سائنس معروضی کیسے ہے؟ (22)۔۔وہاراامباکر

سائنس دستیاب شواہدات کی بنیاد پر ریزننگ ہے۔ یہ انسانی پریکٹس ہے اور اس لئے اس کا انحصار تناظر پر ہے۔ یہ تناظر اس معاشرے سے آتا ہے جہاں پر سائنس کام کر رہی ہے۔ تاریخ میں اس خاص وقت سے آتا ہے۔ سائنسدان کی ذاتی نفسیات اور زندگی کی ہسٹری ہے۔ اس کا تناظر فرد کا نہیں، سوسائٹی کا ہے۔ سماجی اقدار اور ترجیحات سائنس کی پریکٹس پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ لیکن ان ترجیحات کو بھی سامنے لایا جا سکتا ہے۔ ان کا بھی تجزیہ ہو سکتا ہے، یہ بھی تبدیل یا رد ہو سکتی ہیں۔ اس کا انحصار اس پر ہے کہ سائنس فطرت کے بارے میں ہمارے علم میں اضافہ کرنے میں کتنی کامیاب ہے اور یہ سائنس کا بنیادی مشن ہے۔
مثال کے طور پر، سائنس کی تاریخ بتاتی ہے کہ یوجینکس کے منظرِ عام پر آنے میں مضبوط مشاہداتی ریزننگ نہیں تھی۔ لیکن اس پریکٹس کو اپنانے میں اس کے حامیوں کے نسل پرستی پر مبنی یقین تھے۔ کیا اس کے مسترد کئے جانے کی وجہ صرف کلچرل تھا، یعنی نسل پرستی کی جگہ نسلی مساوات کی قدر اپنا لئے جانا؟ نہیں۔ اس میں سائنسدانوں اور ناقدین پر کام کرنے والے، دونوں کا کردار تھا۔ سائنسدانوں کا فوکس معقول شواہد پر تھا۔ یعنی سائنس کو درست کرنے پر۔ جبکہ ناقدین کا کردار سائنس سے اخذ کردہ نتائج کی بنا پر بنائی گئی اقدار پر سوال کرنے کا تھا۔ یہ دکھاتا ہے کہ سائنسدانوں اور ناقدین کا اپنا اپنا کردار تھا۔ ناقدین کا کردار سائنس کو درست کرنے کے بارے میں نہیں۔ ناقدین کا یہ شعبہ یا مہارت نہیں۔ جبکہ کیا کیا جانا چاہیے؟ یہ سوال زیادہ وسیع ہے۔ اور سائنسدان اس کے ماہر نہیں۔
بیرونی دنیا میں کیا اصل ہے؟ ہاں، یہ سائنس میں راہنمائی کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسی علم کے سوشل نالج ہونے کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ ہے کہ “اکیلا سائنسدان” نامی کوئی شے نہیں۔ سائنس میں تربیت پانے والے کسی بھی سوال میں دلچسپی رکھ سکتے ہیں۔ اس کیلئے کوئی بھی دستیاب ذریعہ استعمال کر سکتے ہیں۔ لیکن جب تک وہ اپنی دریافتوں کو سائنسدانوں اور ناقدین کے بڑے گروپ سے شئیر نہیں کریں گے اور اپنا کام ریویو کے لئے پیش نہیں کریں گے، وہ سائنس نہیں کر رہے۔ یہ سائنس کا وہ پہلو ہے جو انسانوں کی کہانیاں گھڑنے کی مشہور مہارت سے محفوظ رکھتا ہے۔ ہم اپنے خیال سے موافق کہانی بنانے اور اس کہانی کی بنا پر اپنے خیال کو درست سمجھنے کے ماہر ہیں۔ صرف یہ کہ جب ہم ان کو تنقید کے لئے سب کے سامنے پیش کرتے ہیں تو تکلیف دہ انٹلکچوئل مشق شروع ہوتی ہے۔ ہم اس وجہ سے ترقی کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرد فیوژن کا خیال اس کی مثال ہے۔ اس کے مطابق بہت سستی توانائی عام درجہ حرارت پر فیوژن کی مدد سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ (نہیں، ایسا نہیں ہوتا)۔ یہ منظرِ عام پر اس لئے آیا کہ دو سائنسدانوں نے اس پر پیپر شائع کیا تھا۔ غیرمعمولی دعوے نے فوری توجہ حاصل کر لی۔ کئی لیبارٹریوں میں اس کو دہرائے جانے کی کوشش کی جانے لگی۔ کامیابی نہیں ہوئی۔ یہ سراب نکلا اور یہ سائنس سے جلد غائب ہو گیا۔ چند مداح ابھی بھی اس خیال کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ چھوٹا سا گروہ ہمیں بتاتا ہے کہ کچھ لوگ (بشمول پی ایچ ڈی سائنسدان) تمام شواہد کے برعکس بھی پوزیشن لے لیتے ہیں اور جو ان کے قائم کردہ تصور سے مطابقت نہیں رکھتا، اس کو رد کر دیتے ہیں۔ (گلوبل وارمنگ یا ایولیوشن وغیرہ کے بارے میں بھی ایسا ہی ہے)۔ لیکن یہ گروپ جتنا چھوٹا ہو گا اور یہ اپنے مفروضات اور نظریات میں جتنی زیادہ یکسانیت رکھتے ہوں گے، اتنی جلد بند گلی میں داخل ہو جائیں گے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ چند لوگ اس کاوش میں بار بار ناکام ہونے کے باوجود وقت اور ذرائع استعمال کرتے رہیں گے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسے خیالات سائنس کا حصہ نہیں رہیں گے۔
چند لوگ ہمسفر نہ بھی ہوں۔ بحیثیت مجموعی سائنس معروضی حقائق کے مطابق آگے بڑھتی رہتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سب سے زیادہ اہمیت کا حامل یہ ہے کہ جو بھی معاشرتی اثرات اور مفروضات ہوں۔ سائنسدان جتنی بھی ریشنلائزیشن کی کوشش کر لے ۔۔۔ بہرحال، ایک بیرونی دنیا موجود ہے جو ہماری امیدوں اور خواہشوں پر نہیں چلتی۔ کولڈ فیوژن کے حامیوں کا غیرمتزلزل یقین توانائی نہیں پیدا کر سکا۔ ہماری خواہش، ہماری یقین، ہماری اقدار، سماجی روایات ایک آلے کی سوئی کو حرکت نہیں دے پاتیں۔ کثافت، حرارت، کرنٹ، سماجی معاملات کی پرواہ نہیں کرتے۔ اگر “رنگ” کا تجربہ میرا اندرونی ہے تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اس کا تعلق بہرحال بیرونی دنیا سے ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسی آلات پیچیدہ ہیں اور اس کی آوٹ پٹ مفروضات اور پروسیجر کا ایک سیٹ رکھتی ہے جو خود آلے میں موجود ہوتے ہیں۔ جب گلیلیو کے ناقدین نے سوال کیا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ یقین کیا جائے کہ ان کا آلہ جو چاند پر گڑھے دکھا رہا ہے، وہ اصل ہیں تو یہ بالکل غیرمعقول نیہں تھا۔ آخر گلیلیو غیرمعمولی دعوٰی کر رہے تھے، جو اگر درست ہوتے، تو انہوں نے کاسموس کے بارے میں صدیوں پرانے قائم کردہ تصورات تہس نہس کر دینے تھے۔ اور وہ دعویٰ ایسے آلے کی مدد سے کر رہے تھے جس کو انہوں نے خود بنایا تھا اور بہت کم لوگ اس سے واقفیت رکھتے تھے۔ ان کے ناقدین کے پاس کوئی ایسی وجہ نہیں تھی کہ اس پر فٹافٹ اعتبار کر لیتے۔ بارِ ثبوت گلیلیو پر تھا کہ وہ قائل کریں کہ یہ آپٹکس کے مضبوط اصولوں کی بنا پر ہے اور اس سے حاصل ہونے والے عکس پر انحصار کیا جا سکتا ہے۔ اور نہ صرف دن میں (جو دکھانا آسان تھا) بلکہ رات کو بھی اور دور پار کے اجسام پر بھی۔
یعنی ابتدا میں گلیلیو کے دعوے پر معقول شک کرنا غلط نہیں تھا۔ کیا کہیں بصری دھوکا تو نہیں تھا؟ کیا کہیں گڑبڑ تو نہیں کر رہے تھے؟ آخر میں گلیلیو نے اس چیلنج کا سامنا کیا اور قائل کر لیا کہ ان کا آلہ واقعی کام کرتا ہے اور چاند کے گڑھے اصل ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی کسی بھی سائنسی تھیوری کے ساتھ ہے۔ ہر تھیوری ایک لحاظ سے انسانی ذہنی تعمیر ہی ہے لیکن اس کو انسان سے الگ فیچر دکھانے پڑتے ہیں اور دنیا کو دکھانے کی ایسی کوشش کرنی ہوتی ہے جو دوسرے انسانوں کو سمجھ بھی آ سکے۔ (ظاہر ہے کہ یہ کہنا کافی نہیں کہ یہ میرا دعویٰ ہے لیکن میں کسی اور کو سمجھا نہیں سکتا)۔
تھیوری اتنی ہی درست ہے جتنا یہ حقیقت کے ایک نارمل شخص جب سیب دیکھے گا تو وہ “سرخ” ہو گا جو اس کو روشنی کی خاص کنڈیشنز میں دیکھا جائے گا۔ کیونکہ تھیوری کا وجود انسانی ذہنوں سے باہر نہیں ہے۔ (اس کے مقابلے میں سیب یا فوسلز کا ہے)۔
گلیلیو کا مشہور فقرہ ہے کہ “فطرت کی کتاب ریاضی کی زبان میں لکھی گئی ہے”۔ ظاہر ہے کہ “فطرت کی کتاب” تو نہیں، صرف فطرت ہی ہے۔ کوئی بھی تھیوری جو ہم اس کے بارے میں بناتے ہیں، خواہ کسی بھی زبان میں ہو، ظاہر ہے کہ یہ انسانی کاوش ہی ہے۔ اور یقیناً دنیا کا انسانی نکتہ نظر سے اظہار ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ غلط ہے۔
ہم اس بارے پر طویل بحث ضرور کر سکتے ہیں کہ سب کو سرخ نظر آنے والا سیب واقعی سرخ ہے یا نہیں۔ لیکن سیب کی سرخی کی انفارمیشن بیرونی حقیقت کی عکاس ہے۔ ہمیں ایسی مشترک حقیقت پر اتفاق کرنا ہوتا ہے جس کے شواہد بیرونی دنیا میں ہوں۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کو ہمارے تعصبات نہیں بدل پاتے۔
یہ وجہ ہے کہ اپنی تمام کمزوریوں اور لغزشوں، اپنے تعصبات رکھنے سائنسدانوں اور نامعقول ناقدین کے باوجود سائنس بڑی حد تک آبجیکٹو طریقے سے کام کرتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply