طبقاتی جدوجہد کیا ہے ؟۔ کامریڈ فاروق بلوچ

 جب ہم طبقاتی کشمکش، طبقاتی جدوجہد اور طبقاتی جنگ وغیرہ جیسی اصطلاحات کا ذکر کرتے ہیں تو بہت سے احباب اِس کے معنی و مطالب پوچھتے ہیں. دراصل یہ اُس مخاصمت اور کشیدگی کا بیانیہ ہے جو دو یا دو سے زائد طبقات کے افراد کے درمیان اقتصادی و سماجی مفادات کے حصول کیلئے پیدا ہو جاتی ہے. یہی طبقاتی کشمکش ہی سماج میں بنیاد پرست سماجی تبدیلیوں کا سبب بنتی ہے. طبقاتی کشمکش سماج میں کئی اقسام کے تصادم کا سبب بن سکتی ہے؛ مثلاً سستے مزدوروں اور وسائل کیلئے براہ راست جنگیں، یا غربت، بھوک، بیماری یا غیر محفوظ کام کرنے کے حالات کی وجہ سے ہونے والی اموات جیسے بالواسطہ تشدد بھی طبقاتی کشمکش ہی کی نوعیتیں ہیں. دریں اثناء ملازمت کے کھو جانے کا خوف اور سرمایہ داروں کی جانب سے سرمایہ کاری میں مندی کے رجحان جیسے جبر بھی اِسی طبقاتی کشمکش کے زمرے میں آتے ہیں. قانونی یا غیر قانونی سیاسی گروہ بندی (LOBBING) کرکے اور حکومتی عہدیداران کو رشوت دیکر لیبر قوانین، ٹیکس قوانین، صارف قوانین، ٹیرف قوانین وغیرہ جیسے قوانین لاگو کروانا یا تبدیل کروانا بھی طبقاتی کشمکش کی سیاسی نوعیت ہے. اِسی طرح ٹریڈ یونین، طلباء یونین اور دیگر یونین پہ پابندیاں بھی طبقاتی کشمکش کا سیاسی جبر ہوتا ہے.
 مشہور انارکسسٹ “میخائل باکونن” کے مطابق محنت کش طبقے، کسانوں اور غریب طبقے میں حکمران اشرافیہ حکومت کے خاتمے اور آزاد سوشلسٹ سماج کی تخلیق میں شامل ایک سماجی انقلاب کی قیادت کرنے کی صلاحیت ہو سکتی ہے. یہ صرف ایک امکان ہے، یعنی طبقاتی جدوجہد ہمیشہ معاشرے میں فیصلہ کن عنصر نہیں ہوتی. جبکہ کارل مارکس کے مطابق طبقاتی نظام میں طبقات کے مابین کشمکش ہی تاریخ کی بڑھوتری میں فیصلہ کن اور ناگزیر کردار ادا کرتی ہے۔
 سماجی پیداوار اور اُس کی تقسیم، سماجی حیثیت و مرتبہ اور دولت کی بنیاد پہ طبقات میں منقسم سماج میں طبقاتی کشمکش کا موجود ہونا ایک ناگزیر امر ہے. اِس حوالے سے فریڈرک اینگلز کی کتاب The Peasant War in Germany طبقاتی کشمکش کا بہترین تجزیہ بیان کرتی ہے. ایک سرمایہ دارانہ نظام اپنے اندر “طبقاتی کشمکش” کی بہترین مثال ہے، جہاں “طبقاتی کشمکش” بنیادی طور بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان ہو رہی ہے. اِس کشمکش کے بنیادی کام/مزدوری کے اوقات، اجرت کی قدر، منافع کی تقسیم، مصنوعات/پیداوار کی  لاگت، کام/مزدوری لینے کے طریقہ کار، پارلیمنٹ یا بیوروکریسی پر کنٹرول اور اقتصادی عدم مساوات پہ ہوتی ہے۔
 ایسا نہیں کہ “طبقاتی جدوجہد یا کشمکش” کی اصطلاح صرف سوشلسٹ یا کمیونسٹ استعمال کرتے ہیں. امیر ترین سرمایہ داروں اور حکمران اشرافیہ کو بھی اِس کشمکش کا مکمل ادراک ہے. سابق امریکی صدر تھامس جیفرسن کے مطابق: “میں اِس حقیقت کا قائل ہو چکا ہوں کہ وہ معاشرے جہاں عوام کے اوپر کوئی مرکزی حکومت مسلط نہیں ہے اُن معاشروں کی نسبت زیادہ پرسکون اور خوش ہیں جن پہ کوئی حکومت مسلط ہو چکی ہے. کیونکہ حکومت کی جانب سے طاقتور قانونی جبر کے تحت عوام بھیڑوں اور بھیڑیوں کے دو طبقات میں تقسیم ہو چکی ہے، جبکہ حکومتی جبر کے بغیر معاشروں میں رائے عامہ ہی قانون اور ضابطوں کی جگہ ہوتی ہے. میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہا.”(1)
اِسی طرح دنیا کے مشہور امیرترین ارب پتی “وارن بفٹ” نے سی این این کو انٹرویو کے دوران اعتراف کیا کہ: “میرے طبقے، یعنی امیرترین طبقے، نے دنیا بھر پہ طبقاتی جنگ مسلط کر رکھی ہے…. یہ جنگ امیر طبقہ جیت رہا ہے، حالانکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے”.(2) جبکہ نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وارن بفٹ نے کہا کہ: “مجھے طبقاتی جنگ کا ادراک ہے، یہ طبقاتی جنگ ہمارے امیر طبقے کی شروع کی ہوئی ہے اور ہم ہی اِسے جیت رہے ہیں”.(3) اِسی طرح وارن بفٹ نے ایک دوسرے انٹرویو میں امیر ترین طبقے کے مفادات کیلیے حکومتی چھتری کا اعتراف کیا.(4)
 طبقاتی کشمکش ہمارے موجودہ عہد میں اپنی تاریخی انتہاؤں کو چھو رہی ہے.  بظاہر بہت خوش رنگ دیکھائی دینے والی تصاویر کی اصلیت بہت گھناؤنی ہے. امریکہ کی مثال بھی ایسے ہی ہے. لبرل ازم اور انسانی حقوق کا نام نہاد علمبردار ملک خود ایک بدبودار ریاست ہے. مشہور امریکی ماہرِ لسانیات، فلسفی اور سیاسی کارکن “ناؤم چومسکی” کے مطابق: “طبقاتی جنگ ہر جگہ موجود ہے، مگر امریکہ خاص طور پر کاروباریوں کے ہاتھوں یرغمال ریاست ہے جس میں کاروباری طبقہ اپنی طاقت میں اضافے کیلئے غیرمعمولی جنگ لڑ رہے ہیں اور اپنے مخالفین کو کچل رہے ہیں”. اِس ضمن میں ناؤم چومسکی کی تصنیف OCCUPY: Class War, Rebellion and Solidarity پڑھنے کے قابل ہے.
 موجودہ عہد میں طبقاتی کشمکش کی عیاں ترین مثال “عرب بہار” کے نام سے منسوب عوامی بغاوت ہے. عرب ممالک میں اٹھنے والی اِس عوامی بغاوت کی وجوہات مطلق العنان بادشاہت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، حکومتی کرپشن، اقتصادی تنزلی، بے روزگاری، انتہائی غربت اور آبادیاتی ساخت جیسی بہت سے توجیہات بیان کی جاتی ہیں، مگر آخری تجزیہ میں طبقاتی کشمکش ہی اِس بغاوت کی سب سے بڑی وجہ ہے. بلاشبہ پانچ سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود یہ بغاوت نظام کی تبدیلی کا سبب نہیں بن پائی ہے، کیونکہ وہاں کے معروض میں تبدیلی کے ایجنڈے کی حامل کوئی تنظیم موجود نہیں ہے. اگر عرب ممالک میں طبقاتی کشمکش کو کم اور بعدازاں یکسر ختم کرنے والی تبدیلیاں کی جاتیں تو سماج میں امن، برداشت اور ترقی کا دور چل نکلتا. لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ شمالی افریقہ اور خلیج فارس کے تمام ممالک میں بغاوت کے لئے محرک دہائیوں سے اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز اور نوجوانوں کی طرف سے جمود کو قبول کرنے سے انکار نے عطا کیا.
کیمونسٹ مینی فیسٹیو کے مصنفین کتاب میں لکھتے ہیں کہ: “ایک طبقہ اُس وقت قائم ہوتا ہے جب اُس کے اراکین طبقاتی شعور اور یکجہتی حاصل کر لیتے ہیں….. عموماً یہ اُس وقت ایسا ہوتا ہے جب ایک طبقے کے ارکان کو اُن کے استحصال کا ادراک ہو جاتا ہے اور اپنے طبقے کا استحصال کرنے والے دوسرے طبقے کی پہچان ہو جاتی ہے….. اِس طرح وہ طبقہ اپنے مشترکہ مفادات اور مشترکہ تشخص کا احساس کرنے لگتا ہے.” یعنی مارکس اور اینگلز جس نقطے کی نشاندہی کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ دو طبقات کے ہر ایک ارکان کے مفادات مشترک ہوتے ہیں. یہ مفادات کا تنازعہ ہی طبقاتی کشمکش کا سبب بنتا ہے، جس کے نتیجے میں دو مختلف اقسام کے انفرادی ارکان کے درمیان تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے. مارکسی طریقِ تجزیہ کے مطابق اِس وقت دنیا میں دو طبقات دستیاب ہیں؛
1. پرولتاریہ: وہ جنکے پاس زندہ رہنے کیلئے اپنی محنت کو بیچنے کے سوا کوئی راستہ موجود نہیں ہے.
2. بورژوا: وہ جنکی بےپناہ دولت کی وجہ اُن کی محنت نہیں ہوتی بلکہ پرولتاریہ کی محنت سے پیدا ہونے والے بےپناہ پیداوار ہوتی ہے.
 مارکسی تناظر میں ضروری نہیں کہ ہر طبقاتی جدوجہد کا اظہار ہڑتالوں، احتجاجوں، تالہ بندیوں کی صورت میں پرتشدد اور بنیاد پرست ہوگا، بلکہ کارکنوں کے پست حوصلے، معمولی تخریب کاری اور چوری، اور چھوٹے موٹے اتھارٹی عہدے داروں کی طرف سے محنت کشوں کے انفرادی غلط استعمال سے بھی طبقاتی کشمکش کا اظہار ہوتا ہے. لیکن طبقاتی کشمکش کا بلند ترین اظہار اُس وقت ہوتا ہے جب پرولتاریہ روایتی ٹریڈ یونینوں اور پاپولسٹ سیاسی جماعتوں سے علیحدہ ایک تحریک منظم کرتے ہیں. مارکس اِس شعوری عمل کو پرولتاریہ کی جانب سے دنیا بدل دینے کی حامل “پیش رفت” کہتا ہے.
 ایک اہم سوال بہت سے ترقی پسند ذہنوں میں بھی ابھرتا ہے کہ سوشلسٹ انقلاب کے بعد کیا ہو گا؟ انقلاب کے بعد بھی طبقاتی کشمکش جاری رہے گی اور طبقات کا بتدریج خاتمہ ہو گا. طبقات کی بتدریج ٹوٹ پھوٹ سے ریاست بھی بتدریج تحلیل ہو گی. مارکس کے مطابق کسی بھی ریاست کی سرشت میں اپنی بقاء کی خواہش رہتی ہے مگر غیرطبقاتی نظام میں ایک ریاست کے لئے کوئی ضرورت نہیں ہو گی. سماجی ارتقاء میں یہی مقام سوشلزم سے کمیونزم کی طرف سفر کا نقطہِ آغاز ہو گا۔
1. Thomas Jefferson, Letter to Edward Carrington – January 16, 1787
2. Buffett: ‘There are lots of loose nukes around the world’ CNN.com
3. Buffett, Warren (Nov 26, 2006). “In Class Warfare, Guess Which Class is Winning”. The New York Times.
4. Buffett, Warren (Nov 2011). “Stop Coddling the Super Rich”. The New York Times. Retrieved 16 May 2012.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply