کسانوں کا درد اہلِ اقتدار کیا جانیں ۔۔ابھے کمار

قومی راجدھانی دہلی کے باڈر پر، ملک کے ہزاروں کسان زرعی قانون واپس لیے جانے کے مطالبے کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ جہاں ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنے گھروں کے اندر لحاف اوڑھے ہوئے محفوظ ہیں، وہیں کسانوں کو اس کڑاکے کی سردی میں کُھلے آسمان میں دن رات گزارنے  پڑ رہے  ہیں۔ یہ احتجاج کئی مہینوں سے چل رہا ہے، تعطل اب بھی برقرار ہے۔ میڈیا کی خبروں کے مطابق، تحریک پر بیٹھے ۷۰ سے زیادہ لوگ سردی اور دیگر وجوہات سے دم توڑ چکے ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود بھی حکومت بے حس بنی ہوئی ہے۔ کسانوں کے اوپر ہو رہے ظلم کو دیکھ کر پتھر بھی رو پڑے، مگر جمہوریت کی دہائی دینے والی حکومت لاش سے بھی زیادہ سرد معلوم پڑتی ہے۔

کسانوں کی بات سُننے اور اس پرغور کرنے کے بجائے، پولیس اور انتظامیہ جائے احتجاج پر نُوکیلے کیل گاڑ رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں کٹیلے تار بچھائے جا رہے ہیں،بیرکیڈ کی دیوار سڑک پر پہلے ہی اٹھائی جا چکی ہے۔ ظلم کی انتہا تب ہو گئی جب دھرنے پر بیٹھے لوگوں کے لیے پانی کی سپلائی روک دی گئی۔ جب اس سے بھی لوگوں کا حوصلہ پست نہیں ہوا تو  سنگ باری کی گئی۔ حملہ آوروں کو بھیجا گیا۔ پولیس لاٹھیاں تو برساتی ہی رہی ہے اور پالتو میڈیا   اناج پیدا کرنے والوں کو جم کر بدنام کرتا ہی رہا ہے۔ کسانوں کو ‘ملک کا غدار’ کہا گیا اوران کے تار ‘دہشت گرد’ تنظیموں سے بھی جوڑ دیے گئے۔ پڑوسی ملک کو بھی گھسیٹا گیا۔ مگر اب تک ارباب اقتدار کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ کسانوں کی تحریک برسرِ اقتدار جماعت کے نا قابل ِ فتح ریکارڈ کو توڑ رہی ہے۔ شاید بھگوا اونٹ گزشتہ کئی سالوں میں پہلی بار پہاڑ کے نیچے آتا دِکھ رہا ہے۔

در اصل یہ لڑائی کسی کی جیت اور ہار کی  ہے ہی نہیں۔ سرکار نے خود اسے اپنی انانیت کا موضوع بنا لیا ہے۔ جمہورت کا دوسرا نام ہی اتفاق ہے۔ جمہوریت کا دوسرا نام سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہے۔ اگر سب کے مفاد کا خیال رکھنا ہے تو ضد کو چھوڑنا ہوگا۔ اگر جمہوریت کو کامیاب ہونا ہے تو دوسروں کے زاویہ سے بھی چیزوں کو دیکھنا پڑتا ہے۔ زور زبردستی اور طاقت کا استعمال جمہوری اقدار کے منافی ہے۔ کاش! یہ بات بر سر اقدار جماعت کو سمجھ میں آ جاتی۔ کاش وہ ان کا درد سمجھ پاتی جن کی وجہ سے ہماری تھالی میں ہر روز روٹی اور چاول پہنچے ہیں۔ مگر ایسا کچھ بھی ہوتا نہیں دکھائی  دے  رہا ہے۔ مثال کے طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کا پیر کے روز کا راجیہ سبھا میں دیے گئے بیان نے کسانوں کی بچی کھچی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ انہوں نے پوری کسان تحریک کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج پر بیٹھے لوگ ‘آندولن جیوی’ ہیں،جن کا کام لوگوں کو گمراہ کرنا ہے۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ پیشہ ور احتجاج کرنے والوں کی ایک جماعت پیدا ہو گئی ہے جو لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ایسے لوگوں سے انہوں نے خبردار رہنے کی بات کہی۔

وزیر اعظم کے مذکورہ بیان نےبہت لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ ایک مضبوط جمہوریت کی پہچان بحث، اختلاف، تنقید اور احتجاج ہوتا ہے۔ جمہوریت میں کوئی بھی رائے یا پالیسی مقدس نہیں ہو سکتی۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ ایک فریق کا مفاد دوسرے فریق سے اکثر ٹکراتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ فیصلہ عام عوام کے حق میں لیا  جائے۔ اگر ہزاروں کی تعداد میں کسان احتجاج کر رہے ہیں تو اسے نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے۔ مگر سرکار بڑے سرمایہ داروں کے دباؤ میں زرعی قانون  کو واپس نہیں لینا چاہتی ہے، کیونکہ یہ قانون  بڑے سرمایہ داروں کو بڑی تعداد میں اپنی  شرائط پر کسانوں سے اناج خریدنے اور اس کی جمع خوری کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ در اصل جو لوگ اوپر بیٹھے ہوئے ہیں اور سرکار کی پالیسی بنا رہے ہیں انہوں نے کبھی بھوک محسوس ہی نہیں کی ہے۔اہل اقتدار کسان کا درد کیسے محسوس کریں گے؟ جس نے کبھی پسینہ بہا کر کمائی نہ کی ہو،وہ کیا جانے محنت کیا چیز ہوتی ہے؟ اسے کیا خبر کہ محنت کا دوسرا نام ہی کسان ہے۔

تخت اقتدارکوچھوڑ کر کسانوں کا درد سب سمجھتے ہیں۔ تبھی تو اس تحریک کو اتنی طاقت مل رہی ہے اور یہ دبائی نہیں جا رہی ہے۔ میرے گھر والے بھی چھوٹے کسان تھے۔ میرے بابا کے پاس زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا۔ میرے بچپن کے دنوں میں ہمارا خاندان بھی بڑا تھا اور پیداوار بھی کم ہوتی تھی۔ اس وجہ سے دھان اور گیہوں پورے سال نہیں چل پاتے تھے۔ مثال کے طور پر اپریل اور مئی کے اختتام تک، دھان ختم ہو جاتا تھا۔ اس وجہ سے ماں کو صبح و شام روٹی ہی بنانی پڑتی تھی۔ روز روز روٹی کھا کر دل بھر جاتا تھا اور بھات کھانے کی بڑی خواہش ہوتی۔ گھر کے بڑے بزرگ تو کچھ نہیں کہتے اور جو ملتا کھا لیتے، مگر میں بھات کھانے کے لیے ضد کرتا۔ کئی بار ایک آدھ کیلو چاول خرید کر لایا جاتا اور جب میں ضد کرتا تو صرف میرے لیے بھات پکتا۔ بعد کے دنوں میں پیداوار بھی بڑھی اور گھر کے دیگر ممبران روزی روٹی کی تلاش میں شہر آ گئے اور اس طرح سے گھر میں اناج کا خرچ کم ہو گیا۔ کچھ سالوں سے اب ہمارے پاس سال بھر کھانے کے لیے اناج موجود رہتا ہے۔ جب میں خواہش کروں تو چاول پک سکتا ہے۔

اس بات کا ذکر کرنے کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ بھوک کیا ہوتی ہے وہ وہی جان سکتے ہیں جو کبھی بھوکے رہے ہوں، جو بھوکا رہا ہے وہ جانتا ہے اناج کی اہمیت۔ جو اناج کی اہمیت جانتا ہے اسے معلوم ہے کہ بھلے ہی ہزاروں بوریاں اناج بیچ کر سونے کا ایک ٹکڑا بڑی مشکل سے خریدا جا سکے، مگر جب انسان بھوکا ہوتا ہے تو اس کی جان صرف دو پیسے کی روٹی بچاتی ہے، لاکھوں اور کروڑوں کے سونے اور زیور نہیں۔ میں نے کم سے کم بھوک محسوس کی ہے اور مجھے معلوم ہے کہ کسان کا قرض ہم کبھی چکا نہیں سکتے۔ وہ تپتی ہوئی دھوپ میں کام کرتا ہے۔ وہ برسات  کے موسم میں کیچڑ میں دھنس کر گھنٹوں کھڑا رہتا ہے اور دھان کی روپائی کرتا ہے۔ جب وہ شام کو گھر لوٹتا ہے تو اس کے پیر کیچڑ کی وجہ سے سڑ جاتے ہیں اور اس میں زبردست درد ہوتا ہے۔ میری ماں کپڑے بتی کو تیل میں ڈبو کر جلا دیتی اور پھر میرے بابا کے سڑے ہوئے پیر پر جلتی آگ سے داغتی تاکہ زخم جلد ٹھیک ہو جائے۔ جب سردی کے موسم میں ہم اپنے گھروں سے نہیں نکلتے، تب کسان گیہوں کی آبپاشی کرنے کے لیے اپنے کھیت میں پہنچ جاتا ہے۔ اگر ان باتوں کو تخت نشین محسوس کرتے تو ان اناج اگانے والے دھرتی کے فرشتوں پر لاٹھیاں نہیں برساتے۔ تب ہی تو کسان کی لڑائی صرف کسان کی آمدنی سے نہیں ہے، بلکہ یہ ملک کے قومی مفاد اور ۱۳۰ کروڑ سے زائد ہندوستانیوں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ کسی بھی قیمت پر اناج جیسے اہم امور کو کارپوریٹ کے حوالےنہیں کیا جا سکتا ہے۔ سرکار یہ اکثر بھول جاتی ہے کہ عوام اور ملک کے مفاد کے دفاع کے لیے جنتا نے اسے ملک کی کمان دی ہے۔ اس کا کام ڈائناسور کی شکل میں بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے لیے خوراک کا انتظام کرنا نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔)
debatingissues@gmail.com

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply