کاکولی نظام یا جمہوریت۔۔عامر کاکازئی

جوبائیڈن، جو کہ امریکہ کے حالیہ صدر منتخب ہوۓ ہیں، ان کی کابینہ میں 19 امریکن انڈین اوریجن لوگ ہیں ان میں نائب صدر کملہ دیوی بھی شامل ہے۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیا یہ کسی پیر کے جنوں نے ان انڈینز کو کیبنٹ کا حصہ بنا دیا یا پھر پچھلے  سال میں واحد اسلامی ملک پاکستان کے خلاف یہ کوئی یہودی، ہندو یا نصرانی سازش ہے؟  پچاس کی دہائی میں جب امریکی حکومت نے دونوں نئے ممالک انڈیا اور پاکستان سے پوچھا کہ امریکہ ان کے لیے کیا کر سکتا ہے تو نہرو نے اپنے ملک کے طالب علموں کے لیے امریکہ میں پڑھنے کے لیے سکالرشپ مانگی، اس اسکالر شپ کا نام ہے، فل برائیٹ نہرو ماسٹر فیلو شپ۔ جبکہ ہمارے پہلے ڈکٹیٹر جنرل ایوب صاحب نے شکریہ امریکہ کی تختی گلے میں ڈال کر گندم اور اسلحہ لیا اور  اپنا ملک امریکہ کو پٹے پر دینے کی بنیاد رکھی۔

80 کی دہائی میں جب مسلمانوں کے خلیفہ ڈکٹیٹر جنرل ضیا  نے راجیو گاندھی کو ایٹم بم سے اُڑانے کی دھمکی دی اور پاکستان کو امریکہ/برٹش ایجنڈہ مکمل کرنے کے لیے دہشتگردوں کے حوالے کیا تو اس وقت راجیو گاندھی نے انڈیا میں  آئی ٹی کی تعلیم کی بنیاد رکھی۔

اکیسوی صدی کی پہلی دہائی میں جب جنرل مشرف نے ملک کو بدامنی اور خود کُش حملہ آوروں کے حوالے کیا، ملک کو غزوہ ہند کے لیے تیار کرنا شروع کیا تو اس وقت انڈین پرائم منسٹر من موہن سنگھ نے انڈیا میں ٹیکنیکل اور ریسرچ یونیورسٹیز کی بنیاد رکھی۔ راجیو گاندھی کے بعد یہ دوسرا آئی ٹی انقلاب تھا جس کی وجہ سے  آج انڈینز آئی ٹی پر چھاۓ ہوۓ ہیں۔ آج 2021 میں دنیا کے سب سے پاور فل اور واحد سُپر پاور کی کیبنٹ میں19  انڈینز ہیں۔ یہ کارنامہ صرف اور صرف انڈین حکومت کا تعلیم کو ترجیح دینے کی وجہ سے ہوا۔اب پڑھنے والے خود فیصلہ کریں کہ

کس کی پالیسیاں ٹھیک تھیں؟ پاکستانی ڈکٹیٹرز کی یا انڈین سیاسی لیڈرز کی؟

کون سا حکومت کرنے کا سسٹم ٹھیک ہے؟ ڈکٹیٹرز کا مارشل لا یا جمہوریت؟

ان ملٹری ڈکٹیٹرز نے اپنے مفاد کی خاطر ملک کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ پاکستان کی اس دنیا میں نہ کوئی عزت ہے نہ کوئی رعب و دبدبہ۔ کبھی بیرون ملک میں زبردستی پاکستان کا جہاز ضبط کر لیا جاتا ہے یا پھر کبھی ایمبیسی کے بینک اکاونٹس فریز کر دیے جاتے ہیں۔کبھی برٹش کورٹس پاکستان کے نیویارک اور پیرس میں ہوٹل فریز کر دیتے ہیں۔ پورے عرب میں پاکستانیوں کے لیے  نوکریاں  بند ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں کوئی پاکستانی یہ سوچے یا سمجھے کہ اس دنیا میں ہمارا وقار باقی ہے تو یہ ایک خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ پشتو کی ایک مثال ہے کہ

“دہ خوار ملا پہ بانگ سوک ‘جل جلالہ’ ھم نہ وائی”

Advertisements
julia rana solicitors

ہم پاکستانیوں کی حالت اس وقت کموڈ پر بیٹھے اس شخص کی طرح ہے جسے کوئی یہ کہے کہ “چل اُٹھ اوئے، دوسرے مریخ پر پہنچ گئے  ہیں، اور تو ادھر ہی بیٹھے  کا بیٹھا رہ گیا ہے؟ مدینہ ثانی کے خلیفۃ المسلمین، پاکستان کی بحیثیت ایک ملک کے، ناکامی کا سارا ملبہ سیاست دانوں پر ڈال کر شطر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کر مطمئن ہو جاتے ہیں مگر حقیقت میں بقول فقیر راحموں یہ وہ سچ ہے، جس کے ساتھ اگر کوئی ریاست اپنے سچ کے ساتھ زندہ رہے تو زندہ رہتی ہے۔ ورنہ تاریخ اسے کھا جاتی ہے۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply