• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • صحافتی اخلاقیات احادیث  مبارکہ  کے تناظرمیں۔۔ڈاکٹر محمد عادل

صحافتی اخلاقیات احادیث  مبارکہ  کے تناظرمیں۔۔ڈاکٹر محمد عادل

تعارف

صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے ، جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں صحافت حکومت و عوام کے درمیان  رابطہ کا آسان ذریعہ بن چکا ہے۔ عوام کی آواز میڈیا ہی کے ذریعے طاقت کے ایوانوں میں پہنچتی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ جہاں صحافت اور اس سے وابستہ افراد آزادی کے ساتھ کام کرتے ہیں ،ان معاشروں میں عوام  نسبتاً بہتر زندگی گزارتے ہیں  ۔اس کے مقابلے میں جہاں صحافت پابندیوں کا شکار  ہوتی ہے ،وہاں عوام گٹھن سے دو چار ہوتے ہیں ۔   عصر حاضر میں  صحافت ہی ملک قوم کے عمومی مزاج و ذہنیت کی عکاس ہوتی ہے اور صحافت سے وابستہ افراد   ہی ذہن سازی  کی ذمہ داری نبھاتے ہیں، لہٰذا اگر میڈیا  صحافتی و اخلاقی اصولوں پر کار بند رہتا ہے ،تو حکومتی و عوامی سطح پر بہتری کی جانب سفر جاری رہتا ہے اور اگر اس کے برعکس معاملہ ہو ،تومعاشرہ مجموعی طور پر زوال کی جانب جاتا ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں  صحافت  روز بروز اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹتی نظر آرہی ہے جس کا  منفی اثر معاشرہ پر بھی پڑ رہا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے کہ   زندگی کے دیگر شعبہ جات کی طرح صحافت   کے متعلق بھی اسلامی احکامات پر عمل کریں ۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ صحافت کے متعلق احکامات کو جمع کیا جائے ۔ اسی ضرورت کو مدنظر رکھ اس آرٹیکل میں  ایسے احادیث کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،جن سے صحافت کے شعبہ میں رہنمائی ملتی ہے۔

ابتداء میں صحافت کی تعریف پیش کی جاتی ہے، مولانا امداد صابری نے صحافت کی تعریف کچھ یوں بیان کی ہے:

 ‘‘صحافت کالفظ صحیفہ سے نکلاہے۔صحیفہ کے لغوی معنی ہیں  کتاب یارسالہ۔ بہرحال عملاً صحیفہ سے مرادایساموادہے جومقررہ وقفوں کے بعدشائع ہوتاہے۔چنانچہ تمام اخباراوررسالےصحیفے ہیں۔جولوگ ان کی ترتیب وتحسین اورتحریرسے وابستہ ہیں انہیں صحافی کہاجاتاہے اوران کے پیشے کوصحافت کانام دیاگیاہے۔صحافت کامترادف انگریزی لفظ جرنلزم (Journalism)ہےجو (جرنل)سے بنایاگیاہے۔جرنل کے لغوی معنی ہیں روزانہ حساب کا بہی کھاتایعنی روزنامچہ۔جرنل کوترتیب دینے والوں کے لیے جرنلسٹ کالفظ بنااوراس پیشے کوجرنلزم کانام دیاگیا۔[1]’’

صحافت اصولوں سے متعلق احادیث مبارکہ

1:        خبروں کو تحقیق وتصدیق  کے بعد نشر کرنا                                 

صحافتی اخلاقیات کا بنیادی اصول یہی  ہے کہ خبر کو تحقیق کے بعد نشر کیا جائے، بغیر تحقیق خبر  دینا ایک قانونی جرم ہے۔ شرعی طور پر بھی  ایسی بات کرنے سے منع کیا گیا ہے ،جس کی پوری تحقیق نہ ہو ، ارشاد نبوی ﷺ ہے:

إياي والمكايلة يعني: في الكلام[2]

ترجمہ:گفتگو کے دوران قیاس آرائی سے بچو۔

ایک صحافی میں تحقیق کی لگن ہونی چاہیے اور خبر کی کھوج  و کُرید کی راہ میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی ہوناچاہیے۔اگر  یہ صفات نہ  ہو تو پھر وہ  کبھی  بھی حقیقی صحافی نہیں بن سکتا، ایک حدیث مبارک  سے علم وخبر پھیلانے والے کو یہی مشورہ دینے کا کہاگیا ہے:

            قل لصاحب العلم يتخذ عصا من حديد ونعلين من حديد ويطلب العلم حتى تنكسر العصا وتنخرق النعلان[3]

ترجمہ:علم حاصل کرنے والے سے کہہ دو کہ لوہے کی لاٹھی اور جوتے بنوالے اور علم کی تلاش میں لگا رہے جب تک کہ لاٹھی ٹوٹ نہ جائے اور جوتوں میں چھیدنہ  ہوجائے۔

2:         افواہ  اور سنی سنائی بات کو پھیلانے سے گریز کرنا:

صحافت کا اصل مقصد عوام تک صحیح خبر پہنچانا ہوتا ہے، اگر کوئی محض سسنی پھیلانے اور ریٹنگ بڑھانے  کی غرض ہر رطب ویابس نشر کرے، تو صحافت کا اصل مقصد فوت ہوجاتا ہے۔  رسول اللہ ﷺ نے  سنی سنائی بات پھیلانے والے کو جھوٹا کہا ہے:

کفی بالمرء کذبا ان یحدث بکل ما سمع[4]

ترجمہ:کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کرے۔

بلکہ ایک  حدیث مبارک میں تو سنی سنائی کو  خبر ہی تسلیم نہیں کیا گیا بلکہ  آنکھوں دیکھے پر ہی  یقین کرنے کا حکم دیا گیا:

ليس الخبر كالمعاينة[5]

ترجمہ:خبر(سنا ہوا) ، آنکھو ں دیکھے کی طرح نہیں ہوتا۔

3:         جھوٹی خبر پھیلانےسے مکمل اجتناب  کرنا

صحافی کسی کا دوست یا دشمن نہیں ہوتا بلکہ اس کا کام محض کھوج لگا کر خبر دینا ہوتا ہے، اگر کوئی ذاتی یا ادارہ جاتی مفاد کے لئے کوئی جھوٹی خبر گھڑتا ہے تو گویا وہ صحافت کا خون کرتا ہے، ایک حدیث مبارک میں مہلک ترین گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أَلَا وَقَولُ الزُورِ وَشَهَادَةُ الزُورِ[6]

ترجمہ: سن لو جھوٹ بولنا ،جھوٹی گواہی دینا۔

ایک حدیث مبارک میں  ایک شخص کا تذکرہ کیا گیا کہ بطور عذاب اس کا  جبڑا ، ناک اور آنکھ گدی تک چیرے جارہے تھے اور  اس کا  یہ عذاب  جھوٹی خبر پھیلانے کی وجہ سے تھا:

فإنه الرجل یغدو من بیته فیکذب الکذبة تبلغ الآفاق[7]

ترجمہ:یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور جھوٹی خبر تراشتا ہے ،جو دنیا میں پھیل جاتی ہے۔

پھر خاص طور  پر  ان لوگوں کی مذمت بیان کی گئی ہے ،  جو دوسروں کے ہنسانے  کے لئے جھوٹ گھڑتے ہیں:

وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ[8]

ترجمہ:اس شخص کے لئے ہلاکت وبربادی ہے جو  لوگوں کو ہنسانے کی خاطر جھوٹ بولتا ہے۔

اس کے مقابلہ میں سچ بولنے والے کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کا محبوب کہا گیا:

من سره أن يحب الله ورسوله أو يحبه الله ورسوله فليصدق حديثه إذا حدث[9]

ترجمہ:جو شخص یہ بات پسند کرے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرے یا اللہ تعالیٰ اور اس رسول ﷺ کا محبوب بن جائے تو اسے چاہیئے کہ ہمیشہ تو سچ بولے۔

آج کل میڈیا پر ایک نئی ریت پڑ چکی ہے کہ جو کچھ دل میں کہہ ڈالیں  اور اس کو  “ذرائع”  کی طرف منسوب کریں۔ یہ صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی اور شرعاً ناجائز ہے۔

4:         صحافی کا  نڈر  و  بہادر ہونا  چاہیئے

صحافت چونکہ چھپی ہوئی حقیقتوں کو منظر عام پر لانے اور آشکار کرنے کا نام ہے،لہٰذا  صحافی کے فرائض میں شامل ہے کہ  یہ  دیکھے بغیر خبر  دے کہ یہ طاقتور کے  متعلق  ہے  یا کمزور کے  متعلق۔ اگر کوئی صحافی ایسا نہیں کرتا تو وہ اپنے فرائض  میں کوتاہی کا مرتکب ہوگا،حدیث مبارک ہر طرح کے حالات میں حق بات کرنے کا حکم دیا گیا:

                لا ينبغي لامرئ يشهد مقاما فيه مقال حق إلا تكلم به فإنه لن يقدم أجله ولن يحرم رزقا هو له[10]

ترجمہ:جو کوئی ایسے مقام پر ہو جہاں حق  کہنے کا موقع ہو تو ضرور حق کہے کیونکہ کسی کووقت مقرر سے پہلے موت نہیں آسکتی اور کوئی   اپنے مقررہ رزق سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔

معاشرے کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ظالم کو ظلم سے روکے ،پھر  صحافی   چونکہ میڈیا  کی طاقت کے ذریعے  مظلوم کے حق اور ظالم کے خلاف اٹھا کر آسانی سے ظلم کا راستہ روک سکتا ہے،لہٰذا اس پر  دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔اگر معاشرہ اور خصوصاً صحافی اس فرض سے عہدہ براں نہیں ہوتے ، تو نہ صرف   اپنے پیشے سے ناانصافی ہے بلکہ  شرعاً بھی ایک ناپسندیدہ عمل ہے:

إن الناس إذا رأوا الظالم فلم يأخذوا على يديه أوشكوا أن يعمهم الله بعقاب[11]

ترجمہ: جب لوگ ظلم ہوتے دیکھے اور باجود طاقت کے اسے نہ روکے تو یہ خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نازل کرے۔

دوسری جگہ فرمان نبویﷺ ہے:

اذا رايت امتي تهاب الظالم  ان تقول له انت الظالم فقد تودع منهم[12]

ترجمہ: جب میری امت کے لوگ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈرنے لگے تو یاد رکھو کہ ایسے لوگوں کو زمین پر چلنے کا حق حاصل نہیں۔

5:         لوگوں  کی عزت وتکریم ،پرائیویسی  اوراخلاقیات  واقدار کالحاظ کیاجائے:

صحافت میں صحافی کو خبر تک محدود رہنا چاہیئے نہ کہ ذاتیات  پر اتر آئے۔ ہر طرح کے حالات میں اس پر لازم ہے کہ انسانیت کی عزت وتکریم اور بنیادی اخلاقیات کا لحاظ کرے کیونکہ  صحافت کا مقصد انسانیت کے حقوق کا تحفظ  ہے نہ کہ ان کو ایذاء و تکلیف پہنچانا، فرمان نبو ﷺ ہے:

لا تؤذوا عباد الله ولا تعيروهم ولا تطلبوا عوراتهم فإنه من طلب عورة أخيه المسلم طلب الله عورته حتى يفضحه في بيته[13]

ترجمہ:اللہ تعالیٰ کے بندوں کو ایذاء مت دو ، نہ انہیں عار دلاؤں  اور ان کے رازوں کے پیچھے نہ  پڑو کیونکہ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی کے  رازوں کے پیچھے پڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے رسوا کرتا چاہے وہ گھر میں کیوں نہ ہو۔

ایک اور حدیث مبارک میں کسی کی آبروریزی کو  بدترین سود کہا گیا:

إِنَّ مِن أَربَى الرِّبَا الاِستِطَالَةُ فِي عِرضِ المسلِمِ بِغَيرِ حَقٍّ[14]

ترجمہ: سب سے بدترین سود مسلمان کی عزت وآبرو پر ناحق  زبان طعن  دراز کرنا ہے۔

6:         صحافت سے وابستہ افراد صبر،عفودرگزراوربہترین اخلاق کامظاہرہ کریں:

صحافی  کے لئے ضروری ہے کہ  معاشرہ کے تمام افراد کے ساتھ  ہر قسم کے حالات میں عفو و درگزر معاملہ کریں  اور ان کے ساتھ بہترین اخلاق سے پیش آئے۔حدیث مبارک میں   اس کا یہ فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ اس کے دشمن بھی اس کے دوست بن جائیں گے اور ایک صحافی کے لئے خبر  کی کھوج میں دوست ہی کام آتے ہیں ،لہٰذا یہ  اس کے شعبہ میں اس کی ترقی کا بھی باعث بنے گا، فرمان نبویﷺ ہے:

 الصبر عند الغضب والعفو عند الإساءة فإذا فعلوا عصمهم الله سبحانه وتعالى وخضع لهم عدوهم كأنه ولي حميم[15]

ترجمہ: غصے  کے وقت صبر اور برائی کے مقابلے معافی ایسی خصلتیں ہیں کہ جو یہ اپنائے گا ،اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا اور اس کے دشمن نرم پڑکر اس کے دوست بن جائیں گے۔

دوسری جگہ  ارشاد ہے:

وما زاد الله عبدا بعفو، إلا عزا[16]

ترجمہ:صدقہ مال میں کمی نہیں لاتا اور اللہ تعالیٰ معاف کرنے والے  کی عزت میں اضافہ کرتا ہے۔

7:         خبر و تجزیہ بامقصد اورشائستہ ہوناچاہیے:

صحافت کسی سے ذاتی دشمنی کا نام نہیں بلکہ سچی خبر دینا  اور تجربہ کی بنیاد پر غیر جانبدار  تجزیہ   صحافت کی روح ہے، لہٰذا صحافی و تجزیہ کار کو اپنا انداز نرم  اور شائستہ  رکھنا چاہیئے۔حدیث مبارک میں  ایسے شخص کو سب سے بدترین قرار دیا گیا ہے ،جس کی فحش گوئی  کی وجہ سے لوگ  اس سے دور رہنے میں ہی عافیت سمجھے :

إن من شر الناس من تركه الناس أو ودعه الناس اتقاء فحشه[17]

ترجمہ:لوگوں میں سے بدترین وہ ہے کہ لوگ اس کی ایذا سے بچنے کے لئے اس سے ملنا چھوڑ دے۔

اسی طرح ایک اور جگہ پر  کہا گیا کہ مؤمن ہر صورت میں فحش گوئی اور لعنت و ملامت  سے بچنے والا ہوگا پھر خصوصی طور ایک تعلیم یافتہ فرد جس کا کام معاشرے میں بہتری لانا ہو ،وہ تو کسی صورت  بد زبان اور فحش گو نہیں سکتا:

لا يكون المومن لعانا[18]

ترجمہ: مؤمن لعنت ملامت کرنے والا نہیں ہوسکتا ۔

نرم گفتگو اور نرمی و حسن اخلاق سے پیش آنا ،ایک ایسی اچھائی ہے جو انسان کے اچھے ہونے کی دلیل ہے اور اس کی گواہی حدیث مبارک می ں دی گئی:

من يحرم الرفق، يحرم الخير[19]

ترجمہ:جوکوئی نرمی سے محروم کیا گیا وہ ہر خیر  سے محروم کیا گیا۔

8:         صحافی کو فرقہ بندی،تعصب  وانتشار اور نفرتیں پھیلانے سے پرہیز کرنا چاہیئے:

میڈیا چونکہ ذہن سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے  ،اس لئے میڈیا پر موجود ہر شخص اس بات کو مدنظر رکھیں کہ  اس کی کی ہوتی ہر بات امت،قوم اور معاشرہ  کے اتحاد کا سبب بنے گا۔ ایسا نہ ہو کہ میڈیا کی طاقت کو قوم کو  انتشار ، تعصب  اور نفرتیں پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے، حدیث مبارک میں ایسے لوگوں  کو بدترین  کہا گیا ہے:

وشرار عباد الله المشاءون بالنميمة المفرقون بين الأحبة[20]

ترجمہ:لوگوں میں سے برے وہ  ہیں جو چغل خوری کرتے ہیں اور  محبین کے درمیان تفرقہ دالتے ہیں ۔

نتائج

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات معلوم ہوئی صحافت سے وابستہ افراد  مندرجہ ذیل صفات کے حامل ہوں ،تو معاشرہ میں مثبت تبدیلی آسکتی ہے، ورنہ معاشرہ روز افزوں پستی کی جانب  جائے گا۔

  1. بنیادی انسانی اخلاقیات کا  علم رکھتا ہو۔
  2. خبر کی تحقیق کی جستجو رکھتا ہو۔
  3. سچائی کا علمبردار اور جھوٹ و افواہ سے نفرت کرتا ہو۔
  4. نڈر و بے خوف ہو کر ذمہ داریاں پوری کرتا ہو۔
  5. اپنی بات شائستہ  انداز میں کرنے کا سلیقہ رکھتا ہو۔
  6. ہر طرح کے حالات میں صبر کا دامن تھامنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
  7. ذاتیات کی بجائے ،خبر تک خود کو محدود رکھتا ہو۔

حواشی وحوالہ جات

 [1]            تاریخ ِصحافت ،مولاناامدادصابری،ص:۱۲۱،انجمن اردو،نئی دہلی،۱۹۷۴ء

 [2]             سنن دارمی،کتاب العلم،باب تغیر الزمان وما  یحدث فیہ،حدیث نمبر:۲۰۳

 [3]            سنن دارمی،کتاب العلم،باب الرحلۃ فی طلب العلم،حدیث نمبر:۵۸۴

 [4]             صحیح المسلم،باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع،حدیث نمبر:۴

 [5]             مسند احمد، من مسند بنی ہاشم،حدیث نمبر:۱۸۴۲

 [6]             صحیح البخاری،کتاب الادب، باب عقوق الوالدین من الکبائر،حدیث نمبر:۵۹۷۶

 [7]             صحیح البخاری،کتاب  تعبیر الرؤیا،باب  تعبیر الرؤیا بعد صلاۃ الصبح  ،حدیث نمبر:۶۶۴۰

 [8]             سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب  فی التشدید الکذب، حدیث نمبر : ۴۹۹۲

 [9]             شعب الایمان للبیہقی،۳ :۱۱۰

 [10]           شعب الایمان للبیہقی ،۱۰:۶۷

 [11]          سنن ابی داود،کتاب الملاحم،باب الامر والنہی،حدیث نمبر: ۴۳۳۸

 [12]           مسند احمد ،مسند  عبد اللہ بن عمرو  بن العاص ،حدیث نمبر: ۶۷۸۴

 [13]          مسند احمد،مسند الانصار،من حدیث ثوبان،حدیث نمبر:۲۲۴۰۲

 [14]           سنن ابی  داود،کتاب  الادب ، باب فی الغیبۃ ،حدیث نمبر:۴۸۷۶

 [15]           صحیح البخاری،کتاب تفسیر القرآن،باب  قولہ  ونفخ فی الصور

 [16]           ٍصحیح البخاری،کتاب البر والصلۃ  والادب،باب استحباب العفو والتواضع،حدیث نمبر:۲۵۸۸

 [17]           صحیح البخاری،کتاب الادب،باب مایجوز من اغتیاب من  اہل الفساد  والریب،حدیث نمبر:۶۰۵۴

 [18]          سنن الترمذی ،ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی اللعن والطعن،حدیث نمبر: ۲۰۱۹

 [19]           صحیح المسلم،کتاب البر والصلۃ والادب،باب فضل الرفق،حدیث نمبر:۲۵۹۲

 [20]           مسند احمد، مسند الشامیین، حدیث عبد الرحمن بن غنم ، حدیث نمبر:۱۷۹۹۸

Advertisements
julia rana solicitors london

(تھیالوجی ٹیچر ،خیبر پختونخوا ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن)

Facebook Comments

ڈاکٹر محمد عادل
لیکچرار اسلامک اسٹڈیز باچا خان یونیورسٹی چارسدہ خیبر پختونخوا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply