سانحہ جانکاہ… وصا ل النبیﷺ
جب حضورپر نور علیہ الصلاۃ والسلام اس دنیائے فانی سے پردہ فرماگئے تو مسلمانوں پر سراسیمگی کا عالم طاری تھا۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ ان پر محبوب کبریا کی جدائی کی صورت غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ تلوارہاتھ میں سونتے لوگوں کو دھمکا رہے تھے کہ’ ’اگر کسی نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ وفات پا گئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا…نہیں! بلکہ وہ اللہ کے ہاں بمثل موسی علیہ السلام گئے ہیں، آپﷺ یقینا واپس آئیں گے اور منافقین کا قلع قمع کر یں گے۔‘‘
اسی اثناء میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام سخ سے تشریف لے آئے۔ انہوں نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی جانب توجہ نہ دی اور سیدھا حجرئہ اقدس میںتشریف لے گئے۔سرور کونینﷺ کے رخ انور سے یمنی چادر ہٹائی، بوسہ دیا اور گلوگیر آواز میں گویا ہوئے:
ـ’’آپﷺ پر میرے ماں باپ قربان ہوں،آپﷺ کی حیات اور موت دونوں پاک ہیں، جو موت اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کے حق میں لکھ دی تھی آپﷺ نے اس کا مزہ چکھ لیا ، اب اس کے بعد آپﷺکبھی وفات نہیں پائیں گیـ‘‘۔
یہ فرمایا اور چہرۂ مبارک چادر سے ڈھک دیا۔ باہر مسجد نبوی ﷺ میں آئے تو وہی منظر تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے قسمیں کھانے والے ٹھہر جا،جلدی نہ کر!‘ ‘
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بات سنی ا ن سنی کر دی۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ التفات نہ فرمایا اور مجمع کی طرف رخ کر کے پہلے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی اور پھر ارشاد فرمایا:
’’ أَلا مَنْ کانَ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّی اللہَُّ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ، وَمَنْ َکانَ یعْبُدُ اللّہَ فَإِنَّ اللّہَ حَيٌّ لاَ یمُوتُ، وَقَالَ: إِنَّک مَیِّتٌ وَإِنَّھُمْ میِّتُونَ [الزمر: 30]، وَقَالَ: وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلی أَعْقَابُِکمْ وَمَنْ ینْقَلِبْ عَلی عَقِبَیہِ فَلَنْ یَضُرَّ اللّہَ شَئیا وَسَیجْزِي اللّہُ الشَّاکِرِینَ [آل عمران: 144[
ترجمہ: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پوجتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔(پھر سورہ الزمراور آل عمران کی یہ آیات تلاوت فرمائیں): ’اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پا جائیں یا انہیں شہید کر دیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے‘۔
لوگوں کایہ سننا تھا کہ وہ زارو قطار رونے لگے، انہیں اب یقین ہو چلا تھا کہ رسول اللہﷺ اس دار فانی سے دارالبقا کوکوچ کر گئے ہیں۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آل عمران کی مذکورہ آیت معلوم ہوتا تھا کہ ابھی آسمان سے نازل ہوئی ہے،بعد اس کے ان کے قدموں میں جان نہ رہی اور وہ گر پڑے۔شمع رسالتﷺ کے پروانوں کے لیے اس سے بڑھ کر غم و صدمہ کا اور کون سا موقع ہو سکتا تھا، لیکن یہاں بھی یہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی شخصیت کا اعجاز تھا کہ انہوںنے کمال حوصلہ اور دانائی سے مسلمانوں کو کسی فتنے میں پڑنے سے بچا لیا حالاں کہ طبعاًآپ رضی اللہ عنہ اوروں کی نسبت زیادہ رقیق القلب واقع ہوئے تھے۔
جیش اسامہ رضی اللہ عنہ کی روانگی اور امارت کا مسئلہ
رسول اللہ ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ایک لشکر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی امارت میں تشکیل دے کر اسے روم کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا تھا۔ مقصد رومیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کا بروقت تدارک کرنا تھا اور بعض دیگر کے جنگ موتہ کا بدلہ لینا پیش نظر تھا(حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں شہید ہوئے تھے)۔ بہرصورت لشکر ابھی مقام جرف(مدینہ کے اطراف کا میدان)پر پڑاؤٗکیے ہوئے تھا کہ وصال کی خبر آ گئی اور روانگی تجہیز و تکفین تک ملتوی ہو گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفۃالرسولﷺمنتخب ہوئے تو خلافت سنبھالتے ہی سب سے پہلے جیش اسامہؓ کی روانگی کا حکم صادر فرمایا۔ وصال مبارک کی بدولت حالات نازک ہو چلے تھے، بغاوت اور ارتداد کے سائے منڈلانے لگے تھے اور عرب قبائل میں شورش برپا ہونے کی خبریں مسلسل دربار خلافت میں آ رہی تھیں۔ ایسے میں مسلمانان مدینہ میں بے چینی کا پیدا ہونا فطری تھا۔ چناچہ صحابہ اکرا م رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ فی الوقت لشکر کی روانگی کو مؤخر کر دیا جائے تاکہ مدینہ طیبہ کی حفاظت ہو اوراول فتنہ و ارتداد کا بندوبست کیا جا سکے…مگر قربان جائیے صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی ایمانی قوت و استقلال پہ کہ فرمایا:
’ ’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر مدینہ اس طرح خالی ہو جائے کہ اکیلا میں ہی رہ جاؤں اور درندے اور کتے مجھے بھنبھوڑ کھائیں میں پھر بھی اسامہؓ کو آپﷺ کے حکم کی تعمیل میں روانہ کروں گا۔‘‘
لوگوں نے جب دیکھا کہ خلیفۃالرسولﷺفیصلے میں پکے ہیں تو بعض انصار نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر لشکر کی روانگی ضروری ہی ٹھہری ہے تو امارت پرجواں سال اسامہؓ کی بجائے کسی معمر اور تجربہ کار صحابی کو مقرر کر دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب یہ سفارش لے کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو آپ رضی اللہ عنہ قدرے غصے سے مخاطب ہوئے:
ـ’’اے خطاب کے بیٹے! رسول اللہﷺ نے اسامہؓ کو امیر لشکر مقرر فرمایا اور اب تم کہتے ہو ان کو معزول کر دوں!‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ جوابا کیا کہتے، لوٹ آئے اور لوگوں کو سخت سست کہا کہ ان کی وجہ سے انہیں خلیفۃالرسولﷺ سے جھڑکیاں سننے کو ملی ہیں۔ وصالِ مبارک اور مابعد پے درپے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ اگر اس وقت میں اللہ تعالیٰ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ذریعے امت محمدیہﷺ کی دستگیری نہ فرماتے تو اس کا شیرازہ بکھر جانے کو تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ایمانی قوت اورکامل اطاعت نبویﷺ کے جذبے نے انہیں کسی بھی قسم کے انحراف سے باز رکھا۔ اور پھر ہم دیکھتے ہیںکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ مع اپنے لشکر کے فاتح اور کامیاب لوٹتے ہیں۔
مانعین زکاۃ سے قتال
جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ حضورﷺ کے وصال کے بعد ہر جانب سے شورشوں اور فتنوں نے سر اٹھانا سروع کر دیا تھا۔ انہی میں سے ایک گروہ ادائی زکوۃٰ کا منکر ہو گیا۔ یہ لوگ مدینہ کے قرب جوار میں بسنے والے قبائل عبس و ذیبان و دیگر سے تعلق رکھنے والے تھے۔ کچھ تو ان میں سے بسبب بخل ادا کرنے سے پھر گئے، کچھ اسے ریاست کا تاوان سمجھنے کی وجہ سے انکاری ہو گئے اور کچھ کا مؤقف تھا کہ وہ اپنے ہاں کے غرباء میں خود تقسیم کر دیں گے ، دارالخلافہ کچھ نہ بھجوائیں گے۔ یہ لوگ مختلف گروہوں کی شکل میں آ کر مدینہ کے اطراف میں بیٹھ گئے اورمدینہ کے باسیوں کو قائل کرنے لگے کہ ہم سے نماز پڑھوا لی جائے پر زکوٰۃ کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس نازک صورت حال کو دیکھا تو کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مشورے کی غرض سے بلوا لیا۔ اکثریت نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ لوگ ابھی جدید الاسلام ہیں، ان سے تعرض نہ کیا جائے، جب اسلام ان کے دلوں میں راسخ ہو جائے گا تو یہ خود ادائی زکوٰۃکرنے لگیں گے۔ اس موقف کے حق میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی پیش پیش تھے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا یہ سننا تھا کہ گرج کر بولے:
’’اے ابن خطاب! تم زمانہ جاہلیت میں تو بڑے جبار تھے، مسلمان ہوکر بودے اورپست ہمت (خوار) بن گئے۔ وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، دین کمال کو پہنچ چکا۔ کیا میری زندگی میں اس کی قطع و برید کی جائے گی!… خدا کی قسم! اگر رسی کا ایک ٹکڑا بھی دینے سے لوگ انکار کریں گے تو میں ان سے جہاد کروں گا۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ حجت پیش کی کہ آپؓ ان سے کس بنیاد پر قتال کریں گے؟ آنحضرتﷺ نے تو فرمایا ہے کہ ’’مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک قتال کروںجب تک وہ لاالہ الا اللہ وان محمدرسول اللہ نہ کہیں… لیکن جب وہ یہ کلمہ پڑھ لیں گے تو ان کی جانیں اور مال محفوظ ہو جائیں گے مگر ہاں جب ان پر کسی کا کوئی حق ہوـ‘‘۔ لیکن اللہ اللہ! اس کے بالمقابل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حق کا اظہار کتنی قوت سے کرتے ہیں، فرماتے ہیں:
’’ واللہ لاقاتلن من فرق بین الصلاۃ و الزکاۃ، فان الزکاۃ حق المال،واللہ لو منعونی عناقاکانوا یودونھا الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لقاتلتھم علی منعھا۔۔۔‘‘ (صحیح البخاری: ۱۴۰۰(
ترجمہ: ’’اللہ کی قسم !میں ہر اس شخص سے جنگ کروں جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا، کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے،خدا کی قسم! اگر انہوں نے زکوٰۃ میں چار مہینے کی (بکری کے) بچے کو دینے سے بھی انکار کیا جسے وہ رسول اللہﷺ کو دیتے تھے تو میں ان سے لڑوں گا…ـ‘‘
یہ سننا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے اللہ تعالی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سینہ لڑائی کے لیے کھول دیا ہے اور بعد میں خودان کو بھی اطمینان ہو گیا کہ حق یہی ہے۔یہ بعینہ وہی بات تھی کہ جب دور رسالت ﷺمیں بنو ثقیف کا ایک وفد آپﷺ کی بارگاہ میںقبول اسلام کی غرض سے حاضر ہوا اس شرط پہ کہ انہیں نماز معاف کر دی جائے تو آپﷺ نے بڑی سختی سے رد فرمایاـ:
’’بھلا وہ دین ہی کیا ہے جس میں نماز نہ ہو۔‘‘
مطلب صدیقی فہم و فراست جانتی تھی کہ جس طرح نماز کی فرضیت پر سمجھوتا نہیں ہو سکتا بالکل اسی نہج پر زکوٰۃکی فرضیت پر بھی سوال نہیں اٹھ سکتا۔ اللہ تعالی نے اپنے کلام میں دونوں کو متعدد مقامات پر اکٹھے بیان فرمایا ہے، چنانچہ درجہ کے اعتبار سے دونوں احکام برابر ہیں اور اگر اسی طرح لوگوں کو من پسند رعایتیں دی جاتی رہیں تو دین اسلام مذاق بن کر رہ جائے گا۔ سرکش وفود ناکام و نامراد لوٹے اور مدینہ طیبہ پر حملہ کرنے سے قبل ہی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اقدامی جہاد کرتے ہوئے انہیں شکست فاش دی اور دین میں ’گنجائش‘ کے باب کوہمیشہ کے لیے بند کر دیا۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آخری چار واقعات میں ہم امت محمدیہ ﷺ کی دوبزرگ ترین ہستیوںیعنی ’حضرات شیخین‘ کو آمنے سامنے پاتے ہیں۔جناب فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل مشہور و معروف ہیں۔ عوام کی اکثر محفلوں میں ان کا تذکرہ اور واقعات کا اعادہ ہوتا رہتاہے لیکن حق اور سچ یہی ہے کہ جناب صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اپنے ساتھی سے مقام و مرتبہ میں بہت بلنداور فائق ہیں۔اس کا اظہار و اعتراف سیرت کی کتب میں جابجا نظر آتاہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا کہ:’عمرؓ اور اس کے خاندان کی ساری نیکیاں ایک طرف جبکہ ابوبکرؓ کی ایک رات(یا بروایات تین راتیں۔۔۔غار ثور ) یا ایک دن(منکرین زکوٰۃ سے قتال ) کی نیکی ایک طرف ان سب پہ بھاری ہے۔‘‘
اللہ اکبر!!بلاشبہ وہ ایسے ہی تھے،اور بے شک افضل الامت کی فضیلت و منقبت کا بیان زبان رسالت ﷺسے بہتر و برترکون کر سکتا ہے، آپ رضی اللہ عنہ( اکیلے )کی تعریف میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ہم آخر میں صرف ایک قول پیش کر کے اپنے مضمون کو سمیٹتے ہیں،اللہ کے حبیبﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ما لا احد عندنا ید الا وقد کافیناہ ما خلا ابابکرفان لہ عندنا یدا یکافیہ اللہ بھا یوم القیامہ وما نفعنی مال احد قط ما نفعنی مال ابی بکر ولو متخذا خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا الا وان صاحبکم خلیل اللہ‘‘ (الترمذی: ۳۶۶۱(
ترجمہ: کسی کا ہمارے اوپر احسان نہیں جسے میں چکا نہ دیا ہوسوائے ابو بکر کے، کیوں کہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیںاللہ ہی دے گا،کسی کے مال سے مجھے کبھی بھی اتنا فائدہ نہیں پہنچاجتنا مجھے ابو بکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو اپنا خلیل (گہرا دوست) بنانے والا ہوتا تو ابو بکررضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا، سن لو تمھارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے۔

صلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعا احسان الی یوم الدین۔۔۔!!!!
Facebook Comments