ست بسم اللہ، جی آئیاں نوں۔۔ناصر خان ناصر

آج کل فیس بک کی کچی پکی دوستیوں کا عجب زمانہ ہے۔ یہاں دل دو گھڑی میں ملتے ہیں اور اگلے ہی لمحے معمولی باتوں پر یوں تعلق توڑ کر مکھ موڑ لیے جاتے ہیں جیسے جانتے نہیں۔
ہمارے ایک بے حد عزیز اور پیارے دوست نے ہمیں محض اس بنا پر ان فرینڈ کر دیا کہ ہماری فرینڈز لسٹ میں ایک مرزائی شاعر محترم موجود ہیں۔
ان محترم نے پہلے ایک وارننگ والی پوسٹ اپنی وال پر لگائی  کہ فلاں شاعر ایسا ہے ویسا ہے اور مرزائی ہے، لہذا میرے جو جو دوست اس کے دوست ہیں، ان سے فرمائش ہے کہ اسے فوراً ڈی فرینڈ کر دیں وگرنہ انھیں فارغ کر دیا جائے گا۔

ہمیں سچ مچ ان محترم کی بچگانہ ذہنیت پر بڑی شرمندگی ہوئی۔ یہ محترم اچھے خاصے معروف ادیب ہونے کے باوجود کنویں کے مینڈک نکلے۔

یہ درست بات ہے کہ اگر کوئی آپ کی دل آزاری کی بات لکھتا ہے تو آپ اسے بھلے فوراً انفرینڈ کر دیں مگر اپنے دوسرے دوستوں سے دوستی کو بھی اس بات سے مشروط کر دینا اصولی طور پر بھی غلط، بچگانہ اور احمقانہ ہے۔

پاکستان میں نئی  نسل تو نئی  نسل، ہماری پرانی نسل کو بھی مذہبی انتہا پسندی اور کٹر پن نے بالکل برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ پرانے وقتوں میں پاکستان میں جس مذہبی رواداری، اخلاص اور اخلاق کی گھٹی بچوں کو پلائی  جاتی تھی، شاید اس میں بھی نفرت، تعصب اور کٹر پن کا زہر گھول دیا گیا ہے۔

بھئ ہم تو ساری دنیا کے سارے لوگوں سے بلا تفریق مذہب، رنگ، قومیت، جنس، طبقاتی ، معاشی معاشرتی اختلافات کے بغیر دوستی کریں گے۔
“کل” لو جو کرنا ہے۔۔۔

ہماری فرینڈ لسٹ میں مذہبی، غیر مذہبی، ہندو، سکھ، عیسائی ، یہودی، لادین، بدھ، مرزائی ، سڑیٹ گے، لیزبین، مرد عورت، تیسری نسل کی ساری اقسام، کالے، گورے، گندمی، سانولے، پیلے، امیر، غریب، درمیانے اور ہر قسم کے، رقم رقم کے لوگ موجود ہیں۔ ہمیں کسی کے مذہب، خیالات، افکار، کردار، دولت وغیرہ وغیرہ سے ہرگز کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ باہمی عزت، محبت، رواداری اور خلوص ہی ہمارا خاصہ، اٹھنا بیٹھنا ہیں۔
نہ ہم اپنے خیالات یا مذہب کسی پر ٹھونستے ہیں نہ کسی کی کسی بھی وجہ سے ملامت کرتے ہیں۔ یہ عین وضعداری اور شرافت ہے کہ آج تک ہم نے کبھی کسی کو ڈی فرینڈ نہیں کیا، لوگ ہمیں ڈی فرینڈ کر دیتے ہیں تو ہم انھیں بھی معاف کر کے آگے چل پڑتے ہیں۔

ان پیارے محترم دوست نے اتنی پرانی دوستی اور ہماری چاہتوں کے باوجود ہمیں رد کر دیا تو ہمیں صرف اس بے وفائی پر وقتی افسوس ضرور ہوا کہ ان سے ہمارا دل مل گیا تھا، مگر پھر دل پر پتھر رکھ لیا۔ آگے بڑھ جانا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ہی ہمارا شیوہ ہے۔

ہم نے فرینڈ شپ کی پینڈنگ پڑی پانچ چھ سو درخواستوں میں سے ایک اور معتبر بندے کو یس کہہ کر وہ خلا فوری طور پر پُر کر دیا۔

ہنسی بھی آتی رہی کہ کسی دوست کو محض اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ آپ کے کسی مخالف کی لسٹ میں بھی ایڈ ہے، بے حد بچگانہ ذہنیت کی غمازی ہے۔

پہلے دیہاتوں میں ایسے ہوتا تھا کہ ہر شادی میں بڑی پھپھی روٹھ جاتی تھی اور وہ دوسرے رشتہ داروں سے بھی اپنا ساتھ دینے کی فرمائش کرتی تھی۔ پرائمری سکولوں کے بچے بھی یہی کرتے ہیں کہ اپنے دوستوں سے کہتے ہیں، فلاں سے دوستی توڑو وگرنہ بات نہیں کروں گا۔
کرے مونچھوں والا اور پکڑا جائے داڑھی والا۔۔۔؟

ہم تو الحمدللہ مسلمان ہیں اور ختم نبوت پر بھی کامل یقین رکھتے ہیں، ہمیں اس امر کی سزا دینا کہ ہم کسی کو ان کی شاعری کی بدولت دوستوں کی لسٹ میں رکھتے ہیں، کہاں مناسب ہے؟

پاکستانی معاشرہ نہایت تیزی سے زوال پذیر ہے اور اسے سدھارنے کی کوئی  سنجیدہ شعوری کاوش سرے سے نہیں کی جا رہی۔ ہماری تہذیبی اقدار، کلچر کو جان بوجھ کر نہایت تیزی سے اور پلاننگ سے تباہ کیا جا رہا ہے۔ حکومت، فوج، تعلیمی اداروں کی ملی بھگت سے عوام کو مذہب کے زہریلے نشے کی سخت ڈوز دے کر جہالت، تعصب، نفرت اور دہشت گردی کے اندھیرے دقیانوسی غاروں میں دھکیلا جا رہا ہے۔ پبلک اب سر راہ مذہبی اختلاف کا الزام لگا کر کسی بھی انسان کو موت کے گھاٹ اتار دینے کو بھی درست گردانے لگی ہے۔ انصاف، قانون، مروت، اخلاص، اخلاق اور رواداری سب کو مکمل غائب کیا جانے لگا ہے، وہ بھی اس زمانے میں جب ساری دنیا تیزی سے آگے بڑھنے کو قدم تول رہی ہے، نجانے ہم کیوں پیچھے جانے پر بضد ہیں اور پاتال کی گہرائیوں میں گرنے کو اپنی عظمت سمجھتے ہیں۔

اس پوسٹ پر دلچسب کامٹس کی بھرپور بھرمار لگ گئی  ہے۔ اگرچہ درپے در چومکھی لڑنا مشکل امر ہے مگر
مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا

پوسٹ کا سیدھا سادہ  نچوڑ یہ ہے کہ جس خندہ پیشانی سے ہم نے آپ سب پیارے دوستوں کے مثبت و منفی کامٹس کو قبول کیا، بالکل اسی طرح آپ بھی فراغ دلی اپنائیے۔ جیسے ہم نے اپنی حقیر رائے کسی پر نہیں ٹھونسی، ویسے ہی لوگوں کو “جیو اور جینے دو” کا حق ودیعت فرمائیے۔

یہی ایک بے حد سخت افسوسناک بات ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی  منافرت اور مذہبی دہشت گردی کا کوئی  تدارک کیا جا رہا ہے، نہ سنجیدگی سے اس بارے میں کوئی  ڈائیلاک کہیں شروع کیا گیا ہے۔

یہ اژدھا جسے حکمران ،مذہبی راہنما اور ادارے اپنا خون پلا کر پال پوس رہے ہیں، مزید بڑا ہو کر خود انھیں ہڑپ کر لے گا۔
یہی وقت ہے کہ پاکستانی دانشور اٹھیں اور تعصب، جہالت، کٹر پن کے خلاف اپنا جہاد شروع کر دیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ست بسم اللہ، جی آئیاں نوں۔۔۔

Facebook Comments