میگزین کا مضمون (25)۔۔وہاراامباکر

جیمز لنڈسے اور پیٹر بوغوسیان نے 2017 میں ایک تجربہ کیا۔ “سائنس بمقابلہ سوشیولوجی” کی جنگ میں سائنس کے محاذ کی طرف سے جریدے میں “تصوراتی عضوِ خاص بطور سماجی کنسٹرکٹ” کے عنوان سے بے وقوفانہ مضمون صنفی سٹڈیز کیلئے بھیجا۔ یہ ایک مہینے میں ریویو ہو کر شائع ہو گیا۔ ان دونوں حضرات نے سائنس پسند میگیزین سکیپٹک میں اپنے اس کارنامے کا فخریہ ذکر کیا۔ ہم خیال لوگوں کی طرف سے داد و تحسین کے ٹوکرے آنے لگے۔ اس پر چند اقتباسات جو اصل ہیں اور بہت مشہور لوگوں کی طرف سے ہیں۔
“ہم فخریہ بتاتے ہیں کہ جعلی آرٹیکل پیئیر ریویو ہو کر شائع ہو گیا”۔ مشہور سکیپٹک
“زبردست کام کیا ہے۔ شاباش”۔ مشہور نیوروسائنٹسٹ
“صنفی سٹڈیز کے علمبرداروں کی قلعی کھل گئی”۔ مشہور ایتھولوجسٹ
“بوگس پیپر ایسے جریدے میں پہنچا دیا گیا جو خود کو اعلیٰ میعار کا کہتا ہے”۔ مشہور سائیکولوجسٹ اور مصنف
“کلچرل سٹڈی لفاظی اور نظریات کا زہریلا ملاپ ہے۔ اس کا علم سے کوئی واسطہ نہیں”۔ مشہور ایولیوشنری بائیولوجسٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صرف یہ کہ اس نتیجے پر چھلانگ لگا دینے کیلئے سیمپل سائز “ایک” کا تھا۔ لنڈسے اور بوغوسیان کا یہ پیپر پہلے ایک مسترد ہوا تھا۔ اور اس جریدے سے جو غیرمعروف تھا اور اس کا اپنے شعبے کے 115 رینک ہونے والے جرائد کی فہرست میں نام بھی نہیں تھا اور امپیکٹ فیکٹر صفر تھا۔ اس میں بھی دوسری کوشش میں اس کو چھپنے کا موقع ملا تھا۔
اگر کسی نے صرف اپنی مرضی کے واقعات ہی اٹھانے ہیں تو پھر چیری پکنگ بہت آسان کام ہے۔ سائنسی جریدے غلطیاں کرتے ہیں (اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں)۔
اینڈریو ویک فیلڈ کا ویکسین کے خلاف بدنامِ زمانہ فراڈ پیپر میڈیکل جریدے لانسٹ میں شائع ہوا تھا۔
نیوکلئیر فزکس کانفرنس نے ایک پیپر قبول کر لیا تھا جو صرف آٹو کمپلیٹ سے لکھا گیا تھا۔
تین طلبا نے جعلی سائنسی پیپر شائع کرنے کا پروگرام بنایا اور اس پروگرام سے تخلیق کردہ 120 پیپر شائع ہوئے
مذاق میں لکھا گیا ایک کیمیکل کی اینٹی کینسر خاصیتوں پر جعلی پیپر 2013 میں سینکڑوں جرائد میں شائع ہوا۔
اور ظاہر ہے کہ یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ میڈیکل تحقیق اور سائیکلوجی سائنسی پیپرز کے حوالے سے بحران کا شکار ہیں یا پھر یہ کہ فارما انڈسٹری نے اپنی باٹم لائن کو بڑھانے کیلئے جعلی جرنل تخلیق کئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ شعبے ہیں جہاں پر “تحقیق” لوگوں کی زندگیوں پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ لیکن کبھی بھی ان سب دانشوروں نے یا دوسرے سائنٹزم کی طرف جھکاوٗ رکھنے والوں کے ٹوئٹر پر بائیولوجی، کمپیوٹر سائنس، میڈیسن، فزکس کے بارے میں ایسا غم و غصہ نہیں آیا جیسا اس ایک پیپر پر۔ کیوں؟ اس کی وجہ نظریاتی وابستگی ہے۔
ہر کوئی سیاسی نکتہ نظر رکھتا ہے اور اس میں حرج نہیں۔ ہم سب کو اس کا حق ہے لیکن یہ اس وقت مسئلہ ہے جب اس وجہ سے تجزیاتی سوچ اسی فلٹر سے چھن کر آنے لگے۔ اور سب سے بڑا مسئلہ اس وقت ہے جب ہمارے یہ نظریاتی دانشور ہر دوسرے پر نظریاتی تعصب کا الزام لگا کر اس کے فنڈ بند کروانے کی استدعا کریں۔
دوسروں سے پہلے خود پر تنقید۔۔۔ یہ راست بازی کی قدر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ مثال افسوسناک اس لئے تھی کہ یہ پیٹرن کئی برسوں سے جاری ہے۔ جب سٹیون پنکر جیسا دانشور سائنٹزم کو کھلے عام قبول کرتا ہے تو یہ علمی برائی کو علمی اچھائی قرار دینا ہے۔ یہ علمی اقدار کا مسئلہ ہے۔ یا پھر جب کوئی لامذہب یہ تصور کرتا ہے کہ ان کی پوزیشن ایک منفی میٹافزیکل پوزیشن سے بڑھ کر کچھ بھی اور ہے اور اس کا دفاع کرنے کا طریقہ بھی صرف تلخی سے ہے۔ یا پھر تجسس پسندی کا سائٹزم سے ملاپ یا کسی بھی دوسرے نظریاتی مقصد سے ملاپ کروانے کی کوئی تک بھی ہے۔ تو عقل کی روشنی کی توقع رکھنے والوں کے لئے شدید مایوس کن ہے۔
اس رسالے میں چھپنا والے مضمون کی مثال ہمیں یہ نہیں دکھاتی کہ صنفی سٹڈیز میں مسئلہ ہے۔ لیکن اس پر ہونے والا ردِ عمل اس کی واضح مثال تھی کہ “ہم بمقابلہ وہ” کا معاملہ تھا اور یہ خود اپنی تنقید کرنے میں ناکامی تھی۔ یہ اخلاقیات کی ناکامی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راست باز تجسس پسندی کی چیک لسٹ کیا ہو سکتی ہے۔
کیا میں نے مخالف نکتہ نظر کو مکمل طور پر سمجھنے کی کوشش کر لی؟ اسے سنتے ہی تو رد نہیں کر دیا؟
کیا میں نے مخالف کو شک کا فائدہ دینے کی کوشش کی؟
کیا سنجیدگی سے اس خیال کو جگہ دی کہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں؟
کیا میرا پکا یقین جس کی بنیاد پر بحث کر رہا ہوں، کسی بنیاد پر ہے؟
کیا میرے ذرائع قابلِ اعتبار تھے یا میں نے گوگل پر صرف اپنی مرضی کا مواد ڈھونڈا ہے؟
کیا مجھے پتا بھی ہے کہ میں کیا کہہ رہا ہوں یا سنی سنائی دہرا رہا ہوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راست بازی کی اخلاقیات کا فوکس اپنی اخلاقیات پر توجہ دینا ہے۔ اور یہ صرف سائنس تک محدود نہیں، ہماری زندگی کا حصہ بن سکتا ہے۔ چونکہ ہم عقل کی روشنی کے اور علم کے خواہشمند ہیں، اس لئے سب سے پہلے تنقید انہی کے غلط رویے پر کرتے ہیں جن سے ہم علم اور عقل حاصل کرتے ہیں۔ یہاں پر جن کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ ہیں جن کے علم کی ہم قدر کرتے ہیں۔ اس تحریر کے مصنف نے ان کی کتابوں اور مضامین کے تراجم کئے ہیں۔ لیکن نہ ہی یہ اور نہ ہی تحریر کا مصنف تنقید سے بالاتر ہیں۔
جیسا کہ قدیم دانائی کا قول ہے۔
“عجزوانکساری کا تقاضا ہے کہ میں سچ کو قریبی دوستوں پر ترجیح دوں”۔
یہ کام آسان نہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply