مقبوضہ کشمیر، مودی اور کسان تحریک۔۔ سید عمران علی شاہ

دنیا میں قومی ریاستوں کا نظام کچھ زیادہ قدیم نہیں ہے، اس وقت دنیا کے نقشے پر تقریباً 200 کے لگ بھگ ممالک ہیں، جنگ عظیم دوم کے بعد، اس کی ہولناکیوں کا ادراک کرتے ہوئے، اقوام عالم نے ایک ایسے ذمہ دار ادارے کی ضرورت محسوس  کی کہ جو تمام ممالک کو امن کی راہ پر رکھے، اسی لیے اقوام متحدہ کا وجود عمل میں آیا، اقوام متحدہ کو بنانے کا مقصد دنیا میں امن و سلامتی کو فروغ دینا تھا اور طاقت کے توازن کو اس طرح سے برقرار رکھنا تھا کہ کوئی بھی قوم یا ملک کسی دوسرے ملک کی طرف سے ظلم و جبر اور زیادتی کرنے سے باز رہے ، دنیا میں طاقت کے توازن کے قیام اور تنازعات کے پر امن حل کے لیے ایک بااعتماد ادارے کا وجود ناگزیر تھا، پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ جموں و کشمیر ایک اہم ترین مسئلہ رہا ہے، اس مسئلے کے پیش نظر ان دونوں ممالک میں حالات ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہے۔

یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ بھارت نے روزِ  اوّل سے پاکستان کے وجود کو تسلیم ہی نہ کیا تھا، اور 14 اگست 1947 کے بعد سے  آج تک، پاکستان کو ختم کرنے کے در پہ رہا، دونوں ممالک میں جنگیں بھی مسئلہ کشمیر پر ہو چکی ہیں، بھارت نے خود اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا، جس پر اقوام متحدہ میں قرارداد کے ذریعے سے کہا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کروا  کر کشمیریوں کو یہ حق دیا جائے کہ وہ خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں۔

پاکستان کا بھی آج تک یہی موقف رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جائے، لیکن یہ اقوام متحدہ کی اب تک کی سب سے بڑی ناکامی ثابت ہوئی ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کو رکوانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے، ویسے بھی مسلمانوں کو لے کر دنیا کا میعار ہمیشہ سے دوہرا رہا ہے۔

73 سالوں  میں بھارتی مظالم کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا نے والے معصوم اور نہتے کشمیریوں کی چیخ و پکار سنائی نہیں دیتی، ہر دور میں مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا گیا، بوسنیا، عراق، شام، اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم پر نام نہاد روشن خیال دنیا کی مجرمانہ خاموشی کو اگر نظر انداز کر دیا جائے تو ہم سے بڑا نادان کوئی نہیں ہوگا، اپنے آپ کو سیکولر اور دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کہلوانے والا دنیا کے نقشے پر ظالم ترین ملک ہے، جس میں بسنے والے نچلی ذاتوں کے ہندو، عیسائی، مسلمان اور دیگر اقلیتی مذاہب کے ماننے والے لوگوں کے ساتھ جانوروں جیسا  سلوک کیا جاتا ہے، جنونی ہندو قوم فاشسٹ مودی سرکار کی طرف سے مقبوضہ وادی کشمیر میں کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی بھر پور وکالت اور اس کی تائید کیے جارہی ہے۔

گزشتہ 73 سال میں بھارت نے مقبوضہ وادی کشمیر انسانی تاریخ کی  بد ترین مثالیں قائم کی ہیں، جس طرح سے بھارتی قابض افواج نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر و ا رکھا ہے اب یہی ظلم و ستم بھارت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا۔

5 اگست 2019 کو بھارتی لوک سبھا نے آرٹیکل 370 کے غیر آئینی خاتمے کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیریوں کی آزادی کے لیے از خود صبح نو کا آغاز کردیا ہے، آج مقبوضہ کشمیر میں غیر انسانی ظالمانہ لاک ڈاؤن کو تقریباً دوسال ہونے کو ہیں، لیکن یہ سختیاں کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو دبا نہیں سکیں۔

دوسری جانب،لداخ میں بھارت کے 40 فوجی چین کے ہاتھوں میں مارے گئے یہ گزشتہ سال کا واقعہ ہے حال ہی میں بھارت چین سرحد پر چین والوں نے پھر بھارتیوں کو مار مار کے بھگا دیا ہے۔ کشمیر میں جاری مزاحمت میں کمی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آ رہے مگر مودی حکومت کے لیے اس وقت چیلنج لسٹ میں کشمیر چین یا پاکستان میں کوئی بھی نہیں ہے کیوں کہ اس وقت مودی حکومت گزشتہ کئی ماہ سے جاری کسان مزاحمتی تحریک کے سامنے اپنی بقاء کی جنگ ہارتی دکھائی دیتی ہے۔ اس تحریک میں نیا موڑ اس وقت آیا جب 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے قومی دن کے موقع پر کسانوں نے انڈین فوجی ٹینکوں کے مقابل کسانی اندولن کے ٹریکٹر لا کھڑے کیے اور انڈین سسٹم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ریاستی پسپائی کے بعد مشتعل کسان مظاہرین نے دہلی کے تاریخی لال قلعہ جو شاہ جہاں نے سترھویں صدی میں تعمیر کیا تھا اور برطانوی دور میں بھی جسے ریاستی اقتدار کی علامت سمجھا جاتا تھا اس کے میناروں پر انڈین قومی پرچم اتار کر وہاں کسان مزاحمتی تحریک کے پرچم لہرا دیئے جو کہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔

گزشتہ سال اکتوبر میں مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں زراعت کو ریگولیٹ کرنے کے  نام پر ایسے قوانین پاس کروا لیے جن کے بارے میں پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کی فصلوں کی قیمت کم ہو جائے گی جس کا فائدہ ایک طرف مڈل مین اور کارپوریٹ سیکٹر کے تجارتی گروپوں کو ہو گا اور دوسری طرف کسانوں کے لیے حکومتی تحفظ یا سبسڈی ختم ہو جائے گی۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت جب سے اقتدارمیں آئی ہے وہ طاقت کے نشے میں فیصلے زبردستی منوانے کی عادی ہو چکی تھی مگر اس نے کسان اندولن کی طاقت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا مگر اب ہرگزرتے دن کے ساتھ مودی کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

بھارت میں 85فیصد چھوٹا کسان ہے جس کا رقبہ 12ایکڑ سے کم ہے مگر اس 85 فیصد کے پاس زرعی زمین کا 47 فیصدشیئر ہے بھارت کی آبادی میں 150 ملین کسانوں کی زندگی کا دارو مدار زراعت پر ہے جو 15 کروڑ بنتے ہیں ان کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب اور ہریانہ میں ہے۔ ڈیموگرافک پہلو سے دیکھیں تو یہ سکھ اکثریت کے صوبے ہیں جہاں خالصتان تحریک کے علیحدگی پسند سکھ آج بھی موقع کی تلاش میں ہیں یہ لوگ گولڈن ٹمپل واقعہ کو بھلا نہیں پائے جب ریاستی فوجوں نے سکھوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی اور گولڈن ٹمپل کے فرش کو سکھوں کے خون سے لال کر دیا۔

مودی نے شروع میں کسان تحریک کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر لال قلعہ پر قبضے کے واقعہ کے بعد بھارت کے طاقت کے ایوانوں اور انتہا پسند ہندوؤں کے مندوروں کے آنگن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں کہ کہیں کسان تحریک کے پس منظر میں خالصتان تحریک پھر نہ بیدار ہو جائے مگر بظاہر اس کے آثار کم ہیں یہ ایک غیر سیاسی غیر منظم اور غیر ارادی تحریک تھی جو ساری رکاوٹیں توڑ کر آگے بڑھ رہی ہے البتہ کچھ بعید نہیں کہ آگے چل کر یہ خونی انقلاب اور علیحدگی کا روپ دھار لے۔

پاکستانی قوم بھارت کے فسطائی جبر اور غیر انسانی اندوہناک مظالم کے خلاف کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے مقبوضہ کشمیر مودی سرکار مقبوضہ وادی میں نفرت ۔ظلم اور جبر کی آلودگی پھیلا کر انسانی زندگی اور بقائے باہمی ماحول کو برباد کرنا چاہتی ہے۔

اس بار 5 فروری 2021 کو یوم یکجہتی کشمیر کراچی سے خیبر تک پوری قوم نے یکجاء ہوکر منایا،پاکستانی قوم نے پوری دنیا پر ایک بار پھر واضح کر دیا کہ کشمیر پاکستان کا حصہ تھا اور تاقیامت رہے گا، بھارت کا غرور جلد خاک میں مل جائے گا, ہماری افواج پوری دنیا میں اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں، ہماری امن کی خواہش قطعی طور پر کمزوری نہیں ہے،
افواج پاکستان ہر قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں، اور پوری قوم اپنی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

انشاء ﷲ مقبوضہ کشمیر بھارت کے مکروہ تسلط سے آزاد ہوگا،اور پاکستان میں طبعی اور خغرافیائی طور پر بھی جلد شامل ہو گا، کشمیریوں کا پاک خون رنگ لائے گا!

Facebook Comments

سید عمران علی شاہ
سید عمران علی شاہ نام - سید عمران علی شاہ سکونت- لیہ, پاکستان تعلیم: MBA, MA International Relations, B.Ed, M.A Special Education شعبہ-ڈویلپمنٹ سیکٹر, NGOs شاعری ,کالم نگاری، مضمون نگاری، موسیقی سے گہرا لگاؤ ہے، گذشتہ 8 سال سے، مختلف قومی و علاقائی اخبارات روزنامہ نظام اسلام آباد، روزنامہ خبریں ملتان، روزنامہ صحافت کوئٹہ،روزنامہ نوائے تھل، روزنامہ شناور ،روزنامہ لیہ ٹو ڈے اور روزنامہ معرکہ میں کالمز اور آرٹیکلز باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں، اسی طرح سے عالمی شہرت یافتہ ویبسائٹ مکالمہ ڈاٹ کام، ڈیلی اردو کالمز اور ہم سب میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان کے کالمز باقاعدگی سے شائع ہو رہے، بذات خود بھی شعبہ صحافت سے وابستگی ہے، 10 سال ہفت روزہ میری آواز (مظفر گڑھ، ملتان) سے بطور ایڈیٹر وابستہ رہے، اس وقت روزنامہ شناور لیہ کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہیں اور ہفت روزہ اعجازِ قلم لیہ کے چیف ایڈیٹر ہیں، مختلف اداروں میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر ماسٹرز کی سطح کے طلباء و طالبات کو تعلیم بھی دیتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply