• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ای میل مکتوب بنام ڈاکٹر ستیہ پال آنند از ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی

ای میل مکتوب بنام ڈاکٹر ستیہ پال آنند از ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی

​حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم ِ تماشا ہو
کہ چشم ِ تنگ شاید کثرت ِ نظّارہ سے وا ء ہو

ستیہ پال آنند
چچا غالب، اگر پوچھوں نصیحت کس کی خاطر ہے
جواباً کیا کہیں گے ، صرف اپنے ـ’دل‘ـ کی خاطر ہے؟
تخاطب کس سے ہے؟ خود سے؟ کہ کوئی دوسرا بھی ہے

مرزا غالب
تخاطب خود سے ہے یا غیر سے؟ یہ آپ خود سمجھیں

ستیہ پال آنند
اگر ایسا ہے ، میرے محترم، تو پھر یقیناً ہی
یہ ’چشم ِ تنگ‘ بھی اُس شتر کینہ شخص کی ہو گی
جسے حاسد کہا جاتا ہے عرف ِ عام میں، حضرت
اگر یہ واقعی اک فرد ِ دیگر کے لیے ہے، تو
یقیناً خود پہ بھی اطلاق ممکن ہے، موافق ہے !

مرزا غالب
چلیں ، یہ فرض ہی کر لیں کہ خود اپنے لیے بھی ہے
مگر کاواک، لا حاصل ہی ہوگی بحث، ستیہ پال

ستیہ پال آنند
نہیں کیا ؟ محترم؟ حاسد کی آخر اصلیت کیا ہے؟
جو دل ناشاد رکھتا ہے مگر دل میں ہی رہتا ہے ؟
اگر ایسا ہے تو اس کا آپ پر اطلاق کرتے ہیں !

مرزا غالب
یقیناً نا مناسب ہو گی ایسی کارروائی ، پر
اگر تم چاہتے ہو تجربہ حشو و زواید کا
تو نپٹاؤ ، میاں ، یہ لغو، بے ہودہ قضیہ بھی

ستیہ پال آنند
چلیں، تسلیم۔۔۔ خوش خلقی کا ماہر ’ مجلسی غالب‘
تو شاید ایک مفروضہ ہے لوگوں کا ہمہ جملہ
وہ’ کینہ توز غالب‘ جو کہیں روپوش دل میں ہے
اسے آزردہ رکھتا ہے،کبھی ہنسنے نہیں دیتا
(یہی تو وجہ ہے ،غالب ، الِف سے ’ی‘ کی پٹّی تک
کہیں بھی ’عندلیب ِ گلشن ِ نا آفریدہ ‘ کی
مکمل شاعری میں خندہ زن ہونا مطاعِن ہے

کورس
چلو، اچھا ہوا ، یہ بات تو سمجھی گئی آخر
صلائے عام اب اس تنگ دل پوشیدہ غالب کو
یہی ہے، ’’ اب چلیں ، باہرہوا خوری کو گلشن میں
وہاں سے مے کدہ جانےکا رستہ بھی نکلتا ہے
وہ پھکّڑ لوگ جن سےدوستی تھی وجہ ِ رسوائی
انہیں ملنا ہی شاید کثرت ِ نظّارہ ہو جائے
اگر بگھّی میں بیٹھیں تو بھی چلتے چلتے رُک رُک کر
ملیں پنواڑیوں سے، خوانچہ والوں سے، فقیروں سے
سبھی کا حال پوچھیں ۔۔۔اور اپنا حال بتلائیں
یہی واحد طریقہ اپنی آنکھیں ’’کھولنے‘ ‘ کا ہے!

—————-

ای میل مکتوب از ڈاکٹر شمس الرحمن فاروقی
اس مکتوب سے وہ سب مواد خارج کیا گیا جو اس شعر پر بحث سے غیرمتعلق تھا۔ ذاتی آداب و القاب، کچھ دیگر نا مربوط ، غیر وابستہ حصص   پر مبنی مواد نکال دیا گیا تا کہ اس شعر پر خاکسار کی نظم کے حوالہ جات سے براہ راست تعلق قائم رکھا جا سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس نظم میں آپ نے بحث کو تھیٹر کا سیناریو عطا کر دیا ہے۔ ظاہر ہے اس سے قارئین کی لطف اندوزی میں اضافہ ہو گا اور شاید اس کے معنی سمجھنے میں یہ تصویری پہلو معاون بھی ثابت ہوں، اس سے بہتوں کا بھلا تو ہو گا، لیکن غالب کا نہیں۔ غالب کے ہاں لفظ کی اہمیت مسلم ہے۔

میں پہلے بھی کچھ خطوط میں یہ اشارہ دے چکا ہوں کہ آپ فرداً فرداً الفاظ کے معانی کی طرف اپنی توجہ مبذول کیے بغیر شعر کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں۔ الفاظ کسی بھی شعر کے اجزاء تو ہوتے ہی ہیں، اس کے جسم کے اعضا بھی ہیں۔ اور غالب کے اشعار میں ہر ایک عضو اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ان ہی الفاظ کو باہم ایک دوسرے میں پیوست کرنے سےمعنی آفرینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ “چشم تنگ” کو ہی لیں۔
کیا اس کے معنی صرف چشم حسود کے ہی ہیں ۔ کنجوس کا ایک نام “تنگ چشم ” بھی ہے۔”حاسد” کو بھی اس القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ فارسی میں “تنگیء چشم”لالچ کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ظاہر ہے نظم کے لیے الفاظ کے معانی کے علاوہ بھی بہت کچھ ضروری ہے اور آپ یقیناً اس پر قادر ہیں۔اس شعر سے متعلق یا غیرمتعلق ہونے سے قطع نظر بھی یہ نظم ایک کامیاب کوشش ہے۔

Facebook Comments