دنیا کا سب سے بڑا قلعہ پاکستان میں ہے؟۔۔ساگر سہندڑو

دیوارِ چین جیسی دیوار بھی ہے،
لیکن اکثر لوگ بے خبر ہیں
سندھ میں موجود موہن جو دڑو، کوٹ ڈیجی کا قلعہ، رنی کوٹ اور مکلی کا قبرستان اس بات کے گواہ ہیں کہ سندھ کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن اپنے قیمتی ورثے کی حفاظت نہ کرنے کی وجہ سے سندھ اس وقت تاریخی مقامات کی تباہی کے دہانے پر ہے۔
سندھ حکومت کی جانب سے جن مقامات کی بحالی یا ان پر توجہ دی جا رہی ہے ان میں تاریخی ’رنی کوٹ‘ بھی شامل ہے، جسے کچھہ مؤرخین دنیا کا سب سے بڑا قلعہ بھی قرار دیتے ہیں۔ لیکن ستم تو یہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت اس بات سے بھی بے خبر ہے کہ سندھ میں دیوارِ چین کی طرح ہی ایک دیوار بھی موجود ہے جو رنی کوٹ کو اپنے تحفظ میں لیے ہوئے ہے۔
کراچی سے تقریباً 300 کلومیٹر کی دوری پر ضلع جامشورو کے پہاڑی صحرا میں موجود رنی کوٹ جسے ’عظیم دیوارِ سندھ ‘ بھی کہا جاتا ہے جامشورو شہر سے لگ بھگ 120 کلومیٹر نیچے چھوٹے سے شہر سن کے قریب واقع ہے ۔
رنی کوٹ کب ، کیسے اور کیوں بنا اس بحث پر محققین ابھی تک ایک رائے پر متفق نہیں ہوپائے لیکن کچھہ مؤرخین کا ماننا ہے کہ رنی کوٹ ساسانیوں کے دور کا قلعہ ہے۔ چند ماہرین اسے یونانیوں کی طرزِ تعمیر سے مشابہہ قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ رنی کوٹ قلعہ 836 ہجری میں عرب گورنر عمران بن موسیٰ نے تعمیر کروایا اور بعض کا ماننا ہے کہ قلعے کو تالپر حکمرانوں نے 1812ء میں بنوایا تھا۔
سندھ حکومت کے ماتحت سندھی ادبی بورڈ کے رسالے ’مہران‘ کے مطابق رنی کوٹ کا سب سے پہلا تذکرہ مشہور انگریز سیاح الیگزینڈر برنس نے کیا تھا جو 1831ء کو رنی کوٹ سے گزرے تھے۔ لیکن موجودہ دور میں رنی کوٹ کو دنیا میں سب سے زیادہ پذیرائی دلانے کے لیے قوم پرست سیاست کے روح رواں ’جی ایم سید‘ کا بڑا ہاتھ ہے۔
نامور محقق اور مؤرخ بدر ابڑو، ایم ایچ پنہور اور تاج صحرائی کے مطابق رنی کوٹ کی دیواروں کی لمبائی 30 فٹ اور چوڑائی 7 فٹ ہے جبکہ رنی کوٹ قلعہ 16 سے 30 کلومیٹر میں اندر پھیلا ہوا ہے۔
رنی کوٹ کی بحالی پر حکومتِ سندھ کے ساتھ مل کر کام کرنے والی تنظیم ’انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ‘ (ای ایف ٹی) کے مطابق یہ قلعہ 32 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اس کی دیواریں ساڑھے 7 کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔
کچھہ محققین کہتے ہیں کہ قلعہ برِصغیر میں مسلمانوں کی آمد سے بہت پہلے اس وقت بنا تھا جب سندھ ایران کی حدود میں شمار ہوتا تھا لیکن اس بات کے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں
محقق مسٹر اے ڈبلیو ہوزنے 1856ء میں ’سندھ گزیٹیئر‘ میں لکھا ہے کہ رنی کوٹ سندھ کے تالپر حکمرانوں نے اپنا قیمتی سامان محفوظ کرنے کی غرض سے بنوایا ہوگا۔
سندھ کے نامور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ بھی کسی حد تک مسٹر اے ڈبلیو ہوز سے اتفاق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ قلعہ تالپر حکمرانوں کے وزیر نواب محمد خان لغاری نے بنوایا تھا۔
رنی کوٹ پر تحقیق کرنے والے بدر ابڑو اپنی تحقیق میں لکھتے ہیں کہ قلعے کی تعمیر کسی ایک وقت میں مکمل نہیں ہوئی ہوگی بلکہ اس قلعے کی تعمیر ایک سے زائد حکمرانوں کے ادوار میں ہوئی ہوگی۔
محققین کے مطابق رنی کوٹ کی تعمیر میں کم سے کم 3 سے 4 ہزار مزدوروں نے کئی ماہ تک کام کیا ہوگا اور اندازے کے مطابق اس وقت قلعے کی لاگت پر 12 لاکھہ روپے خرچ کیے گئے ہوں گے جو آج کے حساب سے اربوں روپے بنتے ہیں۔
رنی کوٹ کے نام سے مشہور اس “عظیم دیوارِ سندھ” کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اس قلعے کے اندر “میری” اور “شیر گڑھ کوٹ” کے نام سے مزید 2 چھوٹے قلعے ہیں جو اس کو دنیا کے منفرد اور عظیم قلعے کی حیثیت دیتے ہیں۔
حیران کن بات یہ ہے کہ شیر گڑھ قلعہ زمین کی سطح سے کم سے کم ایک ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑ پر بنا ہوا ہے، جہاں ہر کسی کا جانا ممکن نہیں اور یوں پہاڑ پر ہونے کی وجہ سے اس قلعے پر لوگ کم جاتے ہیں۔
رنی کوٹ میں اندر موجود دوسرے ’میری کوٹ‘ کو مرکزی قلعے کی اہمیت حاصل ہے اور لوگوں کی توجہ سمیت ہر سیاح کی دلچسپی بھی اسی قلعے میں ہوتی ہے۔
اس قلعے کے گرد ہی سندھ کے محکمہءِ سیاحت و ثقافت نے گیسٹ ہاؤسز بھی بنوائے ہیں۔
اتنے بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی دیوار پر کم و بیش 18 واچ ٹاورز بھی ہیں، جن سے متعلق مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز کسی زمانے میں جنگ کی لڑائی اور حفاظت کے لیے استعمال ہوتے تھے۔
رنی کوٹ میں داخل ہونے کے لیے ویسے تو 5 دروازے ’سن گیٹ، موہن گیٹ، آمری گیٹ، شاہ بر گیٹ اور ٹوری دھوڑو گیٹ‘ ہیں، تاہم کوٹ میں داخل ہونے کے لیے زیادہ تر ‘سن گیٹ‘ کو استعمال کیا جاتا ہے، جسے قلعے کا مرکزی دروازہ بھی مانا جاتا ہے۔
قلعے کو دیکھنے کے لیے آنے والے 98 فیصد افراد بذریعہ سڑک اسی دروازے کے راستے قلعے میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ یہی دروازہ مرکزی شاہراہ سے آنے والے راستے پر موجود ہے۔
رنی کوٹ کے اندر جہاں اونچے اونچے پہاڑ اور سرسبز کھیت ہیں، وہیں قلعے کے اندر پانی کا چشمہ بھی موجود ہے، جسے سندھی زبان میں ’پرین جو تڑ‘ کہا جاتا ہے۔
س چشمے میں پہاڑوں کی بلندی سے پانی آتا ہے جو سال کے تمام دن کبھی کم تو کبھی زیادہ مقدار میں آتا ہے۔ یہ چشمہ قلعے کی ایک ایسی جگہ پر موجود ہیں، جہاں چاروں طرف 1500 سے 2000 فٹ کی بلندی کے پہاڑ موجود ہیں۔ اس چشمے کے حوالے سے بھی دلفریب داستانیں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اس چشمے کے اندر پریاں یا پھر شاہی گھرانوں کی شہزادیاں آکر نہاتی تھیں، جس وجہ سے اس کا نام ’پرین جو تڑ‘ پڑا، تاہم اس حوالے سے بھی کوئی مستند تاریخ نہیں ملتی۔
محقق عبدالجبار جونیجو لکھتے ہیں کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق دنیا کا قدیم ترین قلعہ جیریکو شہر کا تھا جو 7 ہزار قبل مسیح میں بن کر تیار ہوا جس کی دیواریں 21 فٹ لمبی اور 15 فٹ چوڑی تھیں جبکہ اس قلعے کی دیواریں 9 فٹ تک اندر زمین میں دھنسیں ہوئی تھی۔ جونیجو صاحب رنی کوٹ سمیت دیگر قلعوں کی طرزِ تعمیر اور فن کو مدِنظر رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رنی کوٹ اور دیوارِ چین بھی جیریکو شہر کے قلعے کی کڑی ہیں۔
تاریخ کے لیے اہم ترین سمجھے جانے والی کتاب ’فتح نامہ‘ کے مطابق رنی کوٹ 1812ء سے 1829ء تک بن کر تیار ہوا، جس کی تصدیق بعد میں اے ڈبلیو ہیوز نے بھی اپنی 1876ء میں چھپنے والی کتاب ’سندھ گزیٹیئر‘ میں کی۔ انگریز مؤرخ اور محقق ایچ ٹی لمبرک نے اپنی کتابوں ’سر چارلس نیپیئر اور سندھ، جان جیکب آف جیکب آباد‘ میں سندھ کی تاریخ و تہذیب کے بارے میں بہت سی اہم باتیں لکھی ہیں۔ انہوں نے بھی ان کتابوں میں رنی کوٹ کا تذکرہ کیا ہے، تاریخ کی دیگر اہم کتابوں میں بھی رنی کوٹ کا تذکرہ ملتا ہے۔
رنی کوٹ کی کوئی مستند اور ایک تاریخ نہیں ملتی۔ تاہم مؤرخین اور محقیق کے اندازوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ قلعہ کم سے کم 300 سال پرانا ہے۔
رنی کوٹ پر مستند اور صحیح تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں رنی کوٹ کو وہ مقام نہیں مل پایا جو دیوارِ چین سمیت دنیا کے دیگر قلعوں کے حصے میں آیا۔
محکمہءِ ثقافت و سیاحت کی جانب سے رنی کوٹ پر 2017ء میں پہلی بار اسسٹنٹ کیوریٹر کو تعینات کیا گیا۔ محکمہءِ نوادرات نے غیور عباس کو انچارج رنی کوٹ تعینات کرنے کے ساتھہ ہی انہیں 3 ملازمین پر مشتمل دیگر عملہ بھی دیا۔
غیور عباس نے بتایا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس تاریخی قلعے پر پاکستان بننے کے بعد صرف 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں وفاقی حکومت نے 2 بار سیمینارز یا پروگرام منعقد کروائے۔ 18ویں ترمیم کےنتیجے میں تاریخی مقامات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد سندھ حکومت نے 2014ء میں پہلی بار رنی کوٹ پر توجہ دی اور یہاں کچھہ تعمیراتی کام کا آغاز کیا۔
2017ء میں ساڑھے 5 ہزار افراد رنی کوٹ دیکھنے آئے جبکہ بہتر سہولیات کی وجہ سےاگلے سال 2018ء میں سیاحوں کی تعداد دگنی ہوگئی اور یہاں گزشتہ برس ساڑھے 12 ہزار افراد آئے۔
گیسٹ ہاؤس کا کرایہ انتہائی مناسب ہے اور وہ 12 گھنٹوں کے ایک ہزار روپے وصول کرتے ہیں، جبکہ کمرے 6 گھنٹوں کے لیے بھی کرائے پر دیے جاتے ہیں اور اس کا کرایہ محض 500 روپے لیا جاتا ہے۔ اب رنی کوٹ میں کینٹین بھی قائم کردی گئی ہے، جس سے سیاحوں کو کھانے پینے کی چیزوں کی پریشانی نہیں ہوگی، جبکہ جلد ہی یہاں ایک ہوٹل کا افتتاح بھی کیا جائے گا۔ گیسٹ ہاؤسز میں فوری طبی امداد کے لیے بھی سہولیات دستیاب ہوتی ہیں۔
اس قلعے کی سب سے منفرد بات یہ ہے کہ اس قلعے کے اندر آبادی بھی موجود ہے۔ اس قلعے کے اندر ’گبول‘ قبیلے کے افراد بسے ہوئے ہیں، جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پچھلی 7 نسلوں سے یہاں آباد ہیں اور انہیں اپنے آباؤ اجداد بتا کر گئے تھے کہ رنی کوٹ 2 ہزار سال پرانا ہے۔ قلعے میں رہنے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ گزشتہ 7 نسلوں سے اس قلعے کی زمین ان کی ملکیت رہی ہے اور ان کے پاس ان کے دستاویزات بھی موجود ہیں۔
نوجوان کے مطابق وہ صرف قلعے کے اندر زرِخیز زمین اور اس جگہ کے مالک ہیں، جہاں ان کے گھر بنے ہوئے ہیں، باقی قلعے کی دیواریں، پہاڑیاں اور قلعے کے اندر موجود مزید 2 قلعے کس کی ملکیت ہے انہیں اس کا علم نہیں۔ ان کے مطابق مجموعی طور پر قلعے میں ان کے 40 گھر آباد ہیں جو 30 کلومیٹر کے رقبے کے اندر پھیلے ہوئے ہیں۔ انہیں یاد نہیں کہ کبھی ان کے ہاں پانی کا مسئلہ ہوا ہو، انہیں سردیوں یا گرمیوں میں ہمیشہ پہاڑوں کے دامن سے آنے والا صاف پانی میسر ہوتا ہے، البتہ کچھہ وقت کے لیے اس کی مقدار کم ضرور ہوجاتی ہے۔ یہ معلوم نہیں پانی کہاں سے آتا ہے، تاہم ان کی زندگی اس پانی کی وجہ سے ہی بہتر گزر رہی ہے، کیونکہ جہاں وہ اس پانی کو پینے اور کھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہیں اس پانی سے فصل بھی اگاتے ہیں۔ پہاڑوں سے نکلنے والا پانی استعمال کرنے سے ان کے گاؤں میں کبھی کوئی موذی مرض نہیں پھیلا ۔
بشکریہ: ڈان نیوز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply