انتخاب آپ کا ہے ۔۔راحیلہ کوثر

طالب علمی کے دور میں مجھے ایک روایت کبھی بھی سمجھ نہ  آئی جو کہ مجھے اکثر سہیلیوں اور دیگر دوستوں کے مابین دیکھنے کو ملتی اور مجھے نہایت ہی گھٹیا  اس وجہ سے لگتی کیونکہ لوگوں کی نیت کے پیش نظر مجھے اس میں خلوص کا جلوس نکلتا دکھائی دے رہا ہوتا تھا۔ روایت یہ تھی کہ آج تُو کھلا کل میں نے کھلایا تھا، آج تیری باری کھلانے کی ، کھانے کا تو فلاں شیر ہے آج اس سے نکلواتے ہیں ۔۔

او بھائی اگر نیت سامنے والے کے حلق میں انگلی ڈال کر نکلوانے کی ہو تو اگلے کو کھلاو ہی مت  ، امریکیوں نے اس کا نہاہت عمدہ حل نکال رکھا ہے اپنا کھاؤ  اپنا بل دو، نہ  کسی کو کھلاؤ نہ  کسی کا کھاؤ  ۔ یقین کیجیے نیت ہر عمل کے درجات کا تعین کرتی ہے پر نہیں ہمیں تو عادت  ہے ہر کام کو گندی نیت سے کرنے کی ۔پھر یہی لوگ  سکول سے کالج اور کالج سے یو نیورسٹی انہی روایات کے ساتھ چلتے چلتے کاروبار، ملازمت حتی کہ نجی زندگی میں بھی دے کر نکلوانے کی عادت کے ساتھ پروان چڑھتے چڑھتے اپنے آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔

اب دور نہ  جائیں شادی کو ہی لے لیں ،زندگی دو فریقین نے گزارنا ہوتی  ہے ،پر مسئلہ یہ سب کی ناک کا بنا  ہوتا  ہے ۔ہر ہر رسم پر عمل پیرا ہونے کے ایسے ایسے  اہتمام ہوتے ہیں کہ گویا رسم نہ  ہوئی کوئی فریضہ ہو گیا جو چھوٹ گیا تو پکڑ ہو جائے گی۔ فلاں کو اتنے  پیسے دئیے تھے، رسم کے ۔۔اب دیکھتے  ہیں وہ کتنے واپس دیتا ہے ، باپ بھائی بیٹوں کی کمائی بنام رسم مبارک کے نہایت ہی عقیدت کے ساتھ لٹائی جا رہی ہو تی ہے ، اور بات کی جائے جہیز کی تو بھئی ہمارے باپ ، بھائی اور بیٹے نے بھی تو اپنی بہن ، بیٹی کے لیے جہیز بنایا  تھا۔بھئ اب جو ان کی زندگی میں شادی کر کے شامل ہو نے والی ہے وہ بھی اسی مقابلے کا مال لائے تو ہی اس باپ بھائی کی برسوں کی کمائی وصول ہو  گی،پر وہ وصولی ہی کیا جو سود بغیر ہو، تو جناب رسموں کی آمیزش کر کے سارا پیسہ حلق سے نکالنے کا اہتمام کا نام ہی تو بر صغیر میں شادی ہے ۔

بندہ پوچھے ایڈے تسی سیانے تو اپنا اپنا جہیز خود بناؤ، ماں باپ لڑکی دے رہے  ہیں  کافی نہیں؟ آج کل نمائش کے نام  پر جہیز کو لعنت قرار دیتی ہوئی  تصاویر سوشل میڈیا پر گردش میں ہیں اور ہر مکاتب فکر اس پر اپنا اظہار رائے پیش کرتا د کھائی دیتا ہے ،تو سوچا ہم بھی اپنی فہم  کے مطابق اس میں   کچھ حصہ ڈال لیں ۔

سب سے پہلی بات جس کی وضاحت ضروری ہے۔۔
کہ اسلام میں جہیز دینا کہیں سے بھی ثابت نہیں، مدارج النبوت میں حضرت شیخ محقق نے لکھا ہے کہ

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بی بی فاطمہ الزہرہ کو خود جہیز نہیں دیا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا : ” اے علی! گھریلو ضروریات کی کوئی چیز تمہارے پاس ہے جسے تم وسیلہ بناؤ۔۔۔؟ ”

حضرت علی نے فرمایا : میرے پاس ایک تلوار، ایک اونٹ، اور ایک زرہ ہے !

حضور ﷺ نے فرمایا : ” تلوار کی تمہیں ضرورت ہے، ہر وقت جہاد کے لیے تیار رہتے ہو، اور اونٹ تمہاری سواری کے لیے ہے، میں تیری طرف سے زرہ پر اکتفا کرتا ہوں۔ اور اے علی! تجھے بشارت ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تیرا اور فاطمہ کا نکاح آسمان میں باندھ دیا ہے !

اس کے بعد حضور ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں مسجد میں حضرت علی کا نکاح حضرت فاطمہ سے کر دیا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے گھر تشریف لے گئے اور نکاح کا اعلان فرمایا، تو پھر حضرت علی سے فرمایا کہ : ” اپنی یہ ڈھال لے جا کر فروخت کر دو اور اس کی قیمت لے آؤ!

حضرت علی نے یہ ڈھال حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چار سو درہم میں فروخت کر دی۔ جب انہوں نے ڈھال حضرت عثمان کے حوالے کر دی اور قیمت وصول کر لی تو حضرت عثمان نے فرمایا : ” اے علی! آپ اس ڈھال کے زیادہ حق دار ہیں۔ یہ ڈھال میں آپ ہی کو ہبہ کرتا ہوں!

” حضرت علی نے حضرت عثمان کا شکریہ ادا کیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں ڈھال اور درہم لے جا کر پیش کر دیے اور ساتھ ہی تمام واقعہ بھی بیان کر دیا !

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت عثمان غنی کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ پھر ان درہم میں سے مٹھی بھر درہم حضرت ابوبکر صدیق کو ضروریات خانہ داری خریدنے کے لیے دیے، اور حضرت سلمان اور حضرت بلال کو ان کے ساتھ کر دیا تاکہ اگر زیادہ وزن بن جائے تو اٹھا کر لے آئیں۔ حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ : ” جب ہم باہر نکلے اور گنتی کی تو یہ تین سو ساٹھ درہم تھے۔ ان تمام سے میں نے حضرت فاطمہ کے لیے سامان خریدا۔ ایک مصری گدیلہ جو کہ پشم سے بھرا ہوا تھا، ایک چمڑے کا گدیلہ جس میں کھجور کے پتے تھے، ایک پردہ عباء خیبری، اور چند مٹی کے برتن تھے۔ یہ تمام سامان ہم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں لائے۔ حضور ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو آپ کی آنکھیں نم آلود ہو گئیں اور آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور یہ دعا فرمائی، اے اللہ! اس قوم پر برکت نازل فرما جس کے بہترین برتن مٹی کے ہیں !

اگر ہمارے دین کی تعلیمات یہ ہیں ۔۔۔
تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لعنت آئی کہاں سے ؟تو جواب بالکل سیدھا ہے ہندوؤں سے ان کے ساتھ کئی  صدیوں رہنے کے بعد ہم جیسے خربوزہ  مسلمانوں نے بھی رنگ پکڑ لیا اور اپنے ہاتھوں سے اس معاشرتی ناسور کو اپنے وجود پر داغ دیا ،ہندوؤں کا تو یہ مذہبی فریضہ ہے ہم ان کے مذہب کے پیروکار کیوں بن بیٹھے ہیں، آئیے ان ہی کی مذہبی کتب میں سے جہیز کے لین دین کو دیکھ لیجیے۔۔۔

جہیز کا رواج بھگوان اِندر نے ڈالا ہندو دیومالائی قصّوں میں بھگوان اِندر ، جو دوسرے تمام بھگوانوں کا بادشاہ کہلاتاہے۔ اس نے اس رسم کی ابتدا ِکی۔ اس نے اپنی بیٹی دیویانی کی شادی پر ہونے والے داماد سکند کو اپنا سب سے قیمتی سفید ہاتھی اور صندل پیسنے کا ایک بیش بہا پتھر جہیز میں دیا۔ ہاتھی سے جدا ہونے کا اِندر کو بہت ملال تھا۔ سکند نے اس ہاتھی کو واپس بھی کرنا چاہا لیکن اِندر نے لینے سے انکار کردیا۔ بعد میں وہ ہاتھی مرگیا۔ البتہ صندل پیسنے کا پتھر کہا جاتا ہے کہ مدراس شہر سے تقریباً 80 کلومیٹر دور واقع سری بالا سبرامنیم سوامی مندر میں موجود ہے۔اسکے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے پیسا ہوا صندل لگانے سے ہر بیماری کا علاج ہوتا ہے اس لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں آج بھی صندل لگانے جاتے ہیں۔

مہابھارت میں ہی ارجن کے بیٹے ابھیمینو کی شادی میں راجادراٹ نے جہیزمیں ہوا کی رفتار سے چلنے والے ساٹھ ہزار گھوڑے ، دو سو مست ہاتھی اور بہت سی دولت ہی نہیں دی،بلکہ اس نے اپنی حکومت،فوج اور دولت کے انبار کے ساتھ اپنے آپ کو بھی داماد کے حوالے کردیا، یعنی خود کو بھی بمعہ راج پاٹ کے جہیز میں دے دیا۔

اسی مہا بھارت میں کرشن جی کی بہن سبھدرا کی شادی اوراس کو دئیے گئے جہیز کا تذکرہ بھی تفصیل کے ساتھ آیاہے۔کرشن جی نے بھی اپنی بہن کو شادی کے موقع پرسونے سے منڈھے ہوئے ایک ہزار رتھ، دس ہزارگائیں، سونے سے سجی ہوئی ایک ہزار سفید گھوڑیاں، پانچ سو خچر، پانچ سو سدھے ہوئے بیل، سونے کے زیورات سے سجی ایک ہزار لونڈیاں، ایک ہزار گھوڑے اور دس ہزار آدمیوں کے وزن کے برابر سونا جہیز میں دیا۔ اسکے علاوہ انہوں نے اپنی بہن کو مہاوتوں کے ساتھ ایک ہزار ہاتھی بھی دئیے۔جن کی گردنوں میں سونے کی گھنٹیاں لٹکی ہوئی تھی۔

تلسی داس جیرام چرت مانس میں ” پاروتی” کے والدنے شیوجی کو غلام لونڈیوں ، گھوڑیوں، رتھ ، ہاتھی ،گایوں،کپڑوں اور ہیروں کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں بیل گاڑیوں میں بھر کر دی تھیں ۔ جن میں مختلف قسم کے اناج اور سونے کے برتن بھی شامل تھے۔شیوجی پاروتی کے ساتھ بے پناہ جہیز کا سامان لے کر رخصت ہوئے تھے۔

مہابھارت میں دروپدی جس کی شادی پانچ پانڈوؤں کے ساتھ ہوئی تھی،اس شادی میں دروپد راجا نے اپنی بیٹی دروپدی کے ساتھ اپنے داماد کو بہت سے ہیرے جواہرات اور بے پناہ دولت دی، ساتھ ہی ہیرے جواہرات جڑی بوٹی راسیں لگا کرعمدہ قسم کے گھوڑوں والے رتھ، سوہاتھی، بہترین پوشاکیں اور زیورات سے لدی لونڈیاں بھی دیں،اس کے علاوہ بھی بے شمار دولت اور جواہرات دئیے گئے راجا دروپد نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہر پانڈو کو اتنا ہی جہیز الگ سے دیا۔

رام چندر جی اور سیتا جی کی شادی میں دئیے گئے جہیز کی تفصیلات رامائن میں موجود ہیں۔ جو راجاجنک نے اُن کو دیاتھا۔بالمیکی رامائن کے مطابق راجا جنک نے اپنی بیٹی سیتا کی شادی کے شبھ اوسر پر کئی لاکھ گائیں، لاتعداد قالین، کروڑوں ریشمی اور سوتی پوشاکیں، زیورات سے سجے ہوئے بہت سے ہاتھی اور گھوڑے، رتھ اور پیدل فوجی، کئی سو لڑکیاں اور بہترین لونڈی اور غلام نذر کئے۔ان سب کے علاوہ ایک کروڑ سونے اور چاندی کے سکّے موتی اور مونگے بھی جہیز میں دئیے۔ راجاجنک نے جہیز کا یہ سامان چاروں بھائیوں کو الگ الگ نذر کیا، کیونکہ رام چندر جی کے ساتھ ان کے باقی تین بھائیوں کی شادی بھی ایک ہی ساتھ ہوئی تھی۔

شری مد بھاگوت پران میں کرشن جی کی جیونی یعنی ان کی زندگی کی روداد بیان کی گئی ہے۔ ان میں کرشن جی کی شادی کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس شادی کے موقع پران کی بیوی کے باپ نے اپنی بیٹی کو زیورات اور شاندار لباس زیب تن کئے ہوئے تین ہزار حسین لونڈیاں، دوہزار سجی ہوئی گائیں، نوہزارگائیں، نوہزار ہاتھی،نو لاکھ رتھ، نو کروڑ گھوڑے اور گھوڑوں سے سو گنے غلام جہیز میں دئیے۔ ۔

ہندوقوم کے یہ وہ مقدس دھارمک گرنتھ ہیں جن پر ہر ہندو یقین رکھتا ہے اور بہت عقیدت واحترام سے پڑھتا ہے اور سنتا ہے ۔اپنے گھروں میں ان کتابوں کی کتھا اور اکھنڈ پاٹھ کرانا ہندو بہت ثواب کا کام اور مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ہر سال دسہرہ اور دیوالی کے موقعوں پر ان کتابوں کے واقعات کو اسٹیج کرکے دکھایا جاتاہے،جس میں بھگوانوں اور دیوتاؤں کی زندگی کے مختلف واقعات کے ساتھ شادی اورجہیز کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہندو معاشرے میں جہیز ایک ناگزیر حقیقت ہے،کیونکہ یہ ان بھگوانوں اور دیوی دیوتاؤں کا عمل ہے جن کی ہندو عوام انتہائی عقیدت سے پوجاکرتے ہیں اور ان کی تقلیدکو اپنا دھرم اور نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
(ماخوذ : سہ روزہ دعوت دہلی، 16 اپریل ، 2009 ، مصنف ایم شیزی ، بجنور)

اب باری آئی ان چور لٹیروں کے دور میں جہیز با حفاظت گھر لانے کی تو جناب اس امر کو با حفاظت سر انجام دینے کو بارات وجود میں آئی جتھے کا جتھا لڑکی کے گھر جاتا خوب دعوتیں اڑاتا اور سازو سامان کے نازوں سے پلی بیٹی کو بیاہ کر ساتھ لے آتا ۔
اب آتی ہے ہماری باری تو اسلام میں بارات ہے ہی نہیں بلکہ صرف ولیمہ کے متعلق احادیث ہیں مگر ہم بھی بنی اسرائیل کی طرح کچھ اپنی شریعیت میں سے رکھنے لگے ہیں کچھ چھوڑنے لگے ہیں بلکہ ہندووں کی شریعت پر اچھا خاصہ عمل پیرہ بھی ہیں جبکہ دوسرے مذہبی امور کو اپنے شرعی معاملات کا حصہ بنانے پر قرآن و حدیث میں سخت وعید آئی ہے ارشاد باری تعالی ہے

﴿یَآ أیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا﴾(آل عمران: ۱۵۶)

ترجمہ: اے ایمان والوتم نہ ہو (جاوٴ)ان کی طرح جو کافر ہوئے۔(تفسیر عثمانی، ص: ۹۰)

قَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (کنزالعمال جلد 9 صفحہ 36)
ترجمہ : یعنی جس نے کسی قوم کی رونق بڑھائی وہ انہیں میں سے ہے !

حدیث شریف کا  مفہوم ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ (سنن ابوداؤد شریف رقم 4031 والحدیث صحیح)
ترجمہ : جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ انہیں میں سے ہے !

اسی طرح ایک اور حدیث میں الفاظ یوں ہیں وہ ہم میں سے نہیں جو دوسروں غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرے !
حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ ان ہی میں سے ہے اور جو شخص مسلمان ہوتے ہوئے غیروں کے رسم و رواج کا طالب ہو وہ عند اللہ سخت مبغوض اور ناپسندیدہ ہے۔ (المسائل المہمہ جلد 7 صفحہ نمبر 172)

”مَنْ تَشَبَّہَ “ کی شرح میں ملا علی القاري لکھتے ہیں کہ:

”جو شخص کفار کی، فساق کی، فجار کی یاپھر نیک و صلحاء کی، لباس وغیرہ میں (ہو یا کسی اور صورت میں) مشابہت اختیار کرے وہ گناہ اور خیر میں ان کے ہی ساتھ ہوگا۔(مرقاة المفاتیح، کتاب اللباس،رقم الحدیث: ۴۳۴۷، ۸/۲۲۲،رشیدیہ)
ارشاد ربانی بہت واضح ہے :

فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ، فَاَنّٰی تُصْرَفَوْنَ (یونس32 )۔
” نظام ِحق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے، تو تم کہاں بہکے جاتے ہو۔‘‘

Advertisements
julia rana solicitors

اب یوں ہی بہکتے چلے جانا ہے ۔۔۔ یا پھر ہو ش کے ناخن لینے  ہیں اور سنبھلنا ہے؟ یہ انتخاب آپ کا ہے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply