• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لڑکی کا نکاح میں اختیار : ایک شرعی جائزہ          ۔۔                     ڈاکٹر محمدعادل

لڑکی کا نکاح میں اختیار : ایک شرعی جائزہ          ۔۔                     ڈاکٹر محمدعادل

اللہ تعالیٰ  نے مرد وعورت کو ایک دوسرے کے لئے سکون کا باعث بنایا ۔لیکن یہ  مقصد اس وقت حاصل ہونا ممکن ہے جب دونوں صنف ایک دوسرے کے ان حقوق کی پاسداری کرے جو شریعت اسلامی نے  ان میں سے ہر ایک کو عطا کی ہے۔شریعت کے مقرر کردہ حقوق ہی پر سکون گھریلوں اور معاشرتی زندگی کی ضمانت ہے ۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں شرعی احکامات سے لاعلمی کی وجہ سے عورتوں کو ان کے بعض حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے، جو کہ معاشرتی مسائل کا سبب بنتاہے۔

عورتوں کے حقوق سے متعلق ایک  سنگین مسئلہ نکاح میں اختیار کا سلب کرنا اور جبری شادی کی صورت میں  ہے۔ ہمارے معاشرے میں  نکاح کے معاملے میں عورت کی رائےکو  کوئی اہمیت نہیں  دی جاتی اور بسا اوقات اس کی  مرضی کے مکمل خلاف اس کا رشتہ طے کر دیا جاتا ہے  اور اس کے انکار پر نتیجہ جسمانی  و ذہنی تشدد اور بعض اوقات موت کی صورت میں نکلتا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے معاشرہ انہی رسومات وقبائلی  روایات میں گھرا ہوا تھا اور آپ نے انتہائی دانشمندی سے خود کو بطور نمونہ پیش کرکے ان ظالمانہ قبائلی روایات و رسومات کی بیخ کنی کی ۔ موجودہ دور میں بھی صنف نازک کو محفوظ زندگی اور اس کے حقوق تب ہی دلائے جائے سکتے ہیں کہ ان مسائل کو شرعی نقطہ ٔ نظر سے پرکھ کر اس کا حل ڈھونڈا جائے۔زیرِ نظر  مضمون  میں  لڑکی کو نکاح اختیار سے محرومی کے مسئلے کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور اس کی شرعی حیثیت بیان کی گئی ہے۔

بالغہ لڑکی کا نکاح میں اختیار کا شرعی جائزہ

اللہ تعالیٰ نے تمام  اشیاء کے جوڑوں کی طرح بنی نوع انسان  کو بھی  جوڑوں کی شکل میں پید افرمایا اور ان کو ایک دوسرے کے لئے سکون کا باعث قرار دیا ، ارشاد ربانی ہے:

“هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا[1]

ترجمہ: وہ خدا ہی تو ہے جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ اس سے راحت حاصل کرے۔

ایک اور  جگہ ارشاد ہے:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً[2]

ترجمہ: اسی کی نشانیوں  میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم میں سے ہی جوڑے بنادئیے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت و ہمدردی پیدا کر دی۔

اور اسی سکون  کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ نے نکاح کو مشروع کر دیا ہے ۔لیکن نکاح سکون و اطمینان کا  باعث تب  ہوگا، جب کہ   نکاح سے متعلقہ تمام معاملات فریقین کی باہمی رضا مندی سے طے پائیں۔ کیونکہ نکاح عبادت کے  ساتھ ساتھ مرد وعورت کے مابین ایک سماجی معاہدہ(Social Contract)بھی ہے اور اس کی پائیداری فریقین  کی رضا اور عزت نفس کا خیال رکھنے سے متعلق  ہے۔اس کے برعکس اگر  فریقین میں سے کسی ایک کو بھی مجبور کیا جائے یا اس کی مرضی کے خلاف معاملات طے کئے جائیں ،تو نکاح سکون و اطمینان کی بجائے مزید بے سکونی و بے اطمینانی اور معاشرتی مسائل کا سبب بنتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ  شریعت نے نکاح میں لڑکی کو برابر کا فریق قرار دے کر  اس کو اپنے نکاح کا مکمل اختیار دے دیا۔ احادیث مبارکہ میں جا بجا اس کے متعلق رہنمائی موجود ہے،ذیل میں اسے  شق وار ذکر کیا جاتا ہے:

1:            صحیح مسلم   میں رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا گیا ہے:

ترجمہ: ثیبہ(وہ عورت  جو شادی کے بعد بیوہ یا مطلقہ ہو چکی ہو) کا اپنے نفس کے متعلق اختیار اپنے ولی سے بڑھ کر ہے اور باکرہ (کنواری)سے اس کے نفس کے متعلق پوچھا جائے گااور اس کی اجازت اس کاسکوت اختیار کرنا ہے[3]۔

2:             سنن نسائی میں   روایت ہے:

ترجمہ: ثیبہ کا اپنے نفس کے متعلق اختیار اپنے ولی سے بڑھ کر ہے[4]۔

3:            نکاح  میں لڑکی کو اختیار دینے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک لڑکی اپنے باپ کی  شکایت لے کر آئی کہ  باپ نے اس سے بغیر پوچھے اس کا نکاح کر دیا ہے۔تو رسول اللہ ﷺ نے  اس کو  نکاح فسخ کرنے کا اختیار دے دیا، سنن ابی داؤد میں منقول روایت میں اس  واقعہ کا  ذکر ان الفاظ میں موجود ہے:

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک باکرہ  لڑکی آئی اور کہا کہ اس کے باپ نے  اس  کی رضا مندی کے بغیر اس کا نکاح  کر دیا ہے  تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو نکاح فسخ کرنے کااختیار دے دیا [5]۔

4:            اسی طرح جب  سیدہ بریرہؓ  آزاد  کی گئی اور انہوں  نے خیار عتق(آزادی کے بعد اختیار ) کا استعمال کرتے ہوئے اپنے شوہر سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کو بطور مشورہ اپنے شوہر کو نہ چھوڑنے کا کہا اور کوئی حکم یا زبردستی نہ کی ۔ سنن نسائی میں روایت ہے:

ترجمہ: بریرہؓ کے شوہر  ایک غلام تھے جن کا نام مغیث تھا ،گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ اس کے پیچھے مدینہ کی گلیوں میں روتا ہوا گھومتا رہا ہے،تو رسول اللہ ﷺنے سیدنا عباس ؓ سے فرمایا کہ  کیا تجھے مغیث کا بریرہ کے لئے محبت اور بریرہ کا مغیث کے  ساتھ نفرت تعجب میں نہیں ڈالتی؟ پھر رسول اللہ ﷺنے بریرہ ؓ سے  فرمایا کہ تم مغیث کی طرف رجوع کروکیونکہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے تو بریرہ ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ آپ مجھے حکم دے رہے ہیں؟ تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ نہیں  میں تو صرف سفارش کر رہا ہوں،تو بریرہ ؓ نے کہا کہ مجھے مغیث میں کوئی دلچسپی نہیں ہے[6]۔

حدیث بریرہؓ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حاکم ہوتے ہوئے بھی سیدہ بریرہ ؓ پر کوئی زبردستی کرنے کی بجائے  محض یہ سفارش کی کہ اپنے شوہر کو نہ چھوڑے  اور اس کے نہ ماننے پر رسول اللہ ﷺ نے کوئی ناراضگی ظاہر نہ کی ،بلکہ اس کی مرضی کو بخوشی تسلیم کیا۔

مندرجہ بالا  روایات  سے ثابت ہوتا ہے کہ بالغہ  کی نکاح  میں  اس سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنا شریعت کی رو سے ناجائز ہے۔

ہمارا المیہ!

ہمارے ہاں معاشرتی  رکاوٹوں کی وجہ کو ئی لڑکی انکار نہیں کر سکتی بلکہ اسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہر صورت میں والدین اور  خاندان کے فیصلے  کو مانے۔لہٰذا اگر لڑکی کی رضا کے بغیر اور اس کے اختیار کو سلب کرکے نکاح کیا جائے اور لڑکی  معاشرتی دباؤ کی وجہ سے انکار نہیں کر پاتی تو اس  صورت میں احناف کے نزدیک نکاح منعقد ہوجائے گا  [7]۔لیکن لڑکی کو اختیار سے محروم کرنا شریعت کی خلاف ورزی اور ناجائز  ہے۔

نتائج

  • شریعتِ اسلامی نے نکاح میں تمام متعلقہ افراد کی رضا کو اہمیت دی ہے اور اس کے ثمرات اس وقت صحیح طریقے سے حاصل ہوں گے،جب کہ تمام متعلقہ  افراد راضی ہوں۔
  • بالغہ لڑکی کو اس کے نکاح کا مکمل اختیار دیا گیا ہے اور اسے اس اختیار سے محروم کرنا ناجائز اور خلاف شریعت ہے۔
  • شادی میں اگر لڑکی کی رضا کا خیال رکھا جائے تو شرعی طور صحیح ہونے کے ساتھ دنیوی فوائد  بھی حاصل ہوں گے۔
  • بڑھتے ہوئے طلاق و خلع کے واقعات میں کمی کے لئے بھی ضروری ہے کہ نکاح میں لڑکی کو شریعت کے مطابق مکمل اختیار دیا جائے۔

حواشی وحوالہ جات

[1]           سورۃالاعراف، ۷ : ۱۸۹

[2]           سورۃ الروم،۳۰ : ۲۱

[3]        ٍصحیح مسلم، حدیث نمبر : ۱۴۲۱

[4]        ٍسنن النسائی، حدیث نمبر: ۳۲۶۱

[5]           سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۰۹۶

[6]           سنن  النسائی، حدیث نمبر: ۵۴۱۷

Advertisements
julia rana solicitors

[7]        بدائع الصنائع ،۲ :۳۱۰

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا