ہمارے سرکاری ہسپتال۔۔بشریٰ نواز

صحت اللہ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے اور اس نعمت کا جتنا بھی شکر ادا کیاجائے کم ہے بلاشبہ صحت کا کوئی نعم البدل نہیں قوموں کی ترقی اور سرمایہ انسانی کا تعین کرنے میں صحت کا ایک اہم رول ہے صحت مند قوم نا صرف کارگردگی اور افرادی قوت کو بہتر بناتی ہے بلکہ ملک کی ترقی میں بھی بہتر کردار ادا کرتی ہے
ایک عظیم مفکر کا کہنا ہے صحت مند شہری کسی بھی ملک کا عظیم اثاثہ ہوتے ہیں اسی اثاثے کو محفوظ رکھنے کے لیے دنیا کے بیشتر ممالک اپنے G.D.P کازیادہ حصہ اپنی عوام پر خرچ کرتے ہیں پاکستان میں جو پیسہ صحت کے شعبے پر خرچ ہوتا ہے وہ آبادی کے لحاظ سے بہت کم ہے اور اسی وجہ سے ملک میں صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے دنیا کے ہر ملک میں صحت کے ہر شعبے کو خاص اہمیت دی جاتی ہے بہترین ڈاکٹر ‘ مفت یا سستی دوا فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جہاں صحت کا شعبہ گورنمنٹ کی لاپروائی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے اور اس شعبے کی لاپروائی کی ایک بڑی وجہ آئے دن ڈاکٹروں کی ہڑتال ہے وہ بھی اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے اور ہڑتالیں کرتے ہیں ہر نئی آنے والی حکومت صحت کے شعبے کے حوالے سے بہت بلند دعوے تو ضرور کرتی ہے مگر عمل نہیں کر پاتی کچھ عرصہ پہلے صحت کا شعبہ صوبوں کے ماتحت کر دیا گیا تا کہ عوام کو صحت کی سہولیات ْآسانی سے فراہم کی جا سکیں مگر کچھ بھی تبدیل نہیں ہو سکا سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کا برا حال رہتا ہےکچھ سرکاری ہسپتالوں کی یہ حالت ہے کہ لیبارٹری میں مشینری موجود نہیں اگر ہے بھی تو ناقابل استعمال ہے لیبارٹری کی رپورٹس ناقابل اعتبار ہوتی ہیں اکثر ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں ہوتے بے پناہ رش کی وجہ سے کتنے ہی مریضوں کی باری نہیں آپاتی مریضوں کے لحاظ سے ڈاکٹر بہت کم ہیں اور اگر کسی کو آپریشن کروانا ہو تو مریض کو سات آٹھ مہینے کے بعد کی تاریخ ملتی ہے اس دوران مریض چاہے مر جائے ہسپتال والوں کی بلا سے ان سرکاری ہسپتالوں میں بیڈز کی شدید کمی ہے ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض زیر علاج ہوتے ہیں اور کچھ راہداریوں میں بے یارومددگار پڑے نظر آتے ہیں جو وارڈز ہیں انکی صفائی کا بھی خاص خیال نہیں
بلیاں اور چوہے وارڈز میں دوڑتے بھاگتے نظر آتے ہیں اور باتھ رومز کا تو حال۔ ہی قابل بیا ن نہیں سٹاف کی کمی کی وجہ سے ایک نرس دو دو وارڈز سنبھال رہی ہوتی ہے او ر اسی وجہ سے اکٹر نرسز چڑچڑے پن کی شکار ہوئی نظر آتی ہیں یہی وجہ ہے کہ دیگر شعبوں کی طرح صحت کا شعبہ بھی کمرشلائیز ہو رہا ہے جس کے وجہ سے پرائیوٹ ہسپتال کلینکس اور لیبارٹریاں وجود میں آ رہی ہیں یہ ایک منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہےحکومت کو چاہیے کہ صحت کے شعبے پر توجہ دے تاکہ عوام کو طبعی سہولیات فراہم کی جائیں مزید میڈیکل کالج کھولے جائیں تاکہ ملک میں ڈاکٹروں کی کمی پوری ہو سکے کچھ ڈاکٹر ڈاکٹر بنتے ہی بیرون ملک کو روانہ ہو جاتے ہیں اور کچھ سرکاری ہسپتالوں میں بیٹھنے والے ڈاکٹر شام کو اپنے پرائیوٹ کلینیک چلاتے ہیں جہاں وہ مریضوں سے لاکھوں روپیہ لوٹتے ہیں اس کےباوجود وہ آئے روز سڑکوں پر احتجاج کرتے نظر آتے ہیں ان ڈاکٹروں نے اپنے ہر جائز ناجائز مطالبات کا حل صرف احتجاج میں ڈھونڈ لیا ہے جس دن یہ ہڑتال کرتے ہیں اس دن کتنے ہی مریض اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کاش اس شعبے میں درد مند انسان آجائیں اور یہ شعبہ ایک مثالی شعبہ بن جائے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply