اُداس نسلیں ۔۔عبدالرؤف خٹک

میں جس ادارے میں کام کرتا ہوں وہاں کا مین گیٹ تعمیراتی کام کی وجہ سے وقتی طور پر ہٹا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے باہر کا سارا نظارہ ہمیں آتے جاتے دکھائی دیتا ہے،باہر سامنے اک مین روڈ ہے جو سیدھا حیدرآباد بائی  پاس سے جا ملتا ہے۔

یہ اک مصروف شاہراہ ہے اور اس پر روز ہزاروں گاڑیاں ادھر اُدھر دوڑتی نظر آتی ہیں۔

نو تاریخ تھی اور  سڑک  پر حسبِ  معمول  رش دکھائی دے رہا تھا۔
معلوم ہوا کہ آج ہی ڈی ایم والوں کا ہٹڑی بائی پاس پر اک عظیم الشان جلسہ ہے جس کی میزبانی سندھ حکومت یعنی پیپلز پارٹی والے کررہے ہیں،میں جب بھی اپنے ڈیپارٹمنٹ سے کسی کام کے لئے باہر نکلتا ،سڑک پر دوڑتی گاڑیوں سے اک ساتھ کئی قسم کے سیاسی ترانے گانے اور ساتھ ہی کچھ مذہبی ترانے بھی سنائی دینے لگتے، وہ اک ایسا مکسچر تھا کہ سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا تھا،لیکن سب سے دلچسپ پہلو یہ تھا کہ عوام کا جو جم غفیر تھا وہ اک ریوڑ کی طرح اپنے راستے کی طرف گامزن تھا۔
ہاتھ میں ڈنڈے تھے اور ڈنڈوں میں جھنڈے تھے
اور لوگ تھے کہ چلے جارہے تھے کیا پیدل کیا سوار،

میں یہ سب مناظر دور سے دیکھ رہا تھا خواہش ہوئی قریب سے جاکر دیکھوں اور لوگوں کے چہرے کے تاثرات  بھ پڑھوں ی، ان کے مسکین اور غلام چہرے کیا کہتے ہیں؟
ان چہروں میں مجھے کوئی بھی لینڈ لارڈ پیدل نظر نہیں آیا
کوئی ہشاش بشاش چہرہ دکھائی نہیں دیا
ہر چہرہ ہر شکل اس بات کی عکاسی اور غمازی کررہا تھا کہ ہم سب غلام ہیں اک ایسا ریوڑ ہیں جسے صرف ہانکا جاتا ہے جس کی اپنی کوئی شناخت نہیں۔
تن ڈھانپنے  کو کپڑا نہیں ،پیر میں  جوتا  نہیں، جیب میں ٹکا نہیں، بولنے کو زبان نہیں،اپنی کوئی شناخت نہیں اور چلے ہیں،وہی گھسا پٹا نعرہ لگانے مردے کو زندہ کرنا،کافی دیر یہ تماشہ دیکھتا رہا اور ساتھ ساتھ سوچتا رہا کہ یہاں سے جلسے میں جانے والے لوگ جانتے ہیں کہ اس وقت ہمارا حاکم کون ہے؟

کیا یہ جانتے ہیں کہ بلاول کون ہے اور کس کا بیٹا ہے؟ یہ جو نعرے لگا رہے ہیں کہ کل بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے، اسے دنیا سے رخصت ہوئے کتنا عرصہ بیت گیا ہے؟
یہ عوام ان باتوں سے عاری ہیں،
وقت کے ان حکمرانوں نے قوم کو  جاہل  سمجھا ہوا ہے۔اگر یہ قوم سمجھدار ہوتی تو یہ ڈنڈا اور جھنڈا ہاتھ میں نہ لہراتا بلکہ اسے اب تک قوم نے  صحیح  جگہ پہنچا دینا تھا۔

افسوس اس بات کا ہے کہ صرف اک سیاسی جماعت نہیں جس کا رونا رویا جائے، سب کا یہی حال ہے کوئی بھی جماعت عوام کے لئیے نہیں بلکہ اپنے مفاد کے لئیے عوام کا دم بھرتی ہے،  مذہبی جماعتوں کا بھی یہی حال ہے۔

عوام کا یہ حال ہے کہ انھیں جلسہ گاہ میں صبح سویرے ہی پہنچا دیا گیا اک ایسا میدان جہاں آس پاس کچھ بھی نہیں جہاں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئیے میدان سے باہر آکر پھر مزید کچھ دور جانا پڑتا ہے وہاں صبح سویرے لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے،اسٹیج خالی ہے مقامی لیڈر کا بھی دور دور تک پتا نہیں۔ یہ حال ہے اک دوسرے سے قربت کا،دیکھنے اور خود سے سرگوشیاں کرنے کا یہ عمل اور سفر تقریباً آدھا گھنٹہ رہا اس کے بعد میں پھر کام میں مصروف ہوگیا،شام کو اک بار پھر اس چلتی پھرتی عقل سے پیدل قوم سے مڈ بھیڑ ہوگئی،اب کی بار ڈنڈا ہوا میں نہیں بلکہ سرنگوں تھا،چہرے پر  تازگی نہیں بلکہ بھوک اور پیاس کے اثرات تھے،کپڑے مٹی اور دھول سے اٹے ہوئے تھے بال بے سلیقہ تھے،جاتے وقت جو جذبات تھے اب وہ ماند پڑ چکے تھے،

Advertisements
julia rana solicitors london

جی تو بہت چاہا کہ ان کے قریب جا کر ان سے بات کروں لیکن گونگوں بہروں سے کیا بات کرنی، وہ تو خود اسیر ہیں کسی کے زلف کے،میں بھی خاموش تماشائی بن کر یہ تماشا  جو میرے آنگن میں چل رہا تھا دیکھ رہا تھا اور  محظوظ   ہو رہا تھا۔
اور سوچ رہا تھا کہ کب میرے دیس میں اک ایسی بہار آئے گی جہاں عوام کا راج ہوگا ؟

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply