سوڈوسائنس ۔ ایڈز (12)۔۔وہاراامباکر

“موسمیاتی تبدیلیوں کا ایک ایسا نتیجہ جس کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے، وہ یہ کہ چڑیلوں کو مارنے کی تعداد زیادہ ہو جائے گی”۔
یہ فقرہ نکولس کرسٹوف کے مضمون کا ہے۔ وہ ایک اکانومسٹ کی تحقیق کا حوالہ دے رہے تھے۔ تنزانیہ کے دیہی علاقوں میں ساحری کے الزام میں دی جانے والی سزائے موت کی شرح اس وقت بہت بڑھ جاتی ہے جب خشک سالی ہو یا سیلاب آئیں۔ جب مقامی آبادی کے حالات اچھے نہ ہوں تو اس کا ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے۔ کرسٹوف نے تجویز کیا تھا کہ یورپ میں ہونے والے چڑیلوں پر مقدمات کا تعلق بھی ماحول سے تھا۔ فصلوں کی ناکامی کے ساتھ ہی یہ ہوئے تھے۔ یورپ میں 1520 سے 1770 تک موسم کے درجہ حرارت اور خواتین کو مار دئے جانے کا کوریلیشن مضبوط تھا۔
کرسٹوف کی پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے زیادہ وقت نہیں لگا۔ جگہ کینیا تھی۔ اکیس مئی 2008 کو پندرہ خواتین کو چڑیل ہونے کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ نیروبی سے تین سو کلومیٹر دور غصے میں بپھرے مجمع نے اس خواتین کو گھروں سے اٹھایا، باندھ دیا، مارا پیٹا اور آخر میں ان کو نذرِ آتش کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیلاب یا خشک سالی ایک بیرونی فیکٹر ہو سکتی ہے لیکن یہ خواتین اس لئے ماری گئیں کہ توہمات قتل کر دیتے ہیں۔ سوڈوسائنس کے عام ہونے کی زیادہ پرواہ نہیں کی جاتی۔ “کیا فرق پڑتا ہے اگر لوگ توہمات رکھتے ہیں یا سوڈوسائنس پر یقین کرتے ہیں”۔
کینیا کی پندرہ بدقسمت خواتین اس کا ایک جواب ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب یہ مارتی نہیں، تب بھی بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ لوگ “متبادل علاج” والوں کے ہاتھوں اپنی صحت اور مال گنوا دیتے ہیں۔ نجومیوں کی وجہ سے غلط فیصلے کر لیتے ہیں۔ شعبدہ بازوں کے ہاتھوں جذباتی اور مالیاتی دھوکے کھاتے ہیں۔ ہر ایک کو غیرمنطقی ہونے کا حق ہے۔ لیکن جب یہ معاشرے میں عام ہو جائے تو خطرناک ہے۔ “فرق کیا پڑتا ہے” زیادہ معقول سوال نہیں رہتا۔
میڈیکل سائنس کی بیسویں صدی میں سب سے بڑی کامیابی ویکسین تھی۔ ویکسین دینے کے انکار کی وجہ سے وہ پرانی بیماریاں واپس آ رہی ہیں جن کو ختم ہو چکے ہونا چاہیے تھا۔ امریکہ اور یورپ میں خسرہ کی واپسی اس کی مثال ہے۔ سائنس کو سوڈوسائنس سے جدا نہ کر سکنا مہلک ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افریقہ میں ایڈز کا بحران ہے۔ اور اس کی وجوہات میں سے ایک انکار کی تاریخ رہی ہے۔ اس انکار کی، کہ ایڈز کی وجہ ایچ آئی وی وائرس ہے۔
گیمبیا میں 1994 سے 2017 تک صدر یحیٰی جامع رہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے ایڈز کا علاج دریافت کر لیا ہے۔ وہ جمعرات کو اپنے کلینک میں ایڈز کا جبکہ ہفتے کو دمہ کا علاج کرتے تھے۔ باقی پانچ دن حکومت چلاتے تھے۔ گیمبیا کی وزارتِ صحت کا دعویٰ تھا کہ صدر کے علاج کے نتائج سائنس سے ثابت شدہ ہے۔ سکائی نیوز کو انٹرویو میں انہوں نے کہا۔ “مجھے کسی کو قائل کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں ایڈز کا علاج کر سکتا ہوں۔ اگر کوئی نہیں مانتا تو نہ مانے۔ میرا مرہم کام کرتا ہے۔” جب وہ اقتدار اور ملک چھوڑ کر بھاگے تو ان کے ہاتھ سے ہونے والی ہلاکتوں کے اعداد و شمار نامعلوم تھے۔ البتہ مرنے والوں کے لواحقین انہیں اس پر انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہتے ہیں۔
لیکن سب سے بدترین متاثر ہونے والا ملک جنوبی افریقہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی افریقہ کے صدر 1999 سے 2008 تک تھابو مبیکی رہے۔ جنوبی افریقہ کی نسلی تعلقات کی پیچیدہ تاریخ کی وجہ سے یہ مغربی ادویات کو مسترد کرنے کی جگہ بن گئی جس میں سیاسی لیڈروں نے بھرپور کردار ادا کیا۔
سائنس انسانی کوشش ہے۔ اور انسان مختلف رائے رکھ سکتے ہیں۔ کئی بار مختلف رائے کی اچھی وجہ ہوتی ہے۔ کئی بار اس کے پیچھے کچھ اور ترجیحات ہوتی ہیں اور کئی بار ضد۔ پیٹر ڈیوسبرگ نے 1987 میں ایک پیپر لکھا جس میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے آپسی تعلق پر شک کا اظہار کیا۔ اس وقت دستیاب شواہد کے مطابق یہ ایک مناسب پوزیشن تھی۔ لیکن کسی وجہ سے وہ اسی پر پھنس گئے۔ ہزاروں سٹڈیز کا ڈیٹا ان کے خیالات کے منافی آتا رہا لیکن انہوں نے رائے نہیں تبدیل کی۔ ہمیں معلوم نہیں کہ اس کی وجہ کیا تھا لیکن مبیکی نے اس کو اپنے انکار کی بنیاد بنا لیا۔
یہ وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ اپنی تاریخ کی وجہ سے سفید فام سائنسدانوں پر بھروسہ نہیں تھا لیکن تضاد یہ کہ سائنس کا انکار کرنے کیلئے ایک سفید فام مغربی سائنسدان پیٹر ڈیوزبرگ کو ہی اپنا ہیرو بنایا۔ اس کی قیمت تین لاکھ تینتالیس ہزار جنوبی افریقہ کے شہریوں نے ادا کی جن کی جان بچائی جا سکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں سوڈوسائنس کے خطرات سے آگاہ کرتا ہے۔ لوگ جن وجوہات کی بنا پر سوڈوسائنس پر یقین کرتے ہیں، وہ کئی قسم کی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادویات کی کمپنیوں کا ریکارڈ بے داغ نہیں۔ ان کی تحقیق میں، منافع کے لئے مارکٹنگ کے طریقوں میں مسائل ہیں۔ ان پر تنقید، ان پر دباوٗ، ان کی غلط پریکٹس کی نشاندہی اپنی جگہ لیکن جنوبی افریقہ میں چقندر کے جوس (جو سرکاری طریقہ علاج تھا) نے ایڈز کے مریضوں کی کچھ مدد نہیں کی۔
ایسی لاکھوں جانیں چلی گئیں جو بچائی جا سکتی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینیا کی چڑیلیں، ویکسین کی مخالفت، جنوبی افریقہ میں ایڈز ۔۔۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ توہمات جانیں لے سکتے ہیں۔ تجزیاتی سوچ اور منطق کسی کو نقصان نہیں پہنچانتیں۔
(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors

ساتھ لگی تصویر میں گیمبیا کے صدر ایڈز کا علاج سبز مرہم سے کر رہے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply