گِلہ۔۔علی انوار بنگڑ

کرہ ارض پر بولی جانے والی ساری زبانیں ہی نرالی اور خوبصورت ہیں. ہر زبان کی ایک منفرد حیثیت ہوتی ہے. لیکن تقابلی موازنہ کرتے ہوئے ایک زبان کو دوسرے سے کمتر کہنا یہ سراسر غلط روش ہے. اپنی زبان اور ثقافت سے محبت بہت اچھی بات ہے، لیکن اس کی بنیاد پر دوسری زبانوں یا ان سے جڑے لوگوں کی ثقافت کو برا بھلا کہنا اخلاقی پستی ہے. اپنی زبان اور ثقافت سے محبت ثابت کرنے کے لیے دوسری زبانوں اور ثقافتوں کو برا بھلا کہناضروری نہیں ہے.مجھے یہاں کے اکثریت قوم پرستوں سے بڑا گلہ ہے جو اپنی قوم، زبان اور ثقافت کو اونچا دکھانے میں دوسری قوموں کی تذلیل کرنے لگ جاتے ہیں. ان کے دماغ میں یہ فتور پتہ نہیں کس نے بھر دیا ہے، کہ کوئی تب تک اپنی قوم کا خیر خواہ نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے مدمقابل دوسری قوموں کی تذلیل نہ کرلیں.

اس کے علاوہ ہماری ذہنیت نجانے کیوں ایسی بن گئی ہے جو ہم لوگوں کی قابلیت کو کچھ خاص زبانوں میں مہارت سے ماپنے لگ گئے ہیں. ہم انگریزی کے مقابلے اردو کارونا تو رو لیتے ہیں لیکن جب کوئی ایسا بندہ جو اردو اپنے علاقائی لہجے میں بولتا ہے یا اردو مادری زبان نہ ہونے کی وجہ سے اسے اردو بولتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے. تب ہمارا رویہ منافقانہ کیوں ہوجاتا ہے. زبان تو زبان رہ گئی پر ایک خاص انداز میں مختلف پلیٹ فارمز سے ماضی میں دوسری ثقافتوں کی تذلیل بھی کی جاتی رہی ہے اور زور شور سے آج بھی جاری ہے. جیسے پاکستان کی ڈرامہ انڈسٹری اٹھا کر دیکھ لے کسی کو گوار، اجڈ دکھانا ہو تو اسے پنجابی دیہاتی کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے، بینکوں اور دفاتر کے چوکیدار کو پختون روپ میں پیش کیا جاتا ہے اور اگر چور، ڈاکو دکھانا ہو تو سندھی یا بلوچی بنا دیا جاتا ہے. آخر یہ منافقت علاقائی ثقافتوں اور زبانوں کے بارے کیوں اپنائی ہوئی ہے؟ یہ بولیاں اور ان سے جڑی ثقافتیں ہمارا ورثہ ہیں. ہمارے عدم توجہ اور منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے بہت سی زبانیں اور روایات تو اب معدوم ہوچکی ہے اور باقی کھڈے لائن لگی ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

پنجاب باسی ہونے کے ناطے مجھے یہاں کے باسیوں سے بڑا گلہ ہے جو آپس میں، اپنے گھر والوں کے ساتھ اور ہائی فائی سوسائٹیز میں اپنی زبان بولنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں. میرا یہ ماننا ہے کہ زبان کے اختیار کرنے میں ہر بندے کو آزادی ہونی چاہیے لیکن اس کی بنیاد پر مادری زبان کو کمتر سمجھنا یہ زیادتی ہے. ہم نے اپنا رنگ ڈھنگ بدل کر اپنی شناخت تو کھو دی ہے لیکن اب نئی شناخت کی خاطر اپنی جڑوں سے ہی نفرت کرنے لگے ہیں. اگر ہم علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کو بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس مائنڈ سیٹ سے نکلنا ہوگا. بے شک اپنی نسل کو دوسری زبانیں سکھاؤجو کہ وقت کی اہم ضرورت بھی ہے، لیکن اس بنیاد پران کے دل و دماغ میں اپنی رہتل کے متعلق نفرت کے بیج مت بوۓ.

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply