یہ کس کا لہو یہ کون مَرا۔۔عامرعثمان عادل

شہر اقتدار میں رات ایک اور حادثہ ہوا ۔ طاقت دولت اور حیثیت کے نشے میں چور رئیس زادے نے 4 معصوم نوجوانوں کی جان لے لی
قصہ کچھ یوں ہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر G11 میں رات گئے بڑی گاڑیوں کا پروٹوکول زدہ ایک قافلہ گذرا
مبینہ طور پر یہ پروٹوکول وفاقی محتسب برائے خواتین کشمالہ طارق کا تھا جو حال ہی میں ایک ارب پتی بزنس مین اور معروف ہوٹلز چین Best Western کے مالک کے عقد ثانی میں آئیں اور حسب معمول میڈیا نے نوبیاہتا جوڑے کے نکاح کی تصاویر کو خوب گلیمرائز کیا اسی طرح نیب کی تحویل میں آئے سابق وزیر خواجہ آصف کی جانب سے کشمالہ طارق کے اکاونٹ میں کروڑوں روپے منتقل کئے جانے کی خبریں بھی گرم رہیں
گذشتہ رات کے واقعے میں عینی شاہدین کے مطابق اس قافلے میں شامل ایک گاڑی نے بند سگنل کو توڑا اور سامنے ایک کار اور موٹر سائیکل سوار سمیت متعدد گاڑیوں کو روندتی چلی گئی اس گاڑی کو کشمالہ طارق کا بیٹا ڈرائیو کر رہا تھا

Advertisements
julia rana solicitors london

موقع پر کچھ لوگ اور میڈیا سے وابستہ افراد نے ویڈیو کلپ بنائے اور چیخ پکار کر کے بمشکل ایک شخص کو قابو کیا جو کہ کشمالہ طارق کا خاوند تھا ذرائع کے مطابق یہ دھت تھا جسے حراست میں لے لیا گیا
کشمالہ کا بیٹا موقع سے گاڑی بھگا لے گیا لیکن اس کے ائیر بیگ کھل گئے اور مکمل کمپییوٹرائزڈ ہونے کے باعث یہ گاڑی تھوڑی دور جا کے لاک ہو گئی
پروٹوکول کی بھینٹ چڑھنے والوں میں سے 4 نوجوان جاں بحق ہو گئے جبکہ متعدد افراد شدید زخمی ہیں
اس المناک واقعے کا درد ناک پہلو ملاحظہ کیجئے
جاں بحق ہونے والے چاروں جوان دوست تھے جو نوکری کی تلاش میں کے پی کے سے اسلام آباد پہنچے جنہیں ANF میں بھرتی کے لیے ٹیسٹ میں شامل ہونا تھا لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ وہ ایک ساتھ ہی راہی ملک عدم ہو جائیں گے اور امیر زادوں کا شوق انہیں نگل لے گا
کیا کیا خواب اپنی پلکوں پہ سجائے یہ شہر اقتدار میں آئے تھے نوکری تو درکنار یہ تو زندہ سلامت گھر بھی نہ پہنچے کوئی اندازہ کر سکتا ہے ان چار گھرانوں پہ کیا قیامت ٹوٹ گئی ہو گی جب ان کے راج دلاروں کے تابوت ان کے آنگن اترے ہوں گے
سنا ہے وزیراعظم نے اس واقعہ کا بھی نوٹس لے لیا اور وزراء سے اضافی پروٹوکول واپس لینے کی ہدایت جاری کر دی
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
کیا وزیر اعظم کو خبر نہیں کہ کیسا شاہانہ پروٹوکول ہوتا ہے
خود تو ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے سڑکوں پہ نکلنے سے گریز کرتے ہیں کہ پروٹوکول کے لئے روٹس لگنے سے عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے تو پھر یہ دوھرا معیار کیوں
تبدیلی کا دعوی تھا تو زمام اقتدار سنبھالتے ہی حکم نامہ کیوں جاری نہ کیا کہ میرا کوئی وزیر پروٹوکول نہیں لے گا
پیارے پڑھنے والو
یہ پہلا واقعہ ہے نہ آخری
عوام کیڑے مکوڑوں کی مانند ہیں جن کے مقدر میں کچل دیا جانا یا کوئ ریمنڈ ڈیوس روند ڈالے یا کسی کشمالہ کا بیٹا
ہماری حیثیت اشرافیہ کے نزدیک محض خس و خاشاک کی سی ہے
اب ہونا کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں
قانون عدل انصاف سب پانی بھرے گا منصب و دولت کے آگے
باندی بن کر چاکری کرے گا
پھر ان چار غریب زادووں کے لہو کی قیمت لگے گی
کسی خون بہا کی صورت یا دیت کے روپ میں
اور پھر عدل اپنی آنکھیں موند لے گا
بالکل اسی طرح جیسے کوئٹہ میں ڈیوٹی پر کھڑے باوردی پولیس والے کے با اثر قاتل کو باعزت بری کر دیا گیا
آخر یہ حشرات الارض کی مانند حقیر سے عوام ان باعزت لوگوں کے راستے میں آتے ہی کیوں ہیں ؟
ایک قانون ہونا چاہئے کہ یہ چھوٹی گاڑیاں موٹر سائیکل اشرافیہ کی سڑکوں پہ آ کر ان کے سفر اور پروٹوکول کا مزا کرکرا نہ کریں۔

Facebook Comments

عامر عثمان عادل
عامر عثمان عادل ،کھاریاں سے سابق ایم پی اے رہ چکے ہیں تین پشتوں سے درس و تدریس سے وابستہ ہیں لکھنے پڑھنے سے خاص شغف ہے استاد کالم نگار تجزیہ کار اینکر پرسن سوشل ایکٹوسٹ رائٹرز کلب کھاریاں کے صدر