آئی ویل بی بیک۔۔عارف انیس

”بہت سے لوگوں نے مجھے کہا کہ تم یہ نہیں کر سکتے۔تم آسٹریا میں رہنے والے پینڈوہو۔امریکہ میں جاکر ورلڈچیمپئن نہیں بن سکتے۔اور جب میں ورلڈچیمپئن بن گیا بعد میں ہالی ووڈمیں ایکٹنگ کا ارادہ ظاہر کیاتو بہت سے لوگ ہنسے۔اوئے تم نے اپنا سائز دیکھا ہے؟ اس سائز کے لوگ ایکٹر نہیں بن سکتے۔اداکار لوگ تو ملوک سے ہوتے ہیں۔اور جب میں ہالی ووڈ کا نمبر ون سٹار بن گیا اور میری فلمیں دنیا میں سب سے زیادہ پیسے کمانے لگیں تو میں نے سیاستدان بننے کا سوچا تو سننے والے ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے۔روبوٹ جیسی شکل ہے تمہاری اور انگریزی بولنی آتی نہیں اور چلے ہو تم گورنر کا الیکشن لڑنے؟خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں۔ان تمام لوگوں کا شکریہ جنہوں نے مجھے ناکام رہنے کی یقین دہانی کرائی حتیٰ کہ میں دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی اکانومی،امریکی ریاست کیلیفورنیا کا گورنر بن گیا“۔

گہرے نیوی بلیو سوٹ میں ملبوس،دنیا کے سب سے زیادہ معروف چہروں میں سے ایک آرنلڈشیوارزنیگراپنے مخصوص گرجدار آسٹرین لہجے والی انگریزی میں اپنی زندگی کی کہانی سنا رہاتھا۔
نومبر کی اس شام لندن کی یخ بستہ شام میں لنکاسٹر ہوٹل کا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔اور شدت شوق سے لوگوں کے پسینے چھوٹ رہے تھے کہ وہ آج وہ دنیا کی معروف ترین شخصیت آرنلڈشیوازینگرکے درشن کرنے والے تھے۔جس نے تین مختلف شعبوں کی انتہاؤں کو چھوا تھا۔20سال کی عمر میں مسٹر یونیورس کا ٹائٹل جیتنے کے بعد وہ سات مرتبہ مسٹراولمپیامنتخب ہوتا رہاتھا۔اداکاری کے شعبے میں قدم رکھا تو اپنے وقت میں دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔سیاست کے میدان میں اترا۔ تو یکے بعد دیگرے دو مرتبہ امریکہ کی سب سے امیرترین ریاست کیلیفورنیا کا گورنر منتخب ہوگیا۔1947میں مشرقی یورپ کی غریب غرباریاست آسٹریا میں پیدا ہونے والے ایک پینڈو کی حیران کن کامیابی سے مرعوب تھے اور آج اس کی داستان اس کے اپنے منہ سے سننا چاہتے تھے۔مجھے کچھ افراد اس کی چند مشہور ترین فلموں کے کاسٹیوم میں ملبوس نظر آئے۔آرنلڈ کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔اس کے سٹیج پر پہنچتے ہی ہلچل سی مچ گئی۔ 67سالہ اداکار اور سیاستدان گہرے نیوی بلیو سوٹ میں اپنی عمر سے دس پندرہ سال کم نظر آرہا تھا۔

”جب میں پندرہ سال کا تھا تو ایک امریکی رسالہ میرے ہاتھ لگا جس میں اس وقت کے باڈی بلڈنگ چیمیئن کی تصویر تھی۔ بس اس نے میری نیند حرام کر دی۔میں آسٹریا کے اس پسماندہ قصبے میں دن رات خواب دیکھنے لگا تھاکہ میں اس ورلڈچیمپیئن کی طرح سٹیج پر موجود ہوں۔تاہم میں صرف خواب ہی نہیں دیکھنے لگا بلکہ ہر روز گھنٹوں بھاگنے لگا اور ورزش شروع کر دی۔وہ بھی یہ جانے بغیر کہ کونسی ورزش میرے لیے موزوں ثابت ہو سکتی ہے۔میرے ابا ایک سخت گیر پولیس افسر تھے۔جو جلدی جلدی میری شادی کرکے مجھے فوج میں بھرتی کرانا چاہتے تھے۔اور ان کے لیے میری خوابوں کی دنیا ایک حماقت کی گٹھڑی تھی“۔چنانچہ جب میں 18سال کا ہوا تو انہوں نے اپنے فوجی دوستوں سے بات کی اورمجھے فوج میں ایک ٹینک ڈرائیور کے طور پر بھرتی کرا دیا۔آرنلڈ نے اپنے ماضی کو کریدتے ہوئے بتایا۔

”فوج میں پہنچتے ہی بھاگ دوڑ دگنی ہو گئی۔دن بھر مشقت کرتے،خندقیں کھودتے،مشقیں کرتے۔رات کو تھک ہار کرواپس آتے تو میں سب سے چوری چھپے ایک کونے میں دو کرسیاں ڈال کر ڈنڈ بیٹھکیں نکالنے کی کوشش کرتا۔واحد موقع اپنی نیند قربان کرنے کا تھا سو میں نے اپنا خواب قربان کرنے کی بجائے آرام قربان کرنے کو ترجیح دی۔ان وقتوں میں باڈی بلڈنگ کا نام بھی سننے میں نہیں آتا تھا اور اس حوالے سے کسی کیریئر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔جبکہ مجھ میں تو ایک ہی ترنگ سمائی ہوئی تھی۔مجھے یقین تھا کہ میں نے ورلڈچیمپیئن بننا ہے۔میں خوابوں خیالوں میں ہر روز امریکہ کے سٹیج پر کھڑے ہوئے مسٹر ورلڈ کے پوز بناتارہتا اور حقیقی دنیا میں ٹینک کی صفائی کر رہا ہوتا۔تاہم میں ہر طرح کی مشقت اس شوق میں کر جاتا کہ میرے کچھ نہ کچھ مسل بن رہے تھے۔ ایک دن میرے شوق نے مجھے اپنی یونٹ سے بھاگ کر ایک چیمپیئن شپ میں شرکت پر آمادہ کر لیا۔میں جونیئر چیمپیئن تو بن گیا مگر واپسی پر پکڑا گیا اور مجھے قید تنہائی میں ڈال دیا گیا تاہم حوالات میں میرا ایک ہی کام تھاایک ایک دن میں ہزاروں ڈنڈ اور بیٹھکیں نکالنا۔میرے ساتھ اچھا یا برا جو بھی ہورہا تھا وہ میرے شوق کو چابک لگا رہا تھا۔حتیٰ کہایک دن ایسا بھی آیا جب میں فوج سے نکل کر امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تب میری عمر 21سال تھی“۔آرنلڈ نے ہوا میں 21کا ہندسہ لکھا اور پھر تھوڑا سا توقف کیا۔

پھر اگلے بیس منٹ اس نے امریکہ میں اپنے اوائل کے دنوں پر روشنی ڈالی کہ کیسے کیسے مزدوری کی،لوہار کی دوکان پر کام کیا،ایک ایک ڈالر کے لیے جان لڑائی تاکہ باڈی بلڈنگ کا خرچہ برداشت کر سکے۔ان کٹھن دنوں میں کٹی پھٹی عمارتوں اور ٹرین سٹیشنوں پر سونے کا اتفاق بھی ہواتب اسے انگریزی کے بس دو لفظ ہی آتے تھے۔اور چونکہ تعلیم بھی نہ ہونے کے برابر تھی اس لیے کوئی ڈھنگ کی نوکری ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔”ان تمام تاریک راتوں میں میرا خواب سلامت تھا اور وہ تھا دنیا کا سب سے بڑا،باڈی بلڈر بننا۔یہ خواب میری رگوں میں چنگاریاں بن کر دوڑتا تھا اور دنیا کی اور کوئی مصیبت مجھ پر اثر نہیں کرتی تھی۔پھر ایک دن میرا خواب سچا ہو گیا1969؁ ء میں، میں پہلی مرتبہ مسٹر اولمپیاکا اعزاز جیتنے میں کامیاب ہو گیا“۔آرنلڈ کے لہجے میں تفاخر کی جھلک تھی یقینا وہ اس کا حقدار بھی تھا۔

”پھر وہ فلموں میں آمد اور سیاست کی کارگذاری کی تفصیل میں کھو گیا“۔کبھی کبھی لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری کامیابی کا راز کیا ہے۔میرے اندر وہ سارے عیب موجود ہیں جن کی وجہ سے لوگ کامیاب نہیں ہوتے۔ میرے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔تعلیم نہ ہونے کے برابر تھی میں انگریزی بھی ڈھنگ سے بول نہیں سکتا تھا اور ان تمام معذوریوں کے باوجود میں امریکہ کے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تو اس کی پہلی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنے خوابوں پر یقین تھا مجھے آسٹریا کے اس گمنام قصبے میں بھی اچھی طرح اندازہ تھا کہ میں نے امریکہ میں پہنچ کر کامیابی کے جھنڈے گاڑنے ہیں۔میں ہر روز وہ فلم اپنے دماغ میں چلاکے اپنے آپ کو وہ سب کچھ کرتا دیکھتا تھا جس کو میں صرف خوابوں میں کر سکتا تھا۔ایک دن وہ سارے خواب حقیقت میں بدل گئے صرف اس لیے کہ میں اپنے خوابوں پر ایمان رکھتا تھا۔اور اگر تم اپنے خوابوں پر یقین نہیں رکھو گے تو تمہارے آس پاس کوئی بھی تم پر یقین نہیں رکھے گا۔

کامیابی کا دوسرا کلیہ میں بتاؤں گا اور وہ ہے کہ،بریک دا رولز، ٹھہریے میں قانون توڑنے کی بات نہیں کر رہا،میں جس طریقے سے چیزیں عموما کی جاتی ہیں ان کو توڑنے کی بات کر رہا ہوں۔ہر بڑے انسان نے جب کچھ ایجاد کیا،کچھ ڈھونڈا،کوئی نیا سراغ لگایا تواسے یہی بتایا گیا کہ ایسے نہیں ہوتا اور یہ کام نہیں کیا جا سکتااور دنیا آج کچھ بہتر حالت میں اس لیے موجودہے کہ رولز توڑنے والے لوگ موجود تھے۔ایک طے شدہ دائرے میں چلتے ہوئے کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا،اگر آپ دائرے سے بڑے ہیں تو نیا دائرہ کھینچیں اور ثابت کریں کہ آپ میں دم ہے۔
تیسرا کلیہ یہ ہے کہ ناکام ہونے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں سچی بات تو یہ ہے کہ ناکامی یا کامیابی بس ایک ذہنی خیال سے زیادہ کچھ نہیں ہے جب آپ ناکام ہونے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور ناکامی کے بھوت کو اپنے بس میں کر لیتے ہیں تو پھر یہ بھوت آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتازندگی میں اکثر افراد اس لیے نہیں پچھتاتے کہ وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے بلکہ ان کاموں کے بارے میں پچھتاتے ہیں جو وہ ناکامی کے خوف سے کر ہی نہیں پاتے۔

چوتھا کلیہ بہت مشکل ہے اور وہ ہے کہ ان لوگوں کو اپنے اعصاب پر سوار کرنے سے انکار کر دیں جو آپ کو بتاتے ہیں کہ آپ کیا نہیں کر سکتے چاہے وہ کتنے ہی اخلاص کے ساتھ آپ کے سامنے سپیڈبریکر کا کردار ادا کرنا چاہیں بس آپ ان کو کامیاب ہونے دیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی آپ کا بھلا چاہتے ہوں مگر آپ ان کی نہیں کو اپنے لیے دیوار مت بنائیں اس لیے کہ دیوار اتنی ہی اونچی ہوتی ہے جتنا آپ کا حوصلہ۔جب آپ کو بتایا جائے کہ آپ کیا نہیں کر سکتے تو آپ وہ بات بہت شوق سے اپنی ڈائری میں لکھ لیجئے،تاکہ آپ وہی کچھ کرنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈ سکیں۔
چوتھا کلیہ ہے اپنی ایسی تیسی کرنے اور ایڑی سے چوٹی تک کا زور لگا کر خون پسینہ بہا دینا۔یہ ذہن میں رہے کہ یہ سب سے اہم ترین کلیہ ہے جن تک آپ کے خواب آپ کی نیند،آرام، کھانے پینے،چائے،کافی،موج مستی سے بڑے نہیں ہو جاتے تب تک کوئی بھی کلیہ ٹھیک کام نہیں کرے گا۔میں ہابی کی بات نہیں کر رہا بلکہ جنون کی بات کر رہا ہوں مجھے عظیم باکسر محمد علی کی بات یاد آرہی ہے۔کسی نے اس سے پوچھا کہ تم کتنی پش اپس کر لیتے ہو؟ تو اس نے کہا کہ میں گنتی اس وقت کرتا ہوں جب میری بس ہونی شروع ہو جاتی ہے میں تب گنتا ہوں جب درد میرے جسم کو نچوڑ لیتا ہے۔ایک چیمپیئن کی یہی نشانی ہے کہ وہ درد برداشت کرنا جانتاہے۔

چھٹاکلیہ ہے کہ واپس لوٹاؤ۔جو کچھ تمہیں خدا نے بخشا ہے اس میں لوگوں کو حصہ دو،حوصلہ دو، راستہ دو، دنیا کی ساری کامیابیاں مل کر بھی اس کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں جوتم لوگوں کے لیے بغیر کسی غرض کے کرو گے۔دنیا کی سب سے بڑی خوشی اس وقت ملتی ہے جب ایک دفعہ اس کا چسکا لگ گیا تو پھر کبھی نہیں بھولے گا۔
تقریب ختم ہوئی تو آرنلڈ کے آس پاس تصویر کھنچوانے والوں کا ہجوم تھا۔لوگ تمتماتے چہروں کے ساتھ اس کے ساتھ مصافحہ کرتے یابات کرنے کے خواہشمندنظر آرہے تھے۔میں نے ہاتھ ملایا تو پنجہ گویا کسی فولادی شکنجے میں آگیا۔ برسوں کی ریاضت کا اثر اب بھی موجود تھا۔میں نے آرنلڈ کو ایک سیلفی کھینچنے کی درخواست کی تو وہ مسکراتے ہوئے میرے فون کے سامنے جھکا۔ تصویر کھینچنے کے بعد میں نے اس کی گرجدار آواز کی نقل کرتے ہوئے ایک مکہ سا بنایا اور اس کی فلموں کا مشہور ترین جملہ کہا”آئی ویل بی بیک“وہ بے ساختہ مسکرایا اور بولا”کوئی بھی جب گر کر اٹھنا جانتا ہو وہ ہمیشہ کھیل میں واپس آسکتا ہے اور کھیل جیت بھی سکتا ہے۔ اینی ون کین بی بیک“۔

Advertisements
julia rana solicitors

( مصنف کی کتاب “آئی ایم پاسیبل” کے دسویں ایڈیشن سے اقتباس)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply