پروردگار عالم کی ہر ایک تخلیق بے مثال ہے، کائنات کا ذرہ ذرہ اپنے اندر خالق کا حسن جمال سمیٹے نظر آتا ہے،
وادیاں،صحراء، چرند پرند، پہاڑ، دریا، سمندر، اشجار اور کروڑوں کہکشائیں، اپنے بنانے والے کی نہ صرف حمد کرتے دکھائی دیتے ہیں بلکہ اس کے وجود اور لا محدود حاکمیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں،
رب کریم کو اپنی مخلوق سے بہت پیار ہے لیکن جو رتبہ اس نے حضرت انسان کو عطاء کیا وہ بینظیر و بے مثال ہے، انسان کو اشرف المخلوقات کا شرف عطاء کیا گیا۔
پوری کائنات میں تمام مخلوقات کی سرداری بلاشبہ ایک اعلیٰ ترین اعزاز ہے، رب کریم نے انسان کو یہ عظمت اس لیے عطاء فرمائی کہ تاکہ وہ نہ صرف اپنے ساتھ موجود دوسرے انسانوں کی فلاح و بہبود کا باعث بنے بلکہ رب کی پیدا کردہ ہر ایک ذی روح کے لیے راحت کا سبب بنے۔
حضرت انسان نے علوم پر دسترس پا کر کائنات کو اس انداز میں تسخیر کیا کہ وہ واقعتاً، نہ صرف انسان کے اپنے لیے قابل استعمال ہوئی بلکہ چرند، پرند تک اس سے مستفید ہوئے،انسان نے طب کے علم پر عبور حاصل کیا، تو انسانوں کی جانیں بچانے کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کا علاج بھی کیا اور ان کی جانوں کو محفوظ کیا،انسان کو جو عقل و دانائی عطاء ہوئی، وہ اسی کی بناء پر بلند ہوتا چلا گیا۔
یہ بھی ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ انسان بہت جھگڑالو بھی واقع ہوا ہے،اس کی طبیعت میں بے پناہ غصہ اور بے چینی بھی پائی جاتی ہے،جب انسان پر غصہ غالب آجاتا ہے تو اس کی عقل کام کرنا سے قاصر ہوجاتی ہے جس کا انجام ہمیشہ تکلیف دہ ہوتا ہے،خیر اور شر بیک وقت انسان کی ذات میں موجود ہوتے ہیں،لیکن جب شر انسان کو جکڑ لے تو وہ انسان ایک درندہ بن جاتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں عمومی طور پر عدم برداشت کا رویہ بہت عام دیکھنے میں آرہا ہے، جس کی بہت ساری نفسیاتی و معاشرتی وجوہات ہیں،لیکن پاکستان میں *عدم برداشت* کے رویوں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، جو کہ ہم سب کے لیے بحیثیت قوم لمحہء فکریہ ہے،پاکستان میں کمزور معیشت اور غربت سے زیادہ خطرناک عوامل میں سے جہالت اور عدم برداشت ہیں،
پچھلے دنوں ملتان کے ایک ذہنی و نفسیاتی امراض معروف ڈاکٹر نے غصے، تناؤ اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو کر اپنی اکلوتی بیٹی کو قتل کر دیا اور بعد ازاں خودکشی کرلی،اسی طرح سے چند روز قبل گجرات کے علاقے میں معمولی تلخ کلامی پر بڑے بھائی نے کلہاڑی کے وار کرکے اپنے چھوٹے بھائی کا بے دردی سے قتل کردیا۔
معاشرے کی یہ روش نہایت تکلیف دہ ہے۔۔
ایسے میں معاشرے کے تمام ذمہ دار طبقات کو، اس کی بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے والدین کو اپنے گھروں میں بچوں کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی سعی کرنی ہوگی، تاکہ وہ جب گھر سے پرسکون نکلیں تو معاشرے کے ماحول کو بھی سازگار بنے رہنے دیں، اور پھر اس کے بعد وہ بڑے لوگ جو معاشرے کی نوک پلک سنوارنے کا کام کرتے ہیں، ان کو پاکستانی معاشرے کی اصلاح کے لیے حقیقی معنوں میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔
مصنفین، شعراء، ادباء،اساتذہ کرام، وکلاء، صحافی برادری ہر ایک کو اپنی اپنی جگہ عدم برداشت کے رویوں کا تدارک کرنے کے لیے آگے بڑھنا ہوگا،ادبی محفلوں کے انعقاد سے معاشرتی تناؤ کو بخوبی طور پر کم کیا جاسکتا ہے، کیونکہ اس طرح کی سرگرمیوں میں شامل ہوکر انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتا ہے،جس سے اس اندر منفی رجحانات کی کمی ہوتی ہے۔
اس وقت موبائل فون کے بے جا استعمال نے لوگوں کو کمروں تک محدود کردیا ہے، اور اسی وجہ سے کھیلوں کے میدان ویران نظر آتے ہیں،جب انسانی جسم طبعی جدوجہد نہ کرپائے تو، وہ بجاء طور پر ذہنی تناؤ اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہوگا اور اسی وجہ وہ معاشرے میں شر اور تضاد کا باعث بنے گا۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کے لیے بالخصوص جسمانی کھیلوں کے مقابلوں کا مؤثر انعقاد کروائے، اور اس میں جسمانی اور ذہنی طور پر معذور افراد کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے،
ہمارے ملک میں میلے ٹھیلوں کا حسین رواج تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی معدوم ہوگئے،یہ میلے عوام الناس کے لئے سستی تفریح کا باعث ہوا کرتے تھے، جو تفریح ان سے چھن چکی ہے،
حکومت پاکستان کو عوام کے بہترین مفاد میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت ان میلوں ٹھیلوں، صنعتی نمائشوں، مشاعروں،مصوری کے مقابلوں ، مثبت اور تعمیری مزاکروں کا اہتمام کرنا ہوگا، تاکہ لوگوں میں مثبت سوچ رجحانات کو پروان چڑھایا جاسکے۔
معاشرے میں سکون اور امن کے لیے، مثبت تفریحی سرگرمیوں کا انعقاد نہایت ضروری ہے،معاشرے سے عدم برداشت کے منفی رویوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا روشن کردار ادا کرنا ہوگا، تبھی جا کر ایک روشن اور شاندار پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔
بقول احم ندیم قاسمی،
خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے،
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو!
Facebook Comments