• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ایک شعر کے ضمن میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا مکتوب/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

ایک شعر کے ضمن میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کا مکتوب/ڈاکٹر ستیہ پال آنند

یہ کہہ سکتے ہو ہم دل میں نہیں ہیں پر یہ بتلاؤ

کہ جب دل میں تمہی تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو؟

مرزا غالب
اگر میں یہ کہوں، اے محتسب نقّاد ، ستیہ پال
کہ پورے شعر میں ترصیع اک ایسی مہارت ہے
کہ جس سے مستبد ترسیل قاری تک پہنچتی ہے
تو کیا اس بات کو تسلیم کر لینا بھی جوکھم ہے؟

ستیہ پال آنند
نہیں، اے محترم ، ترصیع تو ظاہر ہے بندش ہے
ــیہ کہہ سکتے ‘ ہو ہم دل میں’ نہیں ہیں پر’ یہ بتلاؤ’
٭ (مفاعیلن ؍ مفاعیلن ؍ مفاعیلن ؍ مفاعیلن
کہ جب دل میں؍ تمہی تم ہو؍ تو آنکھوں سے ؍ نہاں کیوں ہو
مفاعیلن ؍ مفاعیلن ؍ مفاعیلن ؍ مفاعیلن

مرزا غالب
مگر یہ کاغذی پیکار کیا اتنی ضروری ہے
کہ جب ’’دل‘‘ اور ’’آنکھوں ‘‘ میں تقابل ہے
تو اس میں چیستاں کیا ہے؟ سبھی کچھ صاف ہے، حضرت
فقط بس ’کس طرح‘، کیوں کر‘ ، ’کہاں‘ ہے آپ کا شیوہ؟
کوئی تو ثیق بھی ہو ، محتسب نقاد ، ستیہ پال

ستیہ پال آنند
ذرا تصویر کے اس دوسرے رخ کو بھی دیکھیں آپ
کہاں ’’دل‘‘۔۔ ایک تہہ خانہ۔۔ کہیں گہرائی میں’’ خفتہ‘‘
کہاں اک چشم ِ نظاّرہ ، نگاہ ِ دور بیں،’’ظاہر ‘‘
اگر ہم زرف بیں بھی ہوں، تو کیا یہ بھی ضروری ہے
کہ ہم سب کے دلوں کے اندرونی بھید بھی دیکھیں
کوئی جو دل میں رہتا ہے، وہ آنکھوں سے نہاں کیو ں ہو
یہ کیسی چہل ہے؟ ٹھٹھا ہے ، کیسا مسخرہ پن ہے؟

مرزا غالب
مجھے محسوس ہوتا ہے، سراپا بحث ستیہ پال
کہ ہر شے میں نفی، تردید پر ہی آ پ قائم ہیں

ستیہ پال آنند
نفی، تردید، استاذی، ہمیں محتاط رکھتے ہیں
چمکنے والی ہر اک چیز تو سونا نہیں ہوتی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شعر کے ضمن میں برقی مکتوب شمس الرحمن فاروقی صاحب کا
(القاب و آداب،ذا تی مندرجات ، اس شعر سے غیر متعلق حصص (۔۔۔نشان زد کر کے)اس طویل مکتوب سے منہا کر دیے گئے ہیں )

آ پ نے ترصیع کی خوبی سے اس نظم کی شروعات کی ہے جو ایک خوبصورت نقطہء آغاز تھا۔ بہر حال آگے چلتے چلتے آپ خدا جانے کن بکھیڑوں میں پڑ گئے ہیں۔ کسی غیر آگاہ قاری کو تو شاید یہ اچھا بھی محسوس ہو کہ یہ شاعر غالب میاں کی خوب خبر لے رہا ہے لیکن کوئی ایسا نکتہ ہو بھی تو! آپ تو یہاں تک پہنچ گئے کہ مصرع ثانی کو ٹھٹھا، مسخرہ پن کہہ کر شاعر کی کِھلی اُڑا دی۔۔۔ میرا خیال ہے کہ خوب گوئی میں اپنا ثانی نہ رکھتے ہوئے بھی غالب کے اس شعر میں معنی واضح نہیں ہیں۔ میں نے اس شعر کی تفہیم میں تحریر کیا تھا کہ مصرع اولیٰ میں استفہام نگاری ہے۔ سیدھا سادہ سا ایک سوال ہے جسے شاعرانہ نزاکت سے پوچھا گیا ہے۔ (معشوق کا عاشق سے استفسار) کیا تمہیں خبر ہے کہ ہم تمہارے دل میں نہیں بستے؟ اس معنی پر بہت لے دے ہوئی ہے ۔۔لیکن آپ تو اسے نظر انداز ہی کر گئے۔

میں نے”تفہیم ِ غالب” سے اس نہایت ا ہم نکتے پر لکھا تھا کہ اگر معشوق سے مراد اللہ ہے ، تو کہاں تک ہم اس معنی کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔

اگر قرآن کی اس آیت سے استفادہ کیا جائے ۔(ہم ، یعنی اللہ تعالیٰ ، تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں(نحن اقرب الیہ من حبل الودید) اس آیت کو مصرع ثانی کا حوالہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
۔۔۔آپ نے درست فرمایا ہے کہ مکالماتی نظم میں الم غلم ۔۔۔ سب کچھ نہیں بھرا جا سکتا ، لیکن ضروری مسائل پر رائے دینے سے احتراز بھی بخیلی ہے۔

ہر چند سبک دست ہوئے بُت شِکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ ِ گراں اور
٭٭

تسلیم ، محترم، کہ سبک دست ہوئے آپ
کس کار ِ خیر سے؟ ذرا تفصیل سے کہیں
جی، بُت شکنی سے؟مگر کس سومنات کی ؟
وہ سومنات جو کہ انائیت کا ہے صنم
جو خود سے خود نمائی کا القاب بن گیا؟
“ہم ہیں” تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور
جی ہاں! مگر یہ “ہونا” ہی تو سنگ ِ گراں تھا!
اس سے کہاں پناہ ملی، آپ کو جناب؟
مِن الخطا ہیں ’’ ـبُتـ‘‘ کی بصیرت میں سر بسر
اب راہ میں تو سنگ ِ گراں ہے فقط یہی
خود سے مقاومت میں بھلا جیت پائیں گے؟

سر پڑتا سوجھتا کوئی بار ِ گراں ہےاب (حالیؔ)

وفا داری، بشکل ِ استواری، اصل ِ ایماں ہے
مَرے بُتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو براہمن کو
٭٭
وفاداری؟ وفا کیشی، کھرا پن، کلمہ ء حق ہے
مگر اک شرط ہے یہ حق شعاری مستقل ہو ۔۔۔ پائیداری،استقامت، جاری و ساری رہے مرنے کے لمحے تک!
مگر کعبہ میں کیوں گاڑو براہمن کو؟
بھلا کیوں؟
بُت پرستی شیوہ ء  زنّار بنداں تو ہے، لیکن
اس پہ بھی کچھ روشنی ڈالیں
کسی ہندو پجاری کو بھلا الحاد کا اعزاز دینا؟
اے چچا غالب، بتائیں ، کیوں؟

ذرا پہچان مجھ کو عیب جُو آنند، میں نے ہی
کہا تھا اس اباحت کی حمایت میں ۔۔۔۔۔
نہیں کچھ سجہ و زنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے!

کہا تو آپ نے ہی تھا، مگر کچھ غور فرمائیں، چچا غالبؔ

“مرے بُتخانہ میں تو کعبہ میں گاڑو براہمن کو”

مری تردید یا ترمیم تو بس “گاڑنے” تک ہے ۔۔۔۔

کہ جو ممنوع ہے اِن متشکک ، ایمان سے عاری گنواروں میں ۔۔۔

کہ ہم “گاڑو” کہیں یا “دفن کرنے کی “ارادت”

بات آخر ایک جیسی ہے !
مرے بتخانہ میں تو کعبہ میں “گاڑو” برہمن کو ۔۔۔؟

تو گویا آپ نے ہندو پجاری کے لیے ۔۔۔

“تعظیم” میں “تضحیک” کا پہلوبھی رکھا ہے۔

بہت چالاک ہیں لفظوں کے داؤ گھات میں آخر چچا غالب!

مرے بُتخانہ میں تو کعبہ میں “گاڑو ” براہمن کو

چلیں پوچھیں ذرا اک بار پھر، شاید ۔۔۔ کوئی معقول پاسُخ مل بھی جائے ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہاں ۔۔۔ چچا غالب سے کچھ بھی تو بعید از دسترس ہونا بعید از عقل ہونے کے برابر ہے، میاں آنند!

Facebook Comments