آپ کی عظمت کا اندازہ کیجیے، “اور وہ (ابراہیم)  لوط کی قوم کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرنے لگا”، یہاں جھگڑے سے مراد وہ دلائل ہیں جو سیدنا ابراہیم ان دو فرشتوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں جو سیدنا لوط کی قوم کی بربادی کا پروانہ لے کر آئے ہیں،  قومِ لوط کی بدبختی کہ خلیل اللہ کے دلائل سے بھی ان پر آنے والا عذاب نہ ٹلا،  ان بد بختوں کا جرم ہی اس قدر سنگین تھا۔ مگر سیدنا ابراہیم کے صبر سے خدا تعالیٰ اس قدر راضی ہوئے کہ قیامت تک امامت (نبوت) کے لیے ان کی آل کو چن لیا،  پہلے بنی اسرائیل اور پھر بنو اسماعیل۔

نبوت جب مستقل طور پر آلِ ابراہیم میں منتقل ہوئی تو اللہ نے اپنی ایک سنت بھی تبدیل کر لی، پہلے اللہ کا قاعدہ یہ تھا کہ جو قوم سرکشی میں حد سے آگے بڑھ جاتی تو عذاب ان کا مقدر کر دیا جاتا،کسی قوم پر پتھروں کی بارش کی گئی تو کوئی تیز آندھی سے ہلاک کر دئیے گئے،  کوئی بندر بنا دئیے گئے تو کوئی سیلاب میں ڈبو دئیے گئے،  مگر نبوت کے لیے منتحب ہونے والی امت بنی اسرائیل جب حد سے آگے بڑھے تو ان پر دوسری قومیں مسلط کر دی گئیں، پہلے بابلیون (موجودہ عراق) کے باشندے اور پھر رومی (تفصیلات کے لیے مولانا ابوالاعلیٰ صاحب مودودی کی تفہیم القرآن کی مراجعت فرمائیں)،  یہ دونوں قومیں مشرک تھیں، مگر اللہ نے ان کو اپنا بندہ کہا، “ہم نے تم پر اپنے بندے بھیجے، زور والے، جو تمہارے گھروں میں گھس پڑے اور وعدہ پورا ہو کر رہا”، یہی معاملہ بنو اسماعیل کے ساتھ بھی ہوا، کبھی صلیبی مسلط کر دئیے گئے تو کبھی شمال سے آنے والے منگولوں نے امتِ آخرہ کے تار پود بکھیر دئیے۔

یہ تمہید اس لیے باندھی ہے تا کہ جو معاملہ زیرِ بحث آنے والا ہے وہ واضح ہو سکے، گزشتہ شب جو زلزلہ آیا تو سبھی کے دل کے کونے کھدرے میں سسکتا ہوا ایمان دوبارہ زندہ ہو گیا، ہر کوئی کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگا، کسی کا مشورہ یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا جائے،  تو کسی کے اندر دبکا ہوا دانشور دھاڑا کہ یہ زلزلے ہمارے اعمال کی وجہ سے آتے ہیں، گویا ہر کوئی بہتی ہوئی پوتر گنگا میں ہاتھ دھونے لگا۔

صاحبو! اصل معاملہ یہ ہے کہ زلزلے نہ تو خدا کا عذاب ہیں اور نہ ہی ہمارے اعمال اس کا سبب بنتے ہیں، ہاں البتہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ زلزلے خدا کی طرف سے تنبیہ ہوتے ہیں، ان تنبیہات کا معاملہ یہ ہے کہ عقل والے کو اگر نیند نہ آئے تو وہ نصیحت حاصل کر لیتا ہے اور سرکش کی صورتحال یہ ہے کہ طوفانِ بادوباراں سے بھی اگر بچ نکلے تو نافرمانی پر بدستور قائم رہتا ہے، ان کفارِ مکہ کی طرح جو سمندر میں محوِ سفر ہوتےتو طوفان ان کو آ گھیرتا، ہلکورے کھاتی کشتی میں دعا کرتے کہ اگر  اس طوفان سے بچ گئے  تو ہم ایک اللہ پر ایمان لے آئیں گے،  مگر خشکی پر پہنچتے ہی دوبارہ سرکش ہو جاتے، ویسے بھی جو قوم پچھلے ستر سالوں سے ہر طرح کی اخلاقی برائی میں مبتلا ہو  اور پھر بھی اس کا نام و نشان کرہ ارض پر موجود ہو تو سمجھ لیجیئے کہ خدا نے اپنی سنت بدل لی ہے،  اور خدا اب مہلت کی رسی دراز کیے جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ رسی جتنی دراز کر کے کھینچی جائے گی، جھٹکا اتنا ہی زور دار لگے گا، اب بس خدا کی طرف سے جھٹکا لگنے کا انتظار ہے، خدا جانے یہ خوش فہمی ہم میں کیسے عود کر آئی ہے کہ ہم اللہ کے پسندیدہ ہیں، جو نہ مغلوب ہوں گے اور نہ ذلیل، مگر تاریخ کے حقائق کچھ اور بتاتے ہیں،  وہ قومیں عظمتِ رفتہ کا شکار ہو گئیں جنہوں نے خدا کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈالا، عظیم خوارزم شاہ کی سلطنت کہاں ہے، ترکوں کی عظیم افواج کہاں گئیں، سلجوقی سلطنت کس خطے میں تھی، تاریخ کے اسباق سے سبق لینا بہت کٹھن کام ہے، اور کٹھن کام ہمیں ویسے بھی پسند نہیں ہیں۔

Facebook Comments