شرائط اور رشتے۔۔شاہد محمود

رشتے کروانے کا میرا تجربہ یہ کہتا ہے کہ شرائط پر رشتے نہیں ہوتے۔
نیک نیت کا پھل ملتا ہے۔۔

کوئی بیٹی کوئی جاب یا بزنس کرے یا نہ کرے یہ اس کی آزاد مرضی ہونی چاہیے، لیکن اگر کوئی مرد عورت کی آمدن پر نظر رکھ کر رشتے کی خواہش کرتا ہے تو اس رشتے سے احتراز بہتر ہے۔ اگر کوئی خاتون مرد کے بیرون ملک ہونے کو ہی معیار گردانتی ہے یا ایسی ہی کسی دوسری وجہ کو تو اس سے  بھی احتراز بہتر ہے۔

ہم پلہ رشتہ ضرور تلاش کیجیے لیکن صرف ماں باپ کی نہیں ،رشتے کے امیدوار کی صلاحیتوں پر بھی نظر رکھیے۔

لڑکیاں بھی یہ بات ملحوظ خاطر رکھیں کہ تیس (30)، بتیس (32) سال عمر تک کے جو لڑکے عملی زندگی (ملازمت / کاروبار) شروع کر چکے ہیں وہ اللہ کے فضل سے کل کو الگ گھر بھی بنا لیں گے لیکن شروع میں عام طور پر والدین کے گھر پر ہی شادی ہوتی ہے۔

لڑکے یہ بات ملحوظ خاطر رکھیں کہ جو لڑکی حور پری نظر آ رہی ہوتی ہے وہ اپنے ماں باپ کے خرچے پر نظر آتی ہے ،اگر شادی کے بعد آپ اس کو خرچہ نہیں دیں گے تو وہ حور پری کہیں کھو جائے گی، آپ کی لاپرواہی کی وجہ سے حور پری اپنے آپ کو maintain نہیں رکھ پائے گی- شادی کے بعد بیوی کی مکمل ذمہ داری شوہر کی ہے- اگر آپ کو سات پردوں میں رہنے والی بیوی چاہیے تو اسی طبعیت و تربیت کی لڑکی کے لئے رشتہ بھیجیں ،نہ کہ کسی ماڈرن طبع لڑکی سے شادی کر کے  اُس سے اِس بات کی امید رکھیں۔

لڑکی والے بھی لڑکے کا رحجان دیکھ لیں کہ اگر وہ آکاس بیل Parasite طبع / رحجان رکھتے ہیں تو بالکل رشتہ نہ کریں۔ اور اگر والدین بچوں کی پُرسکون، خوشیوں اور خوشحالی والی بابرکت زندگی چاہتے ہیں تو انہیں شادی سے پہلے قرآن حکیم کی ترجمے کے ساتھ تعلیم بھی لازمی دیں تا کہ وہ میاں بیوی اور بعدازاں ماں باپ کے طور پر حدود اللہ کا خیال رکھ سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جزاک اللہ خیرا کثیرا۔

Facebook Comments

شاہد محمود
میرج اینڈ لیگل کنسلٹنٹ ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply