بٹوا۔۔اُسامہ ریاض

یہ بٹوا اور یہ خط مرا نہیں ہے۔ اسے تو میں نے ہسپتال کے باہر ایک شخص کی جیب سے چرایا تھا۔ میں ایک پیشہ ور جیب کترا ہوں۔ مرے ابا نے نشے کی حالت میں اماں کو بہت مارا تھا ۔ زخموں کی  تاب نہ لاتے ہوئے اماں بہت سال پہلے مجھے اکیلا چھوڑ کر اسی ہسپتال کے برآمدے میں دم توڑ گئی تھی۔ میں تب سے بھیس بدل کر لوگوں کے بٹوے چوری کرتاہوں۔
آج بھی میں نے اپنا بھیس بدلا ہوا تھا۔ میں لوگوں کو روک روک کر بتا رہا تھا کہ کل مرا بیٹا اس ہسپتال میں مر گیا ہے اور مرے پاس فیس کے پیسے نہیں ہیں۔ وہ ہمدردی میں اپنے بٹوے سے پیسے نکال کر مجھے دیتے اور میں دیکھ لیتا کہ ان کے بٹوے میں کتنے پیسے ہیں۔ ایسے مجھے اپنا شکار ڈھونڈنے میں آسانی ہوجاتی۔ میں نے اُسے بھی یہی کہہ کر روکا تھا۔ مگر وہ سب سے عجیب تھا۔ ایسا شخص میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جب اُسے کہا کہ مرا بیٹا مر چکا ہےتو اُس نے روتے ہوئے مجھے گلے لگا لیا اور مرے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگ گیا۔ مجھے اُس سے الجھن ہو رہی تھی۔ میں آخری بار اپنی ماں کے سرہانے رویا تھا ۔ جب و ہ اس ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر دم توڑ رہی تھی پھر اچانک مری نظر اُس کے کانوں کی طرف گئی، جہاں سونے کی بالیاں تھیں۔ میں نے ماں کے کانوں سے انہیں نکالا اور بھاگ گیا۔ مجھے نہیں معلوم مری ماں کے ساتھ پھر کیا ہوا اور نہ میں اُس کے بعد کبھی رویا۔ یہ روتا ہوا شخص مرے لیے بیکار تھا سو میں نے اُس کے رونے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُس کی  جیب سے بٹوا نکال لیا۔
اب میں اُسی برآمدےمیں بیٹھا ہوں جہاں کئی سال پہلے مری ماں نے دم توڑا تھا اور اب میں یہاں دم توڑنے والا ہوں مگر آپ مرا یقین کیجیے  یہ خط مرا نہیں ہے۔ یہ خط تو اُس شخص کا ہے جس کا بٹوا میں نے چوری کیا تھا اور جس کا بیٹا کچھ دیر پہلے دم توڑ چکا تھا!

Facebook Comments