فلسفہ اور سائنس (15)۔۔وہاراامباکر

انسانی فکر میں فلسفہ اہم اوزار ہے۔ لیکن کئی بار اسے شک کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سائنسدانوں میں سے کئی ایسے ہیں جو اسے وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ایک نوبل انعام یافتہ فزسسٹ نے ایک پورا مضمون “فلسفے کے خلاف” کے عنوان سے لکھا جس میں ان کا آرگومنٹ تھا کہ نہ صرف فلسفہ بے کار ہے بلکہ نقصان دہ بھی۔ اور یہ سائنس کی ترقی میں رکاوٹ ہے۔
یہ تو غالباً درست نہیں کہ سائنس کو فلسفے نے کبھی سست کیا ہے۔ سائنسی تحقیق اور سائنسدانوں کے کام پر فلسفے کا کچھ خاص اثر ہی نہیں۔ تو اس میں یہ صلاحیت نہیں ہے۔
اس کے بالکل مخالف سمت میں طرف ڈینیل ڈینیٹ اپنی کتاب “ڈارون کا خطرناک خیال” میں لکھتے ہیں کہ “بغیر فلسفے کے سائنس نہیں۔ صرف ایسا ہو سکتا ہے کہ سائنسدان کو پتا نہ ہو کہ وہ کونسا فلسفہ استعمال کر رہا ہے”۔ سائنسدان ایسے فقرے پر بھنائیں گے۔ لیکن کسی حد تک یہ درست ہے۔ مثال کے طور، پر سائنس کا ایک مفروضہ نیچرل ازم ہے جو فلسفے کی ایک پوزیشن ہے۔ (اس کا مطلب یہ کہ نیچرل فینامینا کی وجوہات نیچرل ہوں گی)۔ اہم چیز یہ جاننا ہے کہ نیچرل ازم کو خود ایمپریکلی طور پر ویری فائی نہیں کیا جا سکتا اور اپنی تعریف کے لحاظ سے یہ پوزیشن خود سائنس کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوبل انعام یافتہ فزسسٹ کے مضمون کو ہم مغرور انٹلکچویل پوزیشن کہہ سکتے ہیں اور ایسی چیزوں نے سائنس کو فائدہ نہیں دیا۔ لیکن چونکہ ہمیں اس طرح کی سادہ لڑائیوں میں دلچسپی نہیں، تو ہم انہیں چھوڑ کر سائنس اور فلسفے کا تعلق دیکھتے ہیں۔
سائنس کے فلسفے میں انکوائری کے تین علاقے ہیں۔ سائنس کی نیچر۔ اس کے تصورات اور طریقے کا تجزیہ اور سائنسی سٹڈیز۔
زیادہ تر سائنسدان سائنس کے فلسفے سے واقف نہیں۔ سائنس کے بارے میں کارل پوپر یا تھامس کوہن کا نام کبھی کسی سائنس کی کتاب میں آ جاتا ہے۔ سائنس کے فلسفے میں پوپر کے کام سے ہم آگے بڑھ چکے ہیں کیونکہ عملی طور پر سائنس ایسے ہوتی نہیں ہے۔
اس کو دکھانے کی مثال کے طور پر، کوپرنیکس کی اصل تھیوری ڈیٹا کے ساتھ اچھی مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ ایسا نہیں کیا گیا کہ اس کو اس بنا پر مسترد کر دیا گیا۔ یہ ایک نیا نکتہ نظر تھا اور ڈویلپ کیا گیا۔ گلیلیو، کیپلر اور نیوٹن نے تھیوری اور ڈیٹا کی کوالٹی کو بہتر کیا۔ اور اب ہم کاپرنیکس کے انقلاب کی کامیابی کا ذکر کرتے ہیں۔
انکوائری کا دوسرا علاقہ یہ جاننے سے ہے کہ سائنسدان کرتے کیا ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈیوڈ ہیوم کازیلیٹی کے تصور پر کام اس بارے تھا۔
تیسرا علاقہ سائنس سٹڈیز کا ہے۔ اس میں سائنس اور معاشرے کے پیچیدہ تعلق پر بات ہوتی ہے جس سے ہم سب کا تعلق ہے۔ مثال کے طور پر جینیاتی ادویات کے استعمال کے بارے میں رائے۔ یا پھر سائنسدانوں کی تحقیق سے حاصل کردہ نتائج کے معنی کیا ہیں، پبلک میں کیسے سمجھے جائیں گے اور ان کو استعمال کر کے سوشل پالیسیوں میں کیا راہنمائی لی جا سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدان اس پر کیا کریں؟ وہ پہلے علاقے کو تو بالکل چھوڑ سکتے ہیں۔ سائنسدانوں کا کام سائنس کرنا ہے نہ کہ یہ سوچنا کہ کرتے کیسے ہیں۔ لیکن اگر سائنس کے بارے میں کتاب لکھنی ہو یا سائنس کی نیچر کے بارے میں پڑھانا ہو تو اس سے راہنمائی لے لینی چاہیے۔
لیکن اہم یہ کہ (اور بدقسمتی سے یہ کہنا پڑتا ہے) کہ فلسفیوں کو یہ حق ہے کہ وہ جس بھی موضوع اور سائنس کی نیچر پر انکوائری کریں۔ انہیں کسی کو دفاع کرنے کی ضرورت نہیں کہ ان کے کام کا “فائدہ” کیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پر فلسفے اور سائنس کی درمیانی حد ماند پڑ جاتی ہے۔ تھیوریٹیکل سائنسز میں کئی بار یہ پہنچاننا مشکل ہوتا ہے کہ یہ پیپر فلسفی کا ہے یا سائنسدان کا۔
کئی سائنسز میں فلسفے کا براہِ راست استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً انواع کا تصور کیا ہے؟ جاندار ایکولوجی کے کونے کیسے بناتے ہیں۔
اسی طرح سوالات کی تفتیش میں فلسفے کا اپنا ایک طریقہ کار ہے۔ اس کی ایک مثال کیلئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرض کیجئے کہ ایک آپریشن کے دوران ایک شخص نے کہا کہ اسے لگا تھا کہ وہ اپنے جسم سے باہر نکل کر اپنا آپریشن ہوتا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تجزیے کی کلاسیکل سائنسی اپروچ یہ ہو گی کہ یہ طے کیا جائے کہ مریض کی حالت کیسی تھی۔ آپریشن روم کی تفصیلات کیا تھیں۔ کیا وہ ڈاکٹر کو سن پا رہا تھا؟ کیا کوئی واقعہ یاد ہے؟ اس سب ڈیٹا کو اکٹھا کر کے سائنسدان متبادل توجیہہ بتائے گا۔ مثلاً، یہ بے ہوشی کی دوا کا سائیڈ ایفیکٹ تھا۔
فلسفی کی اپروچ ایک اور رخ سے ہو گی۔ پسِ منظر کے مفروضات کیا تھے؟ دعوے میں اندرونی ربط کتنا تھا؟ مثال کے طور پر، سوال کیا جا سکتا ہے، “دیکھنے کا کیا مطلب ہے اگر آپ باہر سے دیکھیں؟ دیکھنا جسم کا ایک پیچیدہ فنکشن ہے جس کا تعلق صرف آنکھوں سے نہیں بلکہ دماغ کا کنکشن بھی درکار ہے تا کہ وہ روشنی کے سگنل سے معنی اخذ کرے۔ اگر مریض جسم سے باہر تھا تو بصارت کام کیسے کرے گی؟ اور ہماری روزمرہ کی بصارت تو ایک زاویے تک ہوتی ہے کیونکہ جسم میں آنکھ ایک خاص مقام پر ہے۔ کیا جسم سے نکل کر ہونے والا نظارہ 360 درجے کا تھا؟”۔
اس انوسٹیگشن سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ تجربہ نفسیاتی تھا، نہ کہ فزیکل۔ جیسے خواب ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کی تفصیلات میں ربط نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفہ سائنسی سوالات کے جواب نہیں دے سکتا۔ (جیسا کہ نوبل انعام یافتہ فزسسٹ نے اس سے تقاضا کیا تھا)۔ اور ظاہر ہے کہ دینا بھی نہیں چاہیے۔ یہ والا کام کرنے کیلئے ہمارے پاس ایک اور طریقہ ہے۔ اس کو ہم سائنس سائنس ہے۔ فلسفہ نہ ہی بائیولوجی بن جائے گا اور نہ ہی کیمسٹری (جیسا کہ ایک مشہور سوشیو بائیولوجسٹ نے تجویز کیا تھا)۔
دونوں کے الگ علاقے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں اور فلسفیوں نے لئے اکٹھے چلنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ اس کی کئی پیچیدہ وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک دوسرے کے فیلڈ سے ناواقفیت بھی ہے۔ دوسرا انٹلکچوئل تکبر۔ جیسا کہ فقرہ کہا جاتا ہے کہ فلسفہ صرف کرسی پر بیٹھ کر قیاس آرائیاں کرنے کا نام ہے (کمپیوٹر ماڈلنگ، ریاضیاتی بائیولوجی یا انجنیرنگ کے کئی کام بھی ایسے ہی کئے جاتے ہیں)۔
لیکن دوسری طرف، فلسفے کی اپنی ساکھ کو بیسویں صدی کے آخر کے چند فلسفیوں نے نقصان پہنچایا ہے۔ ان میں سے ایک پال فیرابینڈ ہیں جن کے مطابق میں جادو اور سائنس ایک ہی سطح پر ہیں۔ یا پوسٹ ماڈرن فلسفی جن کے خیال میں “ کوئی معروضیت نہیں، کوئی اچھائی نہیں،کوئی ماہر نہیں، کوئی سچ نہیں، سب کچھ اضافی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفہ اور سائنس دونوں ہی انسانی علم کے اور دنیا کو جاننے کے لئے اوزار ہیں۔ “بہت ہی زیادہ سائنسدان” اور “بہت ہی زیادہ فلسفی” ایک دوسرے کے بارے میں جو بھی رائے رکھیں، کیا اس سے فرق پڑتا ہے؟
ہاں، کیونکہ ایسا رویہ انسانی علمی ڈسکورس میں رکاوٹ بنتا ہے۔ ایسا کرنے کی چند انتہا کی مثالیں ایسی ہیں جن کی نشاندہی کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply