شادی ناممکن۔۔مجاہد افضل

انسان میں دو طرح سے بدلاؤ پیدا ہوسکتا ہے’ ایک تو اس کو وقت بدل دے یا پھر ایک وہ خود بدل جائے ‘اگر تو کوئی انسان خود بدل جائے تو بہت اچھی بات ہے ‘اگر تو اس کو وقت بدلے’ تو اس کے لیے اس کو بہت تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا ۔آجکل ایک تصویر جس میں ایک نوجوان ایک لڑکی کو گود میں اٹھائے ہسپتال میں داخل ہو رہا ہے کا بہت چرچا ہے ‘خبر یہ ہے کہ اسامہ نامی یہ طالب علم اپنی کلاس فیلو کو مردہ حالت میں چھوڑ کر فرار ہوگیا اور پولیس نے گرفتار کرلیا ‘مگر اصل خبر یہ ہے کہ وہ لڑکا اور لڑکی شادی کے بغیر اکٹھے رہے تھے اور اسامہ شادی کے بغیر اولاد کا باپ بننے والا تھااور اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ملک میں کسی بھی قسم کے ایسے تعلق کو فروغ دینا اور رکھنا ایک مذہبی اور آئینی جرم سمجھا جاتا ہے۔اب یہاں پر سب سے آسان بات جو میں لکھ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے ایسا اس لئے ہوا کیوں کہ ہمارا نظام تعلیم محلوط نظام تعلیم ہے اور اس سے نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے اسلام اس سے منع کرتا ہے ماں باپ نے توجہ نہیں دی’ اس لیے بات ادھر تک پہنچی وغیرہ وغیرہ ۔یہ سب وہ باتیں ہیں جو ہم سالوں سے ایسے واقعات ہونے کے بعد سنتے آ رہے ہیں اور آج تک نہ تو اس سے کبھی کوئی بہتری آئی ہے اور نہ ہی تبدیلی وجود میں آ سکی ہے ۔بات کو مزید آگے لکھنے سے پہلے یہ بتاتا چلوں کہ یہ مضمون آزادانہ یا شادی کے دائرے سے باہر جنسی تعلقات کی حمایت میں نہیں ہے۔ نہ ہی یہ چھوٹی بچیوں کے ماں بننے کے حق میں کوئی دلیل ہے.

اصل بات یہ ہے کہ ہم خاص طور پر پاک و ہند کے لوگ اصلیت اور سچ کو ماننے کو بالکل بھی تیار نہیں’ نہ ہم چاہتے ہیں سچ بولا جائے نہ لکھا جائے’ایسے سارے معاملات میں قصور نوجوان نسل یا محلوط نظام تعلیم کا بالکل بھی نہیں ہے۔یورپ اور برطانیہ کے طالب علموں کے ساتھ ملنے اور اساتذہ کے ساتھ کام کرنے کے دوران پتہ چلا مسئلہ لڑکے اور لڑکی کے اکٹھی تعلیم کا نہیں ‘بلکہ اس جاہلانہ فکر اور سوچ کا ہے جو ہم اپنی نئی نسل کے دل اور دماغ میں بھر رہے ہیں ‘ادھر اگر اسامہ والے کیس کی بات کریں تو اسامہ اور لڑکی ہو سکتا ہے آپس میں شادی کرنا چاہتے ہو مگر دونوں کے خاندان کبھی بھی نہ مانے ہوں ‘جس کی بڑی وجہ دونوں کے خاندان کا معاشرتی اور مالی طور پر ایک دوسرے سے چھوٹا بڑا ہونا ہو یا اس کے ساتھ ساتھ ذات اور برادری سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔

پاکستان میں اس کے علاوہ شادی کرنے کے لیے لاکھوں روپے درکار ہوتے ہیں وہ عام آدمی کدھر سے لائے’اس پہ یہ کہ ہمارے ہاں شادی کے لیے جو آج کل جہیز میں گاڑی لینے کی رسم چل پڑی ہے وہ سونے پر سہاگہ ہے۔ہم نے ان ساری رسومات کے عوض نکاح اور شادی کو بہت مشکل بنا دیا ہے دراصل ہم اپنے بچوں کو ان کی خواہش اور اسلام کے مطابق زندگی گزارنے دینا ہی نہیں چاہتے۔میں دس سال سے پاکستان اور بیرون ملک درس و تدریس سے منسلک ہوں اور ہزاروں تو نہیں سینکڑوں لڑکے لڑکیاں ایک بات کرتے اور بولتے میں دیکھ اور سن چکا ہوں کہ میرے گھر والے خاندان سے باہر شادی نہیں کریں گے پھر وہی خاندان والے لڑکی اور لڑکے کی مرضی کے خلاف اپنی برادری میں شادی تو کر لیتے ہیں مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں وہ دراصل شادی نہیں کروا رہے ہوتے بلکہ  ایک جنازہ کروا رہے ہوتے ہیں۔پاکستان میں غیر شادی شدہ عورت طلاق یافتہ خواتین کی تعداد اور عمر بڑھ رہی ہے’ یہ ظلم اور گناہ میں وہ سارے والدین اور لوگ شریک ہیں جن کی وجہ سے اصل اور آسان نکاح کو مشکل بنا دیا گیا ہے ‘اسی طرح پاکستان میں پورن موویز اور مجرے دیکھنے کا ڈیٹا اور ویوز آپ نکال کے دیکھ لیں آپ حیران رہ جائیں گے کہ ایک اسلامی ملک میں یہ سارا کچھ کیسے کر ممکن ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیں آپ جب تک یہی سمجھ نہ آنے والے جاہلانہ رسم و رواج سے باہر نہیں نکلیں گے تب تک ہر روز ہزاروں اسامہ پیدا ہوتے رہیں گے اور لاکھوں ایسی بچیاں خاندان کی روایت کے آگے قربان ہوتی رہیں گی۔ اگر آپ کو پڑھتے ہوئے شرم نہ آئے تو یاد رکھیں پاکستان میں جس اسقاط حمل کو غیر شرعی اور غیر قانونی کہا اور سمجھا جاتا ہے ‘وہاں اسقاط حمل کروانے والی خواتین کی تعداد سالانہ 20 سے 25 لاکھ بتائی جاتی ہے’ ایک اور تحقیق کے مطابق یہی تعداد آٹھ سے 10 لاکھ بھی بتائی جاتی ہے ۔ایسے غیر شرعی اور غیر قانونی کام میں وہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے ایف اے اور میٹرک پاس نیم حکیم شامل ہیں جو بہت سے کلینکس چلا رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کبھی جراتمندی پیدا کرتے ہوئے آنکھیں اور دماغ کھولنے کا وقت ملے تو ایدھی سینٹر میں جاکر ان ہزاروں بچوں سے ملیے گا جو ان کو کچرے اور کوڑے کے ڈھیر سے ملے تھے اور ان کو میرے جیسے سمجھدار لوگ حرام کے بچے بھی کہتے پائے جاتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply