تامل ٹائیگرز کے دیس میں! (گیارہواں حصہ)۔۔خالد ولید سیفی

ہم سڑک کنارے اونچائی پر کھڑے تھے، سامنے خوبصورت جھیل تھی، کینڈی شہر کے وسط میں بنائی گئی اس مصنوعی جھیل کی دوسری طرف ” بدھ دانت مندر” (سری دالدا مالی گاوا ) جو نیچے کی جانب ہے، روایت کے مطابق بدھا کا دانت ہندوستان سے ایک شہزادی لے کر آئی تھی، جو اس مندر میں موجود ہے۔ بدھ مندر میں ہر شام دعائیہ تقریب ہوتی ہے، جسے دیکھنے اکثر سیاح جاتے ہیں، اور یہاں سالانہ تقریب کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جس میں بدھ دانت کی پوجا ہوتی ہے، بدھ مذہب کی اس تقریب میں دنیا کی بڑی بڑی شخصیات شرکت کرتی ہیں، 1988 کو یونیسکو نے کینڈی کے اس بدھ مندر کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے، دانت مندر کے ساتھ شاہی محل ہے، جس میں ریاست کینڈی کے آخری بادشاہ سری وکرما راجہ سہنا سکونت پذیر رہے۔ شاہی محل میں ایک میوزیم قائم کیا گیا ہے، جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔

کینڈی سری لنکا کے وسطی صوبہ کا ضلع اور صوبائی صدر مقام ہے، یہ بدھ عقیدت کے مرکز کے طور پر اپنی شہرت رکھتا ہے اور سری لنکا کا ثقافتی شہر بھی ہے۔ کینڈی میں سنہالی، مسلمان اور تامل بڑی تعداد میں موجود ہیں تاہم سنہالیوں کی بہت بڑی اکثریت ہے۔ یہاں مذہبی فسادات ہوتے رہتے ہیں، معمولی معمولی باتوں اور چھوٹے موٹے بہانوں سے آستینیں چڑھائی جاتی ہیں اور آخر میں لاشے گرتے ہیں۔

مذاہب امن کی تعلیمات پھیلانے دنیا میں آئے
لیکن مذاہب کے سوداگروں نے ان کی اصل روح مسخ کرکے انہیں اپنے مفادات کے حصول کا ذریعہ بنادیا ہے۔ نفرت کی ان فصیلوں نے بنی آدم سے جینے کا حسن چھین لیا ہے۔

جس اونچائی پر ہم کھڑے تھے وہاں سے جھیل ہمارے قدموں میں بچھی ہوئی تھی، سامنے دور سے بدھا کا ایک دیوقامت مجسمہ ( سری ماھا بودی) بہت اونچائی پر نصب دکھائی دے رہا تھا، ہم چونکہ عرفان کے رحم و کرم پر تھے اس لیے باوجود چاھنے کے وہاں نہیں جاسکے۔۔۔عرفان نے
” بہت دور ہونے کا ہے بھائی” کہہ کر بات ہی ختم کردی، حالانکہ یہ شہر سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر تھا، اس مجسمے کا افتتاح یکم جنوری 1993 کو سری لنکن صدر راناسنگھے پریما داسا نے کیا ہے، (صدر پریما داسا اس افتتاح کے کچھ ماہ بعد کولمبو میں تامل ٹائیگرز کے ایک خود کش حملے میں ہلاک ہوگئے) یہ مجسمہ سیاحوں کےلیے بے پناہ کشش رکھتا ہے، اسے اونچائی میں اس طرح نصب کیاگیا ہے کہ آپ کینڈی میں جہاں کہیں پر بھی ہوں، بدھا کا یہ مجسمہ نظر آئیگا۔

ساتھ شہر کی چہل پہل کا منظر آنکھوں کے سامنے تھا، آنے والے سیاح تصویریں کھینچ رہےتھے، ویڈیوز بنارہے تھے، ہر ایک خود میں مگن تھا، لمحوں کو یادگار بنایا جارہا تھا، زندگی خوش تھی، ہنستی مسکراتی تھی، ہمارے آس پاس اجنبی لوگ تھے، کوئی مشرق سے تھا تو کوئی مغرب سے۔۔۔مگر آپس میں جب مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوتا تو یوں لگتا جیسے برسوں کا یارانہ ہے، زمانوں کی قربت ہے۔۔اس لیے کہ مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں تھا، جب مفادات کا ٹکراؤ نہ ہو، تو بے غرضی ہوتی ہے، اور یہی بے غرضی کو فطرت کہتے ہیں، زندگی جب فطرت کے رنگ دیکھتی ہے تو پھولے نہیں سماتی، ایسے خوش ہوتی ہے جیسے کسی بچے کو اپنی پسند کا کھلونا مل گیا ہو۔

انسان اس وقت خوش ہوتا ہے،
جب اندر کی دنیا شانت ہو۔ اندر کی دنیا تب شانت ہوتی ہے، جب اسے نفرت، مکاری، فریب کاری، تخریب کاری، جھوٹ، دھوکہ، بغض، حسد، کینہ پروری، بخل، لالچ، بدخواہی،ظلم، انسانوں کی تذلیل، تکبر اور ان جیسی کثافتوں و کدورتوں سے پاک رکھا جائے۔اور اسے محبت سے ہمکلام ہونے دیا جائے۔
مگربہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک دنیا اندر بھی ہوتی ہے۔۔اور جو لوگ جانتے ہیں کہ اندر کی ایک الگ دنیا ہے، تو وہ اسی دنیا کے ہوجاتے ہیں، ان کےلیے باہر کی دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی حیثیت کی حامل نہیں ہوتی ہے۔

ہم سارےباہر کی دنیا میں الجھ کر
زندگی کا سرا کھو بیھٹے ہیں

کینڈی کم وبیش دولاکھ آبادی پر مشتمل ساڑھے چھ سو سال پرانا اور تاریخی شہر ہے، تعمیرات میں سری لنکا کے تہذیبی نقوش نمایاں ہیں، برٹش طرز تعمیر کے نمونے بھی موجود ہیں، یہ ایک آزاد ریاست تھی، جب پرتگیزیوں نے سری لنکا ( سیلون) کے بعض علاقوں پر قبضہ جمایا تو ان حملہ آوروں نے کینڈی پر بھی قبضہ کرنے کےلیے متعدد حملے کیے جنہیں ناکام بنایا گیا اور یوں یہ ریاست پرتگیزیوں کے دست برد سے بچی رہی۔
جس وقت برطانیہ دنیا بھر میں اپنی سلطنت کو وسعت دے رہا تھا اور ہندوستان میں پنجے گاڑ رہا تھا عین اسی وقت سیلون بھی اس کی نظروں سے اوجھل نہ تھی، برطانیہ اس وقت کا سامراج تھا، وسائل سے مالا مال، کمزور اور داخلی عدم استحکام کے شکار ممالک اس کے خصوصی ہدف تھے۔ آج یہ کردار چین ادا کررہا ہے، بس طریقے بدل دئیے گئے ہیں۔

1815 کو برطانیہ نے کینڈی پر قبضہ کیا، یوں آزاد کینڈی برطانیہ کی کالونی بن گیا اور 1948 کو جب سری لنکا نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تو کینڈی سری لنکا کا حصہ ہوا، سری وکرما راجہ سہنا ریاست کینڈی کے آخری اور وکرما باہوسو پہلے بادشاہ تھے۔ کینڈی میں کچھ لوگوں کی ایسی یادگاریں ہیں جو سامراج دشمنی میں اپنی پہچان رکھتے تھے۔ تلوار کے وار سے ان کی گردنیں اڑادی گئیں تھیں اور آج وہ بطور ہیرو متعارف ہیں، ان کی یادگاریں اور مجسمے مرکز نگاہ ہیں۔

ہیرو کون ہوتا ہے، جس کی ذات کائنات ہو اور سوچ آفاق کی وسعتوں کو چھوتی ہو، وہ ہیرو ہوتا ہے۔ ہیرو کی اصل زندگی اس کی موت کے بعد شروع ہوتی ہے۔وہ لافانی ہوتا ہے۔ ہیرو وہ ہوتا ہے جو حالات کے دھارے میں نہیں بہتا ہے بلکہ وقت کا دھارا بدل دیتا ہے۔

جھیل کی اونچائی سطح پر اپنے لمحوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد فیصلہ ہوا کہ پہلے ہوٹل کا بندوبست کریں، کچھ نہا دھو لیں، سفر کی دھول مٹی سے آزاد ہوجائیں۔۔پھر ہم ہوں، شہر ہو، چہل قدمی ہو،کچھ ہوا خوری تو کچھ آوارگی ہو۔
مگر سب سے پہلے ڈنر ہو۔

غروب آفتاب ہوا، شام کے سائے گہرے ہوتے گئے، صبح سے برکھا رت تھی، کبھی رم جھم، کبھی ہلکی پھلکی پھوار، آسمان اب بھی بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا، اکتوبر وسطی سری لنکا میں برسات کا موسم ہوتا ہے، تین ماہ یہاں بارشیں ہوتی ہیں۔۔۔کچے مکان ان کے بھی ہوتے ہونگے، مگر بارشوں سے ان کا یارانہ ہے۔

آسمان بادلوں سے ڈھکا ہو تو بھی خوبصورت ہوتا ہے۔۔آسمان صاف ہو تو بھی حسین لگتا ہے، صاف آسمان پر ستاروں کی محفلیں ہوتی ہیں، لیکن یہ محفلیں شہری آسمان پر نہیں دیہاتی آسمان پر ہوتی ہیں۔۔ دیہات کے لوگ ان محفلوں میں شریک رہتے ہیں، شہر اور ستاروں کی آپس میں نہیں بنتی ہے۔
نہ صرف ستارے۔۔ چاند بھی شہر سے روٹھے رہتا ہے، چاند گاؤں کا جھومر ہے۔ آدھا چاند، پورا چاند، روشن چاند۔۔گاؤں کےلیے بنے ہوتے ہیں۔شہر کو کیا معلوم چاند کیا ہوتا ہے، شہری لوگ کیا جانیں ستارے کس شے کو کہتے ہیں۔

ہوٹل صاف ستھرا ملا، کمرہ کشادہ اورکرایہ بھی مناسب تھا، اجلے بستر،صاف غلافوں میں ملفوف تکیے تھے، محل وقوع میں دلکشی تھی۔کھڑکی کے پردے سرکائیں تو دوسری جانب درخت، سبزہ اور ہریاول میں آنکھوں کےلیے خوبصورتی کا سامان تھا۔
سفر کی تھکاوٹ کو شاور کے حوالے کردیا، پانی کی پھوار جب جسم پر پڑی تو ساری تھکن تازگی میں بدل گئی، بھوک زوروں کی تھی،
تازہ دم ہوکر کمرے سے نکلے، گاڑی جھیل کنارے پارک کی، پہلا پڑاؤ انڈین ریسٹورنٹ تھا۔جس کی بالائی منزل میں رات کا کھانا کھایا۔۔۔ذائقہ خاص نہ تھا، بس معدے کو تسلی ہوگئی کہ وہ خالی نہیں ہے۔ دراصل ہم سے ریسٹورنٹ کا انتخاب صحیح نہیں ہوا تھا۔

مارکیٹوں میں رش پڑا تھا، بیشتر خریدار سیاح تھے، ہم ایک بڑی دو منزلہ دوکان میں گئے، ہمارے دوستوں نے اپنے لیے کپڑے خریدے، میرے لیے خریداری کےلیے کچھ نہیں تھا، بغیر مقصد کے شاپنگ کا بھی کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے، جو چیز ضرورت کی ہو اسی کی خریداری کرنی چائیے۔

نصف گھنٹے سے زائد کا وقت کینڈی سٹی کے انہی خریداری مراکز میں گزرا، کچھ وقت ہوا خوری میں۔۔جس کے بعد آرام کے لیے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ نرم و گدازبستر نے بہت جلد ہمیں اپنی آغوش میں لیا، کچھ ہی لمحوں بعد ہم نیند کی گہری وادی میں تھے۔
یہ سری لنکا میں ہماری تیسری رات تھی۔

علی الصبح آنکھ کھلی، تو میں نے سب سے پہلے کھڑکی سے پردہ سرکا دیا۔ باد نسیم کا ایک جھونکا آیا اور مجھے سرشار کرگیا۔ایسے لگا جیسے اس جھونکے نے خوبصورت وادی کا تمام حسن اپنے وجود میں گھول کر میرے وجود پر نچھاور کردیا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply