زندگی کا ذائقہ۔۔امیرجان حقانی

سوشل میڈیا اپنے افکار و نظریات اور خیالات کو لحظوں میں لاکھوں لوگوں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔اس کو جتنا ہوسکے مثبت استعمال کیا جانا چاہیے۔
میرا معمول ہے کہ فیس بک میں، ایک جملہ پر مشتمل کلر پوسٹ کرتا ہوں۔ اس ایک لائن میں کوئی علمی بات، سبق آموز جملہ اور سماج سدھار پر مشتمل کوئی بات شیئر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ الحمدللہ! بہت سارے احباب پڑھتے ہیں۔ کمنٹس کرتے ہیں۔ اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں۔ میں احباب کو اظہار خیال کے لیے باقاعدہ دعوت دیتا ہوں۔اس طرح مجھے دیگر احباب سے سیکھنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ چند احباب ایسے ہیں جو اس ناچیز کی ٹوٹی پھوٹی باتوں کو بہت ہی سنجیدگی اور مثبت انداز میں لیتے ہیں۔
ان میں محترم یونس سروش صاحب سرفہرست ہیں۔
وہ کبھی کبھار میرے ایک جملہ پر کوئی عالمانہ و ادیبانہ شہہ پارہ رقم کرجاتے ہیں جسے پڑھ کر میں خود محظوظ ہوتا ہوں۔ آج بھی ایک جملہ شیئر کیا تھا جس پر یونس سروش صاحب نے ایک شاندار مفکرانہ کمنٹ کردیا۔ احباب کے استفادہ کے لئے من و عن شیئرکررہا ہوں۔
میرا جملہ یہ تھا۔ “زندگی کا اصل ذائقہ چکھنا ہے تو اللہ کی مخلوق سے بے لوث محبت کی جائے۔”
اس ایک سطری جملہ پر سروش صاحب کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے۔۔ لکھتے ہیں:
“دل کو چھونے والی بات۔انسان کو اسی مشن کی تکمیل کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے ۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کرّوبیاں
ہم سکون، خوشی، راحت آسائشوں میں ڈھونڈتے ہیں۔ یہ آسائشیں ہمیں اپنے ارد گرد کی دنیا سے، لوگوں سے دور کر دیتی ہیں۔ پہلے میں ہر روز ا پنے محلے کے کم از کم دس بندوں سے ملتا تھا ۔ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا تھا ۔ مگر سواری کی سہولت حاصل ہوتے ہی میرا ربط مٹی سے کٹ گیا۔ اب مہینوں بعد کسی اپنے کی صورت دیکھنے کو ملتی ہے ۔ رشتوں کی ڈور کٹ کر رہ گئی ہے ۔ جن سے پہلے معانقہ اور مصافحہ ہوتا تھا، اب ان سے دور کی صاحب سلامت بھی بمشکل ہو پاتی ہے ۔ بقولِ شاعر
جس قدر تسخیرِ خورشید و قمر ہوتی گئی
زندگی تاریک سے تاریک تر ہوتی گئی
کائناتِ ماہ و انجم دیکھنے کے شوق میں
اپنی دنیا سے یہ دنیا بے خبر ہوتی گئی ۔۔
آج ہم خود غرضی کی دلدل میں تھوڑی تک دھنس چکے ہیں۔ اپنی ذات کی تعمیر کا جنون ہمیں تیزی سے تنہا کر رہا ہے ۔ حرص و ہوس کی دیمک ہمیں اندر سے چاٹ رہی ہے ۔ ہم حاصل سے خوش نہیں ہیں ۔ اس لئے ان نعمتوں سے لطف اندوز نہیں ہوتے جو دستیاب ہیں اور لاحاصل کی تلاش میں ایک ایک کر کے حاصل کو گنوا رہے ہیں۔ ان نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت سکون اور طمانیت کی ہے جو دوسروں کی اشک شوئی سے ملتی ہے ۔ دوسروں کے غم بانٹنے ، ان کے بجھے چہروں کی رونق بحال کرنے سے ملتی ہے، اس کا ادراک صاحبانِ بصیرت ہی کر سکتے ہیں۔
ڈیجیٹل دور کے لوازمات کی بھرمار نے انسانوں کو مزید محاصرے میں لے لیا ہے ۔ ایک ہی گھر کے اندر رہنے والوں کے درمیان اَن دیکھی دیواریں کھنچ گئی ہیں۔بوڑھے ماں باپ جوان اولاد کی زبان سے اور چھوٹے بچے والدین کی زبان سے پیار و محبت کے دو بول سننے کو ترس گئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال تو بنتا ہے کہ جو شخص اپنے خونی رشتوں سے لاتعلقی اختیار کر چکا ہے ۔ وہ پاس پڑوس کے انسانوں کے دکھ سکھ سے کیسے باخبر رہ سکتا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کی تاریک گلیوں میں کھو چکے ہیں۔ اور مقصدِ حیات یعنی خد مت انسانیت کی شاہراہ سے بھٹک چکے ہیں۔ اور حسرتوں کے صحرا میں ناتمام آرزوؤں کے سراب کے پیچھے انجامِ بد کی پرواہ کئے بنا بھاگ رہے ہیں۔ گفتگو کا حاصل یہ کہ۔
خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا۔”۔

Facebook Comments

امیر جان حقانی
امیرجان حقانیؔ نے جامعہ فاروقیہ کراچی سےدرس نظامی کے علاوہ کراچی یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس اور جامعہ اردو سے ماس کمیونیکشن میں ماسٹر کیا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی فکر، تاریخ و ثقافت کے ایم فل اسکالر ہیں۔ پولیٹیکل سائنس کے لیکچرار ہیں۔ ریڈیو پاکستان کے لیے2010 سے مقالے اور تحریریں لکھ رہے ہیں۔اس کے ساتھ ہی گلگت بلتستان کے تمام اخبارات و میگزین اور ملک بھر کی کئی آن لائن ویب سائٹس کے باقاعدہ مقالہ نگار ہیں۔سیمینارز اور ورکشاپس میں لیکچر بھی دیتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply