سائنس کیا ہے؟ (28,آخری قسط)۔۔وہاراامباکر

کارل پوپر نے سوال اٹھایا تھا کہ سائنس اور سوڈوسائنس میں لکیر کہاں کھینچی جائے؟ انہوں نے اس کا ایک پہلا جواب دینے کی کوشش کی تھی جس کے مطابق کوئی ایک ایویڈنس کسی ہاپئوتھیسس یا تھیوری کو رد کرنے کی لئے کافی ہے۔ پوپر کا اپنا خیال ناکافی ہے۔ اصل سائنس پر یہ سادہ جواب کام نہیں کرتا۔ سائنس کا فلسفہ اس سے آگے اور زیادہ نفیس طریقوں کی طرف بڑھ چکا ہے۔ (تفصیل نیچے لنک سے)۔
سائنس اور غیرسائنس کو الگ کرنے کا سادہ جواب اس لئے نہیں کہ یہ مسئلہ سادہ نہیں۔ سائنس کی تاریخ، نرم اور سخت سائنس، نیم سائنس اور سوڈوسائنس کا تجزیہ، دانشوروں یا ماہرین کا تجزیہ یہ سب اپنی جگہ۔ سوال یہ کہ اس سے سائنس کی تصویر کیا ابھرتی ہے؟ اور ایک آزاد معاشرے میں یہ تصویر ہمیں زیادہ باخبر شہری رکھنے میں کیسے مدد کر سکتی ہے؟
یہ تو واضح ہو چکا ہو گا کہ سائنس ایک قسم کی ایکٹیوٹی نہیں ہے۔ اس کو کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس کا انحصار زیرِ مطالعہ مضمون کی پیچیدگی سے ہے (پارٹیکل فزکس بمقابلہ نیوروبائیولوجی) یا اس سے ہے کہ سسٹم کا اپنا تعلق ہسٹری سے کتنا ہے (کیمسٹری بمقابلہ آسٹرونومی)۔ جتنا سادہ آبجیکٹ ہو گا، اتنے زیادہ پریسائز جوابات ہوں گے۔ جتنا پیچیدہ ہو گا، اتنی زیادہ شماریاتی اپروکسیمیشن پر انحصار کرنا ہو گا۔ اس کا تعلق اس بات سے نہیں کہ کس شعبے میں سائنسدان زیادہ قابل ہیں یا کونسا طریقہ بہتر ہے بلکہ اس سے ہے کہ ہمارے پاس تصوراتی اوزار اور پیمائشی آلات ہماری کتنی مدد کر سکتے ہیں۔
سخت اور نرم سائنس کا ایک سپیکٹرم ہے، جو یہ نہیں بتاتا کہ سائنس کتنی “اچھی” ہے بلکہ یہ کہ زیرِمطالعہ موضوع کی اپنی نیچر کیا ہے۔ لیکن ہر قسم کی سائنسی انکوائری میں مشترک چیز ایسی تھیوری اور ہائپوتھیسس کی تعمیر ہے جس کی تصدیق ایمپیریکل طریقے سے کی جا سکے۔ تین عناصر ہیں جو سائنس کو دیگر انسانی ایکٹیوٹی سے جدا کرتے ہیں۔ نیچرل ازم، تھیوری اور ایمپریسزم۔ سائنس کا تعلق نیچرل فینامینا اور پراسس سے ہے۔ اس کی اپنی تعریف کے مطابق اس کا سپرنیچرل ازم سے کچھ لینا دینا نہیں۔ سپرنیچرل کی موجودگی یا عدم موجودگی کو ثابت کرنے کی کوشش سائنسی نہیں ہے۔ اس پر رائے کا تعلق سائنس سے نہیں، خواہ ایسا کام سائنسدان ہی کیوں نہ کریں۔ “نیچرل عوامل کی وجہ نیچرل ہے”۔ یہ فقرہ سائنس کی مرکزی بنیاد ہے۔ (اور یہ وجہ ہے کہ کری ایشن ازم کا خیال سائنس نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے)۔


باربط تصوراتی کنسٹرکٹ سائنس کا لازمی جزو ہیں۔ ان کو ہم تھیوری یا ہائپوتھیسس کہتے ہیں۔ سائنس دنیا کے بارے میں فیکٹ اکٹھا کرنے کی کلکشن نہیں ہے۔ نہ ہی فیکٹ اکٹھے کرنے سے سائنسی تھیوری نمودار ہو جاتی ہے۔ (یہ فرانسس بیکن کا خیال تھا)۔ تھیوری انسانی ذہن کی تخلیقی صلاحیت کا نتیجہ ہیں۔ یہ ہماری اس دنیا کی تُک بنانے کی بہترین کوشش ہیں۔
لیکن صرف تھیوریاں کافی نہیں۔ ورنہ سائنس اور فلسفے میں فرق نہ ہوتا۔ سائنسی تحقیق کی مثلث کو مکمل کرنے میں ایمپریکل انفارمیشن کا کلیدی کردار ہے۔ شواہد جو تجربات سے بھی آ سکتے ہیں۔ طریقے سے کئے گئے مشاہدات سے بھی۔
کسی طریقے سے تصدیق یا تردید کئے جانے کی اہلیت سائنس کو غیرسائنس سے جدا کرتی ہے۔ اور اس وجہ سے سٹرنگ تھیوری، ارتقائی نفسیات جیسے خیالات سائنس کا باقاعدہ حصہ اس وقت تک نہیں کہلا سکتے جب تک کوئی معقول طریقہ نہ ہو جس سے ان کی تھیوریوں کا مقابلہ ڈیٹا سے کیا جا سکے۔
ظاہر ہے کہ بہت سی انسانی سرگرمیاں سائنس نہیں۔ مثلاً، آرٹ میں پسند یا ناپسند پر ایمپریکل سروے کیا جا سکتا ہے۔ ذوق بھی نیچر کا حصہ ہے کیونکہ انسانی کلچر بھی مافوق الفطرت شے نہیں، نیچر کا ہی حصہ ہے۔ لیکن جب تک ذوق پر تحقیق کے پیچھے ایک مجموعی تصوراتی سٹرکچر (تھیوری) نہ ہو جس سے ٹیسٹ کئے جانے کے قابل خاص ہائپوتھیسس پیدا نہ کئے جا سکیں، یہ سائنس نہیں ہو گی۔
اور سوڈوسائنس؟ اس کی کیا تصویر ابھرتی ہے؟ کوئی بھی ایسا فیلڈ جس میں یہ تینوں عناصر نہ ہوں، لیکن سائنس کہلانے پر اصرار کرے، سوڈوسائنس ہو گا۔ مثال کے طور پر کری ایشنزم کے ساتھ مسئلہ نیچرل ازم کا ہے۔ آسٹرولوجی میں کوئی ابتدائی سے تھیوری تو موجود ہے اور سپرنیچرل پر انحصار نہیں لیکن اس کی تھیوری انتہائی ناقص ہے (مثلاً، چاند، ستاروں اور سیاروں کے اثرات میں ربط نہیں) اور جب ڈیٹا کے ساتھ ایمپیریکل ٹیسٹ کیا جاتا ہے تو مسلسل ناکام رہتی ہے۔
کئی بار ابتدا میں اچھی لگنے والی سائنسی انکوائری بھی سوڈوسائنس کی تاریکی میں جا سکتی ہے جب اس میں ایمپریکل ٹیسٹ کرنے سے انکار کر دیا جائے مثلاً سرد فیوژن۔
کئی شعبے تو بالکل واضح ہیں لیکن سائنس، غیرسائنس اور سوڈوسائنس کے بیچ لکیریں اتنی واضح نہیں جتنا کہ کئی سائنسدان سمجھتے ہیں۔ کوئی ایسا لٹمس پیپر نہیں جس کی مدد سے اچھی اور بری سائنس میں فوراً فرق سامنے آ جائے۔ کئی فیکٹر ہیں اور ان کا وقت کے ساتھ اپنا بدلتا کردار ہے۔ کئی بار معزز شعبے سوڈوسائنس کی خاصیت اپنانے لگتے ہیں جبکہ کبھی سائنس کے کناروں پر پائے جانے والا شعبہ ابھر کر اچھی اور میچور سائنس میں آ جاتا ہے۔ مثلاً، آج سے بیس برس پہلے کوانٹم بائیولوجی “مشکوک” سمجھا جانے والا علاقہ تھا۔ اب یہ مین سٹریم سائنس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور نتیجہ جو اب تک واضح ہو چکا ہو گا، وہ یہ کہ سائنس، خواہ وہ اچھی سائنس ہی ہو، Truth کی گارنٹی نہیں۔ سائنس پیچیدہ معاشرتی سرگرمی ہے۔ اس کو کرنے والے محدود انسان ہیں۔ یہ ایک زمانے اور ایک معاشرے کا حصہ ہیں۔ ان پر اپنے وقت اور اپنی جگہ کے اثرات ہوتے ہیں۔ ان کے پاس جو دماغ ہے اس کا اصل کام روزمرہ زندگی کے مسائل کر کرنا ہے، نہ کہ منطقی انداز میں اور غیرجانبداری سے اشیا کی نیچر کے بارے میں آفاقی سوالات کا پیچھا کرنا۔
کچھ سائنسدان ایسے ہیں جو غیرسائنسدانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ دوسرے شعبوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ خود اس لئے ہے کہ سائنسدان انسان ہی ہیں اور لغزشوں کا مجموعہ ہیں۔ اپنے علم پر اور اپنے گروہ پر غرور انسانی صفت ہے۔
اور یہاں پر ہم سائنس کی نیچر کے بارے میں سٹڈی کرنے کی بھی حد آ جاتی ہے۔
ہمارے پاس اچھے اوزار ہیں (بے عیب نہیں) جن سے ہم بری سائنس یا سوڈوسائنس کو پہچان سکتے ہیں۔ مضبوط سائنس کی بڑی حد تک اچھی شناخت کر سکتے ہیں۔ جہاں پر انفرادی سائنسی بیانات کا تعلق ہے یا پھر ایسے جھگڑوں کا تعلق ہے جو جذبات کے میدان میں داخل ہو جاتے ہیں (مثلاً، ماحولیات سے متعلق) تو پھر یہ حل آسان نہیں رہتے۔ صرف یہ کہ ہمارے اچھے اوزار مدد ضرور کر دیتے ہیں۔
آخر میں، ہمارے پاس کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ ایسے مسائل میں، جنکا تعلق معاشرے سے ہے، ہمیں سنجیدگی سے حصہ لینا چاہیے جس کا تعلق اس سے ہے کہ ہمیں ان کی پرواہ کتنی ہے۔ اس کا تعلق معاشرتی ذمہ داری سے ہے۔ مثلاً، اگر آپ ماحول کی پرواہ کرتے ہیں تو آپ کی جو بھی سیاسی یا نظریاتی ہمدردی ہے، اس کے بارے میں کچھ گہرائی سے اہم معاملات کا مطالعہ کریں۔ اپنا ذہن ممکنہ حد تک تعصب سے بالاتر ہو کر بنائیں۔ اگر آپ کو معاشرے کی اور اپنی صحت کی پرواہ ہے تو بیماری، ویکسین، ادویات، طریقہ علاج کے بارے میں کچھ مطالعہ کر لیں۔ جراثیم غیرسیاسی اور غیرنظریاتی ہیں۔
اس دنیا کو، اس معاشرے کو، خود کو ۔۔۔ جاننے کا ایک بہتر طریقہ۔ اس دنیا کی، اس معاشرے کی، خود کی ۔۔۔ حالت بہتر کرنے کا ایک اوزار۔
بس یہی سائنس کی سائنس ہے۔

ختم شُد

Advertisements
julia rana solicitors

سائنس کو الگ کرنے پر
https://plato.stanford.edu/entries/pseudo-science/

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply