کوئی ہے؟ (۱۰)۔۔وہاراامباکر

جب سے نوعِ انسانی نے ہوش سنبھال ہے، زمین سے باہر کا کاسموس توجہ کا مرکز رہا ہے۔ کیا ہمارے گھر سے باہر بھی زندگی ہے؟ ذہانت ہے؟ بیسویں صدی سے پہلے غیرارضی ذہانت کا سوال صرف فلسفیانہ بحث یا قیاس آرائی تک محدود تھا۔ کورنیل یونیورسٹی کے دو فزسسٹ کوکونی اور موریسن نے 1959 میں پیپر شائع کیا جس میں انہوں نے دلائل دیے کہ اب ٹیکنالوجی اتنی ترقی یافتہ ہو چکی ہے کہ ہم دوسری تہذیبوں کی تلاش ریڈیو سگنلز کو ڈھونڈ کر کر سکتے ہیں۔ اس سے اگلے سال ریڈیو آسٹرونومر فرینک ڈریک نے پراجیکٹ اوزما شروع کیا جو مختصر مدت رہا لیکن اہم تھا۔ اس میں مغربی ورجینا میں ریڈیو ٹیلی سکوپ کی مدد سے یہ سننے کی کوشش کی کہ کوئی رابطہ کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا۔
اوزما نے غیرارضی ذہانت کے آثار دریافت نہیں کئے اور نہ ہی اس کے بعد آنے والے کسی پراجیکٹ نے ابھی تک کئے ہیں۔ اس پر سوویت یونین نے بہت کام کیا تھا۔ ناسا کا پراجیکٹ سائیکلوپس، ناسا کا پراجیکٹ فینکس، کیلے فورنیا یونیورسٹی کا پراجیکٹ سراندیپ۔ ایلن ٹیلی سکوپ ایرے جو 2007 سے کام کر رہی ہے، خلائی مخلوق کی تلاش کے لئے وقف ہے۔ کئی ملین لوگ اس میں سیٹی ایٹ ہوم کے ذریعے حصہ ڈال رہے ہیں۔ سینکڑوں ملین ڈالر، دہائیوں کی ایکٹو تحقیق جس میں سائنسدانوں کی کئی ٹیمیں اور کمپیوٹر ٹائم کے خرچ کردہ کروڑوں گھنٹے۔ ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ کیا یہ تلاش سائنس ہے؟
سیٹی (غیرارضی ذہین مخلوق کی تلاش کا پروگرام) سائنس کے کم از کم معیار پر تو پورا اترتا ہے۔ اس میں طریقے سے مشاہدات کئے جاتے ہیں۔ ستاروں کے ایسے نظاموں کی طرف توجہ ہے جہاں کچھ ملنے کی زیادہ امید ہے۔ ریڈیو فریکوئنسی اس لئے استعمال کی جا رہی ہے کہ خلائی مواصلاتی رابطوں کیلئے یہی مناسب ہے۔ اور یہ ممکن بناتا ہے کہ مرکزی ہائپوتھیسس کی ایمپریکل تصدیق کی جا سکے (یعنی ذہین زندگی موجود ہے)۔ جو شے اس پروگرام کو عام سائنس سے الگ کیٹگری میں کرتی ہے، وہ یہ نہیں کہ ابھی تک تصدیق نہیں ہوئی۔ لیکن یہ کہ ایسا کوئی اچھا طریقہ نہیں جو اس ہائپوتھیسس کو غلط ثابت کر سکے۔ یہ ایک بہت ہی بڑے بھوسے کے ڈھیر میں سوئی کی تلاش ہے جس کے بارے میں ہمیں پتا بھی نہیں کہ وہ سوئی ہے بھی یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ فالسیفائی کرنا سائنس اور غیرسائنس کو الگ کرنے کی کڑی شرط نہیں۔ کنفرمیشن کی بھی اپنی اہمیت ہے۔ اور یہ وجہ ہے کہ کسی ہایپتھوسس کو عام طور پر منفی نتائج کے باوجود بھی کامیابی کا موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ سیٹی میں ہم توقع ہی یہ رکھیں گے کہ زیادہ تر منفی نتائج ہی ہوں گے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ہی۔ خواہ اس کا مرکزی ہایپوتھیسس درست ہو بھی یا نہیں۔ اور یہاں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کب وہ وقت آئے گا کہ اس کے محققین کہہ دیں کہ اتنے زیادہ منفی نتائج اکٹھے ہو چکے ہیں کہ ہم اس مفروضے کو مسترد کر دیں کہ کوئی دوسری ٹیکنالوجیکل تہذیب موجود ہے؟ اگر اس کا جواب ہے کہ کبھی بھی نہیں، خواہ ایمپیریکل نتائج کچھ بھی نکلیں تو پھر یہ ہماری اس کاوش کو سوڈوسائنس والی لکیر کے قریب تو نہیں کر دیتا؟
اس مسئلے کو دیکھنے کا ایک اور طریقہ ہے کسی تحقیقاتی سرگرمی کو سائنسی ہونے کے لئے ایک اور عنصر کی ضرورت ہے۔ ہمیں تھیوری کی ضرورت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم کرنا ہے کہ اس پروگرام کا تصوراتی پس منظر کیا ہے؟ کیا یہ صرف امید کا پروگرام ہے کہ ہمیں کچھ مل جائے گا؟ یہ پیچیدہ سوال ہے۔ ہم اس کی زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے لیکن تھیوریٹیکل حصہ اس کے پیچھے موجود ہے۔ لیکن اس حصے پر اعتراضات دکھاتے ہیں کہ ہم اس پروگرام پر کم از کم شک ضرور کر سکتے ہیں کہ اگر یہ سوڈوسائنس نہیں تو یہ وقت اور ذرائع کا ضیاع ہے۔ اس کا تھیوریٹکل حصہ ڈریک مساوات اور فرمی پیراڈوکس پر مشتمل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈریک نے ایک مساوات لکھی تھی تا کہ غیرارضی مخلوق کی تلاش پر ہونے والی کانفرنس کیلئے اپنے سوچ کو ترتیب دے سکیں۔ یہ مساوات جلد ہی اس پروگرام کا تھیوریٹیکل اصول بن گیا۔
N = R* × fp × ne × fl × fi × fc × L
اس مساوات کا اردو میں مطلب یہ کہ “ہماری اپنی کہکشاں میں کتنی تہذیبوں سے رابطہ ہو سکتا ہے؟” کا جواب ستاروں کے بننے کی اوسط رفتار، ان ستاروں میں سے کتنے کے گرد سیارے ہو سکتے ہیں، کس تناسب سے سیارے زندگی سپورٹ کرنے کی اہلیت رکھ سکتے ہیں۔ کیا تناسب ہو گا کہ ان میں سے کسی میں زندگی شروع ہو جائے، کیا تناسب ہے کہ زندگی ذہین ہو جائے، کیا تناسب ہے کہ وہ خلائی سگنل بھیجنے کے قابل ہو جائے، اور ان کو ذہین ہوئے کتنی دیر ہوئی ہے۔
اس مساوات کو غور سے دیکھتے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ اس کے تقریباً تمام ویری ایبل کا تخمینہ ناممکن یا کم از کم انتہائی مشکل ہے۔ اور اس کا جواب کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ ڈریک نے جو اعداد استعمال کئے تھے، ان کا جواب 10 نکلا تھا۔ یعنی کہکشائی ایڈریس بُک پتلی سے ہے لیکن اتنی ضرور ہے کہ پروگرام کی تک بنتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسٹرونومر ڈریک مساوات کے کچھ ویری ایبل کے بارے میں پیشرفت کر چکے ہیں۔ خاص طور پر ستاروں کے بننے کے ریٹ پر اور سب سے زبردست دریافت غیرارضی سیاروں کی ہے۔ اگر ڈریک کے استعمال کردہ دیگر اعداد میں ان دونوں کو اپڈیٹ کیا جائے تو یہ عدد بڑھ کر 1125 پہنچ جاتا ہے۔
لیکن اس مساوات میں مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو اس پر بات کرنے سے پہلے ہمیں “زندگی” کی تعریف کرنا ہو گی۔ اس بارے میں ہمارے ان کہے مفروضے ہیں اور ہم زندگی کو اپنے عکس میں دیکھتے ہیں۔ سیٹی کے محققین کہیں گے کہ اس طرح تو زندگی کی دوسری صورتوں کے امکان کی وجہ سے تو اس کے ملنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ڈریک مساوات کی افادیت مزید کم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اب نہ صرف زندگی کی ہی تعریف نہیں بلکہ زندگی کے لئے قابلِ رہائش جگہ کی تعریف بھی مدہم ہو جاتی ہے۔ قابلِ رہائش کے حالات کا اندازہ لگانے کے لئے ہمارا پاس تمام کہکشاں میں سیمپل سائز “ایک” کا ہے۔
نہ ہی ہمیں معلوم ہے کہ زندگی کی ابتدا کا امکان کیا ہے، نہ ہی ہمیں معلوم ہے کہ متجسس ذہانت کی آمد کا تخمینہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ نہ ہی اس کا کوئی اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ذہین مخلوق ریڈیو سگنل بھیجنے کی ٹیکنالوجی ڈویلپ کرنے میں دلچسپی رکھنے کا کیا امکان دکھائے گی۔ اور نہ ہی یہ پتا ہے کہ اگر ایسی مخلوق کہکشاں میں بالفرض وجود میں آ گئی تو ایسی تہذیب کتنی دیر باقی رہ پائے گی (اس معاملے میں ہمارا سیمپل سائز صفر ہے کیونکہ خوش قسمتی سے ابھی تک ہم نے کسی بھی ٹیکنولوجیکل تہذیب کی معدومیت کا مشاہدہ نہیں کیا)۔
اس سب کے بغیر ہم اتفاق کر سکتے ہیں کہ مستقبل قریب میں کسی بھی قسم کے باخبر اعداد اس مساوات میں لگانے کی امید عبث ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی آئندہ آنے والی کسی ٹیکنالوجی سے اس کو بہتر کیا جا سکے (مثلاً، انٹر سٹیلر خلائی سفر) لیکن نہ صرف ایسی ٹیکنالوجی سے ہم بہت دور ہیں بلکہ ایسا ممکن ہے کہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ ایسی ٹیکنالوجی خود ہی ممکن نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ ایک اور ان کہا مفروضہ اس پورے پراجیکٹ کے پیچھے یہ ہے کہ غیرارضی ذہانت کی نفسیات ہماری طرح کی ہو گی۔ ذہین مخلوق تہذیب بھی بنائے گی اور وہ تہذیب ٹیکنالوجی بنائے گی اور پھر وہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے پیغام بھیجے گی تا کہ دوسروں سے رابطہ کیا جا سکے۔ “کیونکہ ہم کرتے ہیں” یہ بہت کمزور مفروضہ ہے۔ اور اگر انسانی نفسیات سے ہی راہنمائی حاصل کرنا ہے تو زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔ ہم خلائی مخلوق کے سگنل پر کان تو لگائے بیٹھے ہیں لیکن خود سگنل نہیں بھیج رہے۔ صرف ایک بار اٹھائیس منٹ کا ریڈیو سگنل پیورٹو ریکو کی ایک رصدگاہ سے بھیجا گیا تھا۔ اس کی منزل ہرکولیس نامی ستاروں کا جھرمٹ تھا جو پچیس ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ کیا وہاں سے جواب آئے گا؟ اگر بالفرض آیا تو شاید اس کا جواب سننے کے ہم خود بھی باقی نہ ہوں۔
سگنل بھیجنے کے لئے ہماری سیاسی وِل نہیں اور فنڈنگ نہیں لیکن سب سے بڑا فیکٹر یہ ہے کہ کچھ بھی حاصل ہوتا نہیں لگتا۔ جبکہ اس کے برعکس اگر ہمیں کبھی سگنل موصول ہو گیا تو یقینی طور پر یہ بہت ہی بڑی خبر ہو گی۔ خواہ پیغام کچھ بھی ہو۔ اس سے ہونے والے نتائج نفسیات، فلسفے اور تھیولوجی میں تہلکہ مچا دیں گے۔ مثال کے طور پر، جتنا آج ہم بائیولوجی کے بارے میں جانتے ہیں تو ایسا صرف ایک سگنل ہی اس بات کا بڑا ایویڈنس ہو گا کہ زندگی اور ہمارا وجود محض اتفاق نہیں، کائناتی کیمسٹری اس کے لئے rigged ہے۔ جبکہ پیغام بھیج دینے میں کچھ بھی ایسی ترغیب نہیں۔
تو اگر غیرارضی ذہانت کی نفسیات ہماری طرح ہی ہوئی تو پیشگوئی یہ ہے کہ ہمیں کائناتی سلام جلد موصول نہیں ہو گا۔ یا شاید، کبھی موصول نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اطالوی فزسسٹ فرمی نے 1950 میں ذہین مخلوق پر بحث کر رہے تھے جہاں پر تمام شرکا کا خیال تھا کہ بے شمار تہذیبیں کائنات میں موجود ہونی چاہییں۔ فرمی نے اس ساری بحث میں ایک سادہ سا اور اہم ترین سوال پوچھا، “تو پھر سب کہاں ہیں؟”۔ (یہاں پر نوٹ کرنے والی دلچسپ بات یہ ہے کہ فرمی پیراڈوکس اور ڈریک ایکوئشن دونوں ہی ساٹھ سے ستر سال قبل کے ہیں۔ یہ وقت خلائی مہم جوئی کے بارے میں optimism کا عروج تھا)۔
فرمی کا سوال یہ تھا کہ اگر ذہین زندگی کائنات میں عام ہے تو کچھ نشان نظر آنے چاہییں۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو یہ خود ہی ایک مضبوط مشاہدہ ہے کہ ہم اکیلے ہی ہوں گے۔ فرمی کا سوال مذاق میں لگے لیکن یہ وزنی ہے۔ پہلے تو یہ کہ زمین مقابلتاً ایک بہت نوجوان سیارہ ہے۔ دوسرے ان گنت مقامات ہیں جہاں زندگی کو پنپنے کا اربوں سال کا اضافی وقت ملا ہو گا۔ کسی ٹیکنولوجیکل تہذیب کو جتنا بھی وقت لگ جائے لیکن ایک بار وہ قابلیت حاصل کر لے تو ایسی کوئی وجہ نہیں کہ محض چند کروڑ برس میں یا زیادہ سے زیادہ بھی چند ارب سال میں وہ کہکشاں کے ہر کونے تک نہ جا پہنچے۔ ایسا نہیں ہوا۔ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی کوئی تہذیب نہ ہے اور نہ تھی۔ اس لئے صرف ہم ہی ہیں۔ (حالیہ برسوں میں نظامِ شمسی سے باہر سیاروں کی بے شمار دریافتیں فرمی کی اس دلیل کو مزید وزنی بنا دیتی ہیں)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرمی کا یہ پیراڈوکس اتنا سنجیدہ لیا جاتا ہے کہ اس کی وضاحت دینے کی کاٹیج انڈسٹری ہے۔ بہت سی وضاحتیں کی جاتی ہیں لیکن ۔۔۔۔ مثلاً، سفر بہت مہنگا ہے اور ہمت چاہیے۔ ایک اور وضاحت یہ ہے کہ خلائی مخلوق ہمارے گرد ہے لیکن ہمیں نیچر preserve کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ہمارا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ تہذیب کیسے بنتی ہے۔ ہمیں اس کا پتا نہیں۔ اس کے ثبوت کیلئے اڑن طشتریوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ “وہ” آتے رہتے ہیں۔ ایک اور وضاحت ہے کہ ذہین مخلوق اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ جسمانی وجود سے نجات پا چکی ہے اور صرف شعور کے طور پر وجود رکھتی ہے جس کا ہم مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ (ایسی بہت سی دیگر وضاحیتیں ہیں)۔
ہمارے لئے دلچسپی کی بات یہ ہے کہ ان سب میں، بشمول فرمی پیراڈوکس کے، سائنس کی بو نہیں آتی۔
فرمی کا پیراڈوکس خود ہی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ غیرارضی ذہانت نہ صرف ہمارے عکس کی ہے بلکہ ویسی ہی متجسس اور مہم جو بھی ہے۔ دوسرا مسئلہ اس کا اپنا منطقی سقم ہے۔ بالفرض کوئی اور غیرارضی ذہانت ہے اور بالکل ہماری طرح ہے اور بالکل ہمارے جیسی سٹیج پر ہے۔ اور وہاں پر ایک فرمی گفتگو میں ساتھیوں کو کہتا ہے کہ “تو پھر سب کہاں ہیں”۔ کیا اس والے فرمی نے ہمارے وجود کی نفی کر دی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان سب مسائل کی موجودگی میں اب سیٹی کو کس حد تک سائنسی کہا جائے؟ سٹرنگ تھیوری یا کوانٹم مکینکس کی مختلف تشریحات کے برعکس سیٹی میں طریقے سے مشاہدات کئے جا سکتے ہیں۔ کم از کم یہ ممکن ہے کہ اس ایمپریکل ٹیسٹ سے مرکزی ہائپوتھیسس کی تصویق ہو سکتی ہے۔ لیکن ایسا ہونے کا امکان انتہائی کم ہے۔ اور اس کا صرف مشاہداتی بنیاد پر رد ہونے کا تو کوئی امکان ہی نہیں۔ اس کے پیچھے ایک چھوٹی سے تھیوری تو موجود ہے لیکن یہ مین سٹریم سائنس کی طرح نہیں اور اس میں تصوراتی نقائص بڑے ہیں۔ اور یہ مزید خراب اس وقت ہو جاتا ہے کہ اس بارے میں بحث کو کہانیاں ہائی جیک کر لیتی ہیں۔ مفروضاتی منظرنامے جن کی تصدیق کا امکان نہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ ہمارے لئے ایک اہم ترین سوال کی کھوج ہے جس کا کوئی اور طریقہ ہمیں معلوم نہیں۔
اس سائنس اور نان سائنس (کچھ کے مطابق سوڈوسائنس) والی نازک جگہ پر براجمان صرف غیرارضی ذہانت کی تلاش کی سائنس ہی نہیں۔
اس کی اگلی مثال بائیولوجی سے ہے اور اس میں بھی سیٹی والے چند مسائل شامل ہیں کیونکہ یہ ایک اور ذہانت کے بارے میں ہے۔ یہ ہماری اپنی ذہانت ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply