زبان۔۔زین سہیل وارثی

زبان (گفتگو) مواصلات کا ایک منظّم نظام ہے جو انسان استعمال کرتے ہیں، جن میں آوازیں (بولنے والی زبانیں) یا اشاروں (اشارہ شدہ زبانیں) پر مشتمل ہوتا ہے۔
اردو کو برصغیر کی زبانِ رابطۂ عامہ کہا جا سکتا ہے اسکو 11 ویں صدی عیسوی کے لگ بھگ پذیرائی حاصل ہونا شروع ہوئی۔ اردو یورپی ہند کے لسانی خاندان کی ایرانی ہند شاخ کی ایک ہند آریائی زبان ہے۔ اسکا ارتقاء جنوبی ایشیاء میں سلطنت دہلی کے عہد میں ہوا، جب فارسی، عربی اور ترک زبان کے زیر اثر اسکی ترقی ہوئی۔ بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں اردو زبان کا بیسواں نمبر ہے، پاکستان کی یہ سرکاری زبان ہے جبکہ بھارت کی 32 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے۔

اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے،جبکہ ہندی دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے۔ کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ تاہم، دوسرے اِن کو معاش اللسانی تفرّقات کی بنیاد پر الگ سمجھتے ہیں۔ درحقیقت ہندی اردو سے ہی نکلی ہے۔

معیاری اُردو (کھڑی بولی) کے اصل بولنے والے افراد کی تعداد 60 سے 80 ملین ہے۔ ایس۔آئی۔ایل نژادیہ کے 1999ء کی شماریات کے مطابق اُردو اور ہندی دُنیا میں پانچویں سب سے زیادہ بولی جانے  والی زبان ہے۔ لینگویج ٹوڈے میں جارج ویبر کے مقالے: ‘دُنیا کی دس بڑی زبانیں’ میں چینی زبانوں، انگریزی اور ہسپانوی زبان کے بعد اُردو اور ہندی دُنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی چوتھی زبان ہے۔ اِسے دُنیا کی کُل آبادی  کا 4۔7 فیصد افراد بولتے اور سمجھتے ہیں۔ اُردو کی ہندی کے ساتھ یکسانیت کی وجہ سے، دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک دوسرے کو عموماً سمجھ سکتے ہیں۔

درحقیقت، ماہرینِ لسانیات اِن دونوں زبانوں کو ایک ہی زبان کے حصّے سمجھتے ہیں۔ تاہم، یہ معاشی و سیاسی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لوگ جو اُردو کو اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں وہ ہندی کو اپنی مادری زبان تسلیم نہیں کرتے، اور اِسی طرح جو ہندی کو مادری زبان تسلیم کرتے ہیں ان کے خیال میں اردو کوئی زبان ہی نہیں ہے یہ فارسی، عربی اور سنسکرت کا مجموعہ ہے جسے زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔

اُردو زبان کو پاکستان کے تمام صوبوں میں سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ مدرسوں میں اعلیٰ  ثانوی جماعتوں تک لازمی مضمون کے  طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ اِس نے کروڑوں اُردو بولنے والے پیدا کیے ہیں جن کی علاقائی زبانیں پنجابی، پشتو، سندھی، بلوچی، کشمیری، براہوی، چترالی وغیرہ ہیں۔ اردو پاکستان کی مشترکہ زبان ہے، جس کا خاصہ ہے کہ یہ ہر زبان سے الفاظ اپنے میں ضم کر لیتی ہے۔ اردو کا یہ لب و لہجہ بین الاقوامی طور پر پاکستانی اردو کہلاتا ہے۔

اُردو (یا جدید معیاری اردو) برصغیر کی معیاری زبانوں میں سے ایک ہے۔ یہ پاکستان کی قومی اور رابطہ عامہ کی زبان ہے، جبکہ بھارت کی چھ  ریاستوں کی دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ آئین ہند کے مطابق اسے 22 دفتری شناخت  والی زبانوں میں شامل کیا جاچکا ہے۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق اردو کو بطور مادری زبان بھارت میں 5۔01  فیصد لوگ بولتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ بھارت کی چھٹی بڑی زبان ہے جبکہ پاکستان میں اسے بطور مادری زبان 7۔59  فیصد لوگ استعمال کرتے ہیں، یہ پاکستان کی پانچویں بڑی زبان ہے۔ اردو تاریخی طور پر ہندوستان کی مسلم آبادی سے جڑی ہے۔

بعض ذخیرہ الفاظ کے علاوہ یہ زبان معیاری ہندی سے قابل فہم ہے جو اس خطے کی ہندوؤں سے منسوب ہے۔ زبانِ اردو کو پہچان و ترقی اس وقت ملی جب برطانوی دور میں انگریز حکمرانوں نے اسے فارسی کی بجائے انگریزی کے ساتھ شمالی ہندوستان کے علاقوں اور جموں و کشمیر میں اسے سنہ 1846ء اور پنجاب میں سنہ 1849ء میں بطور دفتری زبان نافذ کیا۔ اس کے علاوہ خلیجی، یورپی، ایشیائی اور امریکی علاقوں میں اردو بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیاء سے کوچ کرنے والے اہلِ اردو ہیں۔ 1999ء کے اعداد وشمار کے مطابق اردو زبان کے مجموعی متکلمین کی تعداد دس کروڑ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ اس لحاظ سے یہ دنیا کی نویں بڑی زبان ہے۔

ان تمام حقائق کو بیان کرنے کا مقصد دراصل یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک نجی کیفے کی دو خواتین مالکان نے اپنے ایک ملازم کی فلم بندی کی جس میں انگریزی زبان کا لب و لہجہ ٹھیک نہ  ہونے پر اس کی تضحیک کی گئی ہے اور پھر اس ویڈیو یا کلپ کو باقاعدہ وائرل کیا گیا ہے۔ حقیقت میں یہ وہ طبقہ ہے کہ جس پر لارڈ ماونٹ بیٹن کا بیان بلکل درست ثابت ہوتا ہے کہ:
“I want to leave brown bodies with white souls”
“یعنی میں ایسی نسل چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں جو رنگ و نسل کے اعتبار سے بھورے (براؤن) ہوں مگر ان کی ارواح سفید (وائٹ) ہوں”

ان تمام نام نہاد متاثرین انگریزی سے التماس ہے کہ عام حالات میں زبان کی تعریف کچھ اس طرح ہے کہ زبان اس ذریعہ گفتگو کو کہتے ہیں جسے استعمال کرکے آپ لوگوں تک پیغام رسانی کر سکیں یہ اردو، انگریزی، فرنچ، اٹالین، جرمن یا کوئی بھی زبان ہو سکتی ہے۔ کوئی زبان کسی دوسری زبان سے افضل یا برتر نہیں ہوتی ہے۔ یہ خاصہ بھی ہم محکوم اور نوآبادیاتی ممالک کو حاصل ہے کہ ہم انگریزی سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہیں۔ اگر کبھی کسی فرنچ، اطالوی، جرمن، جاپانی یا چینی کی انگریزی سننے کا اتفاق ہو تو اس قسم کے متاثرین انگریزی لا حول ولا قوۃ پڑھنے پر اتفاق کریں۔ اگر انگریزی زبان ہی تعمیر و ترقی کی علامت ہوتے تو چین، جاپان، سویڈن، ڈنمارک، فرانس، اٹلی، اور جرمن کبھی بھی ترقی نہ کر پاتے کیونکہ انکے ہاں تو درس و تدریس بھی اپنی مقامی زبان میں ہے۔
آخر میں ان نام نہاد متاثرین انگریزی کے نام ایک پیغام ہے:
“زندگی میں چند چیزیں آپ کا پیچھا کبھی نہیں چھوڑتیں رنگ، نسل، مذہب اور زبان اس لئے ان پر فخر کیجیے نا کہ ندامت و پشیمانی”۔

آخر میں ہندوستانی ہندی اور پنجابی فلم کی صنعت (انڈسٹری) کا شکریہ کہ انھوں نے اردو و پنجابی کو زندہ رکھا ہوا ہے، ہم تو عرصہ دراز سے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو چکے ہیں انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر۔
اردو زبان کی خدمت میں چند اشعار عرض ہیں:
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
از داغ دہلوی

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری
از الطاف حسین حالی

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے
اب سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے
از صدا انبالوی

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی
از روش صدیقی

مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
از منور رانا

Advertisements
julia rana solicitors

ابھی تہذیب کا نوحہ نہ لکھنا
ابھی کچھ لوگ اردو بولتے ہیں
از اختر شاہجہانپوری

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply