• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سوشلسٹ سیاست میں اصولِ ترجیح کا مسئلہ۔۔شاداب مرتضی

سوشلسٹ سیاست میں اصولِ ترجیح کا مسئلہ۔۔شاداب مرتضی

مزدور عورت دوہری محنت کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر اور بچوں کی یعنی مزدوروں کی دیکھ بھال کے لیے گھریلو محنت (کھانا پکانا، کپڑے دھونا، گھر کی صفائی ستھرائی) کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تولیدی محنت بھی کرتی ہے۔ وہ اپنے بچوں کی صورت میں سرمایہ داں طبقے کے لیے نئے مزدور پیدا کرتی ہے اور انہیں پالتی پوستی ہے۔ اس کی یہ محنت بلاواسطہ طور پر سرمایہ دار کے لیے قوتِ محنت کی پیداوار اور فراہمی اور اس کی دیکھ بھال کا کام ہے۔ لیکن اسے گھریلو اور تولیدی محنت کی اجرت نہیں ملتی۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مزدور عورت سرمایہ دارانہ نظام میں دوہرے استحصال کا، دوہری محنت کا، شکار ہوتی ہے لیکن بعض لوگ اس بات سے مستقل یہ نتیجہ نکالتے رہتے ہیں کہ مزدور عورت کے دوہرے استحصال کا مطلب یہ ہے کہ اسے سرمایہ داروں کے ظلم کے ساتھ ساتھ مزدور مردوں کا ظلم بھی سہنا پڑتا ہے! ان کا خیال ہے کہ مزدور سرمایہ دار کا غلام ہے اور مزدور عورت مزدور مرد کی غلام ہے حالانکہ غلام داری اور جاگیرداری عہد کے برعکس آج نہ صرف مزدور عورت کو علیحدگی کا حق حاصل ہے بلکہ مزدور عورت ہونے کی وجہ سے وہ معاشی طور پر مرد کی محتاج بھی نہیں ہے! دسیوں لاکھوں مزدور گھرانوں کے مرد اور عورتیں مل جل کر، مشترکہ محنت سے، سرمایہ دارانہ استحصال میں خاندانی زندگی بسر کرتے ہیں۔

لیکن ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ عورت اس “دوہرے” ظلم کا شکار ہے جس میں سرمایہ دار اور مزدور مرد دونوں ہی مزدور عورت کا استحصال کرتے ہیں۔ اس سے یہ عملی نتیجہ نکلے گا کہ مزدور عورتوں کو مزدور مردوں کے خلاف بھی جدوجہد کرنا چاہیے۔ ایسا ہوا تو صورتحال یہ ہوگی: ایک طرف مزدور طبقہ صنفی بنیاد پر آپس میں لڑ رہا ہو گا اور دوسری طرف مزدور طبقہ سرمایہ داروں سے طبقاتی لڑائی لڑ رہا ہوگا! کیا یہ ممکن ہے کہ مزدور آپس میں بھی لڑیں اور سرمایہ داروں کے خلاف بھی؟ کیا مزدور سیاست میں صنفی اور طبقاتی جدوجہد ساتھ ساتھ چل سکیں گی؟

اس صورتحال میں کمیونسٹ کیا کریں گے؟ کیا انہیں دونوں قسموں کی جدوجہد کا حصہ بننا چاہیے؟ اگر ہاں تو وہ مزدور طبقے کے آدھے حصے کے خلاف لڑتے ہوئے سرمایہ دار طبقے کے خلاف پورے مزدور طبقے کی جدوجہد کو منظم کیسے کریں گے؟

اگر آپ یہ مانتے ہیں کہ پدرسریت کی وجہ نجی ملکیت ہے تو پھر آپ کو یہ ماننے میں دشواری کیوں ہوتی ہے کہ مزدور طبقے میں پدرسریت نہیں ہوتی کیونکہ مزدوروں کے پاس نجی ملکیت نہیں ہوتی۔ پدرسریت تو سرمایہ دار طبقے میں بھی کب کی ختم ہوچکی۔ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں میں تو مردانہ بالادستی ماضی کا قصہ ہو گئی۔ سرمایہ دار عورتوں کی موجودگی، سماجی اداروں میں اور صنعتی پیداوار میں عورتوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت (محنت کی تانیثیت – Feminization of Labor). عورتوں کی عمومی ترقی کی یہ خصوصیات کیا ظاہر کرتی ہیں؟ یہ کہ ہم ایسے عالمی سماجی نظام میں رہ رہے ہیں جس میں عورت غلام داری اور جاگیرداری عہد کی طرح مرد کی “نجی ملکیت” ہے اور اسے کسی قسم کے انسانی حقوق اور آزادیاں حاصل نہیں؟ یا ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پرانے سماجی نظاموں کے مقابلے میں سرمایہ داری نظام میں عورت کی سماجی ترقی اور برابری میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا ہے؟ کیا یہ اچھننے کی بات نہیں کہ سرمایہ داری نظام نے اپنی غرض و غایت کے تحت ہی سہی، لیکن عورت کو پرانے سماجی نظاموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ آزادی دی لیکن اسی نظام میں آج پدرسریت کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا جس قدر پدرسریت پرانے سماجوں میں موجود تھی آج بھی اسی طرح موجود ہے؟

جہاں تک درمیانے طبقے کی عورت کی مراعات کا سوال ہے تو اس حوالے سے ہم اصولی طور پر مرد اور عورت کی برابری  کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ معاشرے میں صنف کی بنیاد پر کوئی امتیاز نہ ہو۔ تاہم، جب تک ہم اس قابل نہیں ہوجاتے کہ صنفی نابرابری کو ختم کردیں تب تک ہم صرف جمہوری اصول کی حیثیت سے اس برابری کی حمایت ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس معاملے پر عملی جدوجہد کرنا ہمارا نہیں بلکہ خواتین کے حقوق کی تحریک سے وابستہ تنظیموں کا کام ہے جسے وہ خودمختاری کے ساتھ انجام دے رہی ہیں۔

جس طرح خواتین کے حقوق کی تحریک اور تنظیموں کا محور و مرکز خواتین ہوتی ہیں، مزدور، کسان یا طلباء نہیں اسی طرح ہماری جدوجہد کا محور و مرکز مزدوروں کے حقوق کی عملی جدوجہد ہے، عورتوں، بچوں یا اقلیتوں کے حقوق کی جدوجہد نہیں۔ جس طرح قومی حقوق کی، عورتوں کے یا بچوں کے حقوق کی، اقلیتوں یا طلباء یا نوجوانوں کے حقوق کی تحریکوں اور تنظیموں کا، ان سب کا اپنا اپنا ایک مخصوص مقصد، ایک مخصوص ٹارگٹ گروپ ہے اسی طرح ہمارا بھی ایک مخصوص مقصد اور ایک مخصوص ٹارگٹ گروپ ہے یعنی سوشلسٹ انقلاب اور مزدور طبقہ۔

جس طرح عورتوں کے حقوق کی تنظیمیں کسی اور ٹارگٹ گروپ پر “فوکس” کر کے اپنے مقصد کو کھو دیں گی اسی طرح ہم بھی کسی اور ٹارگٹ گروپ پر فوکس کر کے اپنا مقصد کھو دیں گے۔ جس طرح عورتوں کے حقوق کی تحریکیں اور تنظیمیں تمام دیگر مسائل پر (مزدوروں، کسانوں، طلباء، اقلیتوں، نواجوانوں، بچوں وغیرہ کے مسائل پر) مساوی فوکس نہیں کر سکتیں اسی طرح ہم بھی تمام دیگر مسائل پر مساوی فوکس نہیں کر سکتے۔ دیگر تمام سماجی تحریکوں اور تنظیموں کی طرح ہمارا فوکس بھی اپنے مقصد پر، اپنے ٹارگٹ گروپ پر ہوگا۔ یہ بات سمجھنا کوئی دشوار کام نہیں ہے۔

جس طرح بچوں یا طلباء کے حقوق کی تنظیموں کا اپنے مقصد اور ٹارگٹ گروپ پر فوکس کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سماج میں موجود دیگر مسائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں یا ان کی موجودگی کو تسلیم نہیں کرتیں اسی طرح کمیونسٹوں کی جانب سے سوشلسٹ انقلاب اور مزدور طبقے پر فوکس کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سماج میں موجود دیگر مسائل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے یا ان کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ معاملہ بس اتنا ہے کہ تمام دیگر سماجی تحریکوں اور تنظیموں کی طرح ہی وہ بھی اپنے مقصد اور ٹارگٹ گروپ پر فوکس کرتے ہیں۔ وہ “اصولِ ترجیح” کی بنیاد پر اپنی سیاسی ترجیحات طے کرتے ہیں اور سماجی مسائل کو بنیادی اور ضمنی مسائل میں تقسیم کرکے بنیادی مسئلے پر اور اس سے تعلق رکھنے والے ٹارگٹ گروپ پر فوکس کرتے ہیں۔ اگر کمیونسٹ ہر مسئلے اور ہر تحریک پر “مساوی” فوکس کریں گے تو درحقیقت وہ کسی بھی مسئلے پر فوکس نہیں کر سکیں گے۔

چنانچہ، نہ صرف دیگر لوگوں کو کمیونسٹوں سے اپنی تحریکوں کی حمایت کے معاملے پر اصولِ ترجیح کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے بلکہ خود ان سوشلسٹوں کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے جن کا خیال ہے کہ کمیونسٹوں کو ہر مسئلے پر، ہر تحریک پر “مساوی” فوکس کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کرنا چاہیے۔ بات کڑوی ہے مگر سچ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں بہت سے کمیونسٹ/سوشلسٹ اپنے مقصد، اپنے ٹارگٹ گروپ کے بجائے دیگر تحریکوں میں عام طور پر زیادہ سرگرم دکھائے دیتے ہیں جبکہ بعض تو ایسے ہیں کہ جن کی کمیونسٹ/سوشلسٹ سیاست کا فوکس ہی دوسری تحریکوں کے مسائل اور سرگرمیاں ہیں۔ ان کی ذہنی اور جسمانی سرگرمیاں اور ان کا سیاسی نکتہِ نظر اکثر و بیشتر صرف جمہوری تحریک کے مسائل پر (عورتوں، قومیتوں، طلباء، نوجوان اور اقلیتی تحریکوں کے مسائل پر) ہی مرکوز رہتا ہے۔ یہ کمیونسٹ/سوشلسٹ سیاست پر درمیانے طبقے کے رجحانات کے غلبے کی عکاسی کرتا ہے جس سے بچنا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مارکسزم-لینن ازم میں جمہوری تحریک کو غیر اہم، بیکار یا غیرضروری نہیں سمجھا جاتا۔ البتہ جمہوری تحریک مارکسزم-لینن ازم میں اصولِ ترجیح کے اعتبار سے “ضمنی” یا “ثانوی” حیثیت رکھتی ہے۔ مارکسزم-لینن ازم میں مزدوروں کی طبقاتی جدوجہد کو مرکزیت اور اولیت حاصل ہے جبکہ جمہوری تحریک اس بنیادی مقصد کے حصول کی راہ میں ایک اہم مگر ضمنی حصہ ہے۔ مزدور طبقے کو صنفی بنیاد پر تقسیم کرنا، سرمایہ داروں کے ساتھ ساتھ مزدور مردوں کو بھی اس حوالے سے ظالم اور استحصالی سمجھنا نہ صرف حقائق کے اعتبار سے غلط ہے بلکہ اس کا عملی نتیجہ سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف مزدور طبقے کی جدوجہد میں دانستہ یا نادانستہ طور پر دراڑ ڈالنا ہے اور، معروضی طور پر، سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کو مستحکم کرنا اور مزدور جدوجہد کو کمزور کرنا ہے۔

Facebook Comments