سائنٹزم (23)۔۔وہاراامباکر

ڈکشنری میں لفظ سائنٹزم کی تعریف کچھ یوں کی گئی ہے، “اس چیز پر حد سے بڑھا ہوا اعتبار کہ نیچرل سائنس کے طریقے علم کے ہر طریقے میں کارآمد رہیں گے (جیسا کہ فلسفہ، معاشرتی علوم، ہیومینیٹیز میں)۔
سوزن ہیک اس کی تعریف ایسے کرتی ہیں کہ “سائنٹزم ایک ضرورت سے زیادہ پرجوش رویہ ہے جو اس بات کو تسلیم کر دینے سے انکار کر دیتا ہے کہ حدود کیا ہیں، کمزوری کہاں پر ہے اور اس سے خطرہ کیا ہے”۔
اس لفظ کا استعمال تین طریقے سے کیا جاتا ہے۔
پہلا استعمال “معقول منفی معنوں” میں (جس کی تعریف اوپر کر دی گئی)۔
دوسرا استعمال “غیرمعقول منفی معنوں میں”۔ یہ وہ افراد کرتے ہیں جن کے لئے سائنس کا وہ خیال جو انہیں پسند نہ ہو، اس ذیل میں آتا ہے اور بجائے دلیل کے، اس لفظ کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ سائنس مخالف گروپ کا طریقہ ہے۔
تیسرا استعمال “مثبت معنوں” میں۔ یہ طریقہ کچھ سائنسدانوں اور فلسفیوں نے نکالا ہے کہ اس لفظ کو دوسرے گروپ سے واپس چھیننے کے لئے ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ نیچرل سائنس کے طریقوں پر حد سے بڑھا ہوا اعتبار کوئی شے نہیں۔
اس تحریر میں ہم اس کے پہلے استعمال کی طرف (کسی حد تک) توجہ دیں گے۔ دوسرے کو انٹلکچوئل دیوالیہ پن کہہ کر نظرانداز کر دیں گے اور تیسرے پر (کسی حد تک) تنقید کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے اس مسئلے کی چند واضح مثالیں۔
ایک مشہور نیوروسائنٹسٹ نے عام فہم کتاب لکھی جس کا نام “The Moral Landscape” ہے۔ اس میں انہوں نے دلائل دئے ہیں کہ سائنس انسانی اقدار کا تعین کر سکتی ہے۔ اس پوری کتاب میں اخلاقی فلسفے کا ذکر نہیں۔ اس کتاب کے آخر میں انہوں نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ “اخلاقی فلسفہ کائنات کی بوریت میں اضافہ کر رہا ہے”۔ اس کے بعد انہی مصنف نے اگلی کتاب “فری وِل” پر لکھی جس میں پھر لکھا کہ اس معاملے کا تعلق صرف اور صرف سائنس سے ہے۔ ایک مشہور سکیپٹک نے کتاب “Moral Arc” لکھی جو اسی قسم کی تھی۔ ہم انہیں سائٹزم کیوں کہتے ہیں؟ یہاں پر دعوٰی یہ نہیں کہ سائنس اخلاقی ڈسکورس میں مدد کر سکتی ہے (جو درست ہوتا لیکن اس قابل نہ ہوتا کہ اس پر کتاب لکھی جائے) بلکہ یہ ہے کہ سائنس واحد اپروچ ہے جو ایسا کر سکتی ہے۔ صدیوں کا سکالر شپ اس بنیاد پر نظرانداز کر دینا کہ یہ “بورنگ” ہے یا “ظاہر ہے کہ فضول ہے” سنجیدہ بات ہی نہیں۔ یہ بے کار استدلال ہے اور وہ بھی غیرمعیاری۔ ایسے مصنفین کے بارے میں ہم یہی گمان کر سکتے ہیں کہ انہوں نے مطالعہ نہیں کیا ہو گا ورنہ یہ اتنے ذہین ہیں کہ پڑھتے تو سمجھ سکے تھے۔ (یہاں پر یہ اضافہ کہ سنجیدہ دانشوروں میں سے کسی نے ان کتابوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا لیکن ان کی اپنی ایک فین فالوونگ ہے)۔
سائنٹزم کا ایک دوسری واضح پہلو غیرسائنسی علوم کو بغیر کسی دلیل کے بے کار قرار دینا۔ اس میں کسی وجہ سے پاپولر فزسسٹ زیادہ آگے ہیں۔ ان کی تفصیل ابھی بعد میں۔
تیسرا پہلو وہ ہے جس میں دعوٰی کیا جاتا ہے کہ پیچیدہ سوالات کا جواب کسی ایک شے (مثلاً ایم آر آئی سکین) سے مل گیا ہے۔ اس کو بار بار debunk کیا جا چکا ہے لیکن پاپولر میڈیا میں یہ مقبول ہے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ نیوروامیجنگ سے ہمیں اچھی معلومات نہیں ملتی۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ پیچیدہ کہانی کا ایک حصہ دکھاتا ہے اور وہ بھی لازمی نہیں کہ سب سے اہم حصہ۔ یہ دکھانا کہ نیورواناٹومیکل سٹرکچر الف میں فلاں سرگرمی کا شماریاتی کوریلیشن فلاں قسم کی سوچ سے ہے، ہمیں بالکل بھی آگاہی نہیں دیتا کہ کیوں لوگ خاص قسم کی اخلاقی سوچ رکھتے ہیں (اور یہ تو بالکل بھی نہیں کہ وہ اس بارے میں ٹھیک کر رہے ہیں یا نہیں)۔
ایسی تحقیق کی سطحی تشریحات اصل میں ہمیں اس فینامینا کو سمجھنے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایک سراب ہے پسِ منظر میں کارفرما جینیاتی، ڈویلپمنٹ، ماحولیات اور سماجی فیکٹر جو کہانی بناتے ہیں، ہم اس سکین کی مدد سے اس سب کی وضاحت کر لیں گے، جب کہ ایسا کئے جانے کا امکان نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس بیماری کی بے شمار مثالوں کی مختصر سی جھلک ہے۔ اس کا یہ بالکل مطلب نہیں کہ سائنسدانوں کو اپنی مہارت یا اپنے ڈسپلن سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مختلف ڈسپلنز کے درمیان دیوار کھڑی ہونی چاہیے۔ معاشرتی علوم، آرٹس، فلسفے کو سائنس سے متعلقہ جگہوں پر سیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب نیچرل سائنسز کا امپیریل ازم نہیں۔ اس کو سوچ کر اصل نالج کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ نہ کہ اس طریقے سے جس کو ہمارے نیوروسائنٹسٹ نے کیا۔ ایک نئے شعبے میں اپنا آغاز willfull ignorance سے کر کے۔ جو پڑھا نہیں یا جو سمجھ نہ آیا، اس کو بورنگ قرار دے کر۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوزن ہیک سائنٹزم کی چھ نشانیاں بتاتی ہیں۔
۱۔ “سائنس”، “سائنسدان”، “سائنسی طور پر” جیسے الفاظ کو تعریف کے لئے استعمال کرنا۔
۲۔ ٹیکنالوجی کی اصطلاحات اور انداز ان جگہوں پر استعمال کرنا جہاں سے ان کا تعلق نہیں۔
۳۔ اس بات کا جنون کہ فٹافٹ ٹھیک اور اصل سائنس اور سوڈوسائنس کے درمیان واضح لکیر لگائی جائے۔
۴۔ اس پر اصرار کہ اگر اس جگہ پر سائنسی طریقہ استعمال کر لیا جاتا تو جواب مل جاتا۔
۵۔ سائنس سے وہ جوابات دیکھنا جو اس کی سکوپ سے باہر ہیں۔
۶۔ انسانی علوم کے دوسرے شعبوں کو بے کار قرار دینا، خواہ وہ مصوری ہو، شاعری یا کچھ اور۔
چھٹے نکتے کی چند مثالوں کے لئے
“فلسفہ مر چکا ہے”۔ کاسمولوجی کے فلسفے کی مشہور کتاب کا ابتدائیہ
“فلسفیوں کا وہم ہے کہ ان کے سوال گہرے ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں انہیں دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یہ کر کیا رہے ہیں۔ یہ ہماری ترقی میں تاخیر ہی کر رہے ہیں”۔ فزسسٹ اور مقبول سائنس پاپولرائز
“جب بھی ہم فزکس میں آگے بڑھتے ہیں، یہ فلسفے کی شکست ہے۔ فلسفی اس لئے ہم سے نالاں ہیں۔ اور اس کا بدترین حصہ سائنس کا فلسفہ ہے۔ جہاں تک مجھے پتا ہے، ان کا کام صرف دوسرے فلسفی ہی پڑھتے ہیں”۔ مشہور کاسمولوجسٹ
“مورخین کے کام میں دماغ کے استعمال کی خاص ضرورت نہیں۔ اگر میں شائستہ الفاظ میں کہوں تو ان میں سے زیادہ تر عقلمند نہیں”۔ مشہور پولی میتھ
“فلسفیوں کا سائنس پر کچھ اثر رہا ہے اور ہر بات منفی طور پر۔ ان کے موٹے الفاظ مجھے سمجھ نہیں آتے”۔ نوبل انعام یافتہ فزسسٹ۔
ایسی بہت بہت طویل فہرست ہے۔ لیکن امید ہے کہ آپ سمجھتے ہوں گے کہ اس کی وجہ مضمون سے ناواقفیت ہے (ان میں سے کسی نے بھی وہ مضمون نہیں پڑھا ہو گا جس پر تنقید کی ہے) اور یہ مایوس کن ہے۔ یہ اینٹی انٹلکچویل ازم جب کسی مقبول دانشور کی طرف سے آئے تو ایسے رویے کو ہم نرم الفاظ میں غیرذمہ داری کہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح سائنس اور سوڈوسائنس کی لکیر واضح نہیں، ویسے ہی سائنس اور سائنٹزم کی لکیر بھی واضح نہیں۔ لیکن کچھ نہ کچھ لکیر تو ہے۔
یہاں پر ایک اور نکتہ وقت کا ہے۔ جس کو ہم “سائنس کرنا” کہتے ہیں، وہ بھی وقت کے ساتھ بدلتا رہا ہے۔ کیا ارسطو سائنس کر رہے تھے جب انہوں نے لیسبوس کے جزیرے سے خول اکٹھے کر کے ان کا مشاہدہ کیا تھا؟ ایک لحاظ سے ہاں لیکن جدید بائیولوجسٹ سے ان کا طریقہ فرق تھا۔ کیا بطلیموس آسٹرونومی کر رہے تھے جب انہوں نے نظامِ شمسی کے سٹرکچر پر تھیوری بنائی تھی؟ ایک لحاظ سے ہاں، لیکن ویسے نہیں جیسے گلیلیو نے کی تھی یا ویسے تو بالکل نہیں جیسا آج کا آسٹرونومر کرتا ہے۔
سائنس کرنے کے بارے میں سوچنے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟ یہ ایک سوشل ایکٹیویٹی ہے۔ اس میں سوشل رسومات بھی ہیں (پئیر ریویو، تحقیق کے فنڈ)، اداروں کا کردار بھی ہے (یونیورسٹیاں، سرکاری ادارے، نجی سیکٹر)۔ سائنس وہ ہے جو سائنسدان کرتے ہیں۔ یہ خود بیرونی دنیا کی حقیقت نہیں۔ سائنسدانوں کے پاس کام کرنے کا اپنا طریقہ ہے، اپنے اوزار ہیں جس طرح کسی بڑھئی یا وکیل کے اپنے اوزار ہیں۔ فلسفی، مورخ، ادبی نقاد، آرٹسٹ سے انہیں آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔
سائنس ان سب کے شعبوں میں معنی خیز کردار ادا کر سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ سائنس ہماری دنیا کی سمجھ میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے جس میں انسانی کلچر بھی شامل ہے۔ اور نہیں، سائنس اس سمجھ کا نہ ہی شروع ہے اور نہ ہی آخر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اس پر شاید آسانی سے اتفاق کر سکتے ہیں کہ سائٹزم ایک مسئلہ ہے۔ فکری نمو روکنے والا پھندا ہے۔ اس کا ایک ممکنہ حل ہمیں ایک غیرمتوقع جگہ سے مل سکتا ہے۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر میں پوسٹر سائنٹزم کا ایک مظہر ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply