تامل ٹائیگرز کے دیس میں (ساتواں حصہ)۔۔۔خالد ولید سیفی

ہماری اگلی منزل سری لنکا کا وسطی شہر کیننڈی تھا۔ عرفان حسب معمول صبح سویرے ہی پہنچ چکا تھا، ناشتے سے فارغ ہو کر ہم کیننڈی کےلیے روانہ ہوئے، موسم آج بھی دلکش تھا، بادل برسنے کو بے تاب تھے، جیسے انہیں ہمارے شہر چھوڑنے کا انتظار ہو، کچھ ہی دیر بعد ہم کولمبو سٹی کو پیچھے چھوڑ گئے، شہر کے مضافاتی علاقوں میں گاڑی رواں دواں تھی، جگہ جگہ سڑک کنارے پھلوں کے ٹھیلے لگے تھے جن میں اناناس کے تازہ گوشے قدم روکنے لگے، ایک ٹھیلے پر گاڑی روک دی اور اناناس کھائے، پہلی بار درخت کا اناناس ملا تھا اس سے قبل ڈبوں میں پیک اناناس ہی کھاتے تھے، وہ بھی کبھی کبھی۔

بوندا باندی شروع ہو چکی تھی، دورویہ سڑک کے کنارے درختوں کے جھنڈ، سبزہ زار اور خوش رنگ پھولوں کی قطار بارش کی ہر بوند کو اپنی بانہوں میں لے رہے تھے، سڑک زیادہ کشادہ نہ تھی لیکن معیار اچھا تھا، اور صفائی تو سری لنکا میں نصف ایمان ہے، اس لیے سڑک ہو یا گلیاں یا زندگی کا کوئی شعبہ، صفائی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، اپنے ہاں صرف ہاتھ کی صفائی پر توجہ ہوتی ہے باقی اللہ اللہ خیر صلا۔۔۔

ہمارے ڈرائیور عرفان کی خواہش تھی کہ راستے میں ان کا آبائی علاقہ آتا ہے اس میں چند لمحے گزارے جائیں، ہم نے اس خواہش کا احترام کیا، عرفان بتاتا رہا کہ وہ یہاں اپنا مکان تعمیر کر رہا ہے، تنگدستی کی وجہ سے کام سست رفتاری کا شکار ہے اور التوا کے وقفے کبھی بہت زیادہ طویل ہو جاتے ہیں اور کبھی بندہ مزدور کے اوقات کی طرح تلخ بھی۔

ہم سمجھ رہے تھے عرفان ہمیں اپنے گھر لے جائیگا اور نامکمل مکان دکھا کر ہم سے کچھ امید باندھے گا، لیکن گاڑی سیدھا معذور بچوں ( اسپیشل بچے) کے ایک ادارے میں جاکر رکی، مسکراہٹوں کے تبادلے کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا گیا، وہ لوگ عرفان کو جانتے تھے، ادارے کی سربراہ ایک خاتون تھیں جو بڑے تپاک سے ملیں، ٹوٹی پھوٹی اردو میں اور کچھ اشاروں کنایوں میں آپس میں گفتگو رہی۔ عرفان ان سے بہتر اردو بول لیتا تھا۔۔البتہ “آنے کا جانے کا” ان میں قدر مشترک تھا۔

پندرہ سے بیس منٹ ہم نے اس ادارے میں گزارے، کچھ اسپیشل بچے آئے، جن میں سے کچھ نابینا تھے جنہوں نے سامنے رکھی  کتاب  پر انگلیوں کی مدد سے پڑھا، کچھ دیگر جسمانی بیماریوں کے شکار تھے، ان بچوں کی تعلیم و تربیت، رہائش اور کھانے پینے کے تمام تر انتظامات ادارے کے ذمے تھا۔

معذور بچے زندگی کے تمام رنگ تو نہیں دیکھ پاتے ہیں، یا انہیں اپنا نہیں سکتے ہیں، لیکن اگر انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے، ان کی تعلیم و تربیت یا خصوصی دیکھ بھال نہ ہو تو ان کی زندگی اپنے لیے بھی بوجھ بن جاتی ہے، ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے جو اس طرح کے بچوں کو خصوصی نگہداشت میں رکھیں، ایسے ادارے جو فلاح انسانیت کے لیے کام کرتے ہیں لائق ستائش ہیں۔ دوسرے انسانوں کے درد کو محسوس کرنا ہی انسانیت کی معراج ہے پاکستان بھی اس حوالے سے بہتر ہے کہ یہاں فلاحی کام منظم انداز میں کیے جاتے ہیں۔

یہاں سے دعائیں لے کر رخصت ہوئے اور اسی محلے میں کچھ دیر ایک ڈھابے میں بیٹھ کر چائے پی، یہ عرفان کی فرمائش تھی، وہ ڈھابہ بھی شاید ان کے کسی کزن یا رشتہ دار کا تھا، اس دوران کافی سمے بیت گیا، تاہم ہمیں کوئی جلدی نہیں تھی، سفر کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ صرف بڑے شہروں کی بلند و بالا عمارتوں اور شہری اژدھام میں وقت گزار دیا جائے، بلکہ سفر میں شہری زندگی کے علاؤہ قصبوں اور دیہاتوں کی زندگی کو بھی قریب سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ یہ طرز زندگی ہی اپنے ملکوں کی نمائندہ ہوتی ہیں۔

قصبوں اور دیہاتی زندگی کی نفسیات، رہن سہن، رویے، اور دیگر بہت کچھ۔۔ کتاب کی طرح ہیں جو اس ملک سے متعلق آپ کی رائے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتے ہیں، اتنی باریک بینی میں جانے کا ہمیں بھی موقع نہ تھا لیکن کوشش رہی کہ کہیں جلد بازی کا مظاہرہ نہ ہو۔

کیننڈی کی جانب ہمارا سفر جاری تھا، مگر ہم ٹہر ٹہر اور رک رک کر جارہے تھے، موسم نے سفر کے مزے کو دوبالا کردیا تھا، فطرت موسم سے ہم کلام تھا اور موسم ہم سے محو گفتگو تھا۔ اور عرفان سڑک پر نظریں جمائے اپنی دھن میں مگن چلا جا رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply