عرب میں اونٹوں سے گاڑی تک کا سفر ۔۔منصور ندیم

سعودی عرب دنیا میں ان چند ممالک میں آتا ہے جہاں دنیا کی جدید ترین اور مہنگی ترین گاڑیاں اور ملک کی مجموعی آبادی سے زیادہ گاڑیاں موجود ہیں، سعودی عرب میں تیل سے چلنے والی جدید گاڑیوں سے پہلے نقل و حمل کے لئے اونٹوں کو بطور سفر کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، اور سعودی عرب کے مؤرخین کے مطابق سعودی عرب میں پہلی گاڑی 1340 ہجری میں داخل ہوئی تھی، یعنی آج سے قریب 102 برس پہلے، یہ گاڑی شاہ عبدالعزیز آل سعود مملکت سعودی عرب کے قیام سے 11 سال قبل لائے تھے۔ اُس وقت آج کے سعودی حکمرانوں کے آباء سلطانِ نجد کے خطاب کے حامل تھے، سعودی عرب متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستوں کی حکمرانی میں منقسم تھا۔

صحرائے حجاز میں 1345 ہجری کے آغاز کے ساتھ ہی کئی اور بھی مقامات پر گاڑیاں دیکھنے میں آنے لگیں اور یہ اونٹ کے بدلے آ

مدورفت کا ایک اہم ذریعہ بن گئیں جو اُس زمانے میں نقل و حمل کے لیے سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والا ذریعہ تھا۔ لیکن اس وقت گاڑیاں صرف امراء کے پاس تھیں۔ عام شخص گاڑی خریدنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

سعودی عرب کے مورخین کے مطابق سعودی عرب میں پہلی گاڑی جنوب شمالی شہر حائل میں ہوا تھا اس کے بعد مکہ مکرمہ میں اور پھر ریاض میں ہوا۔ سعودی عرب کے بانی نے پہلی مرتبہ گاڑی کا استعمال سنہ ہجری 1341 میں کیا ٹھا، اور ابتدا میں سعودی عرب میں استعمال ہونے والی مشہور ٹریڈ مارکوں گاڑیوں میں Diamond T ، International اور Ford کی گاڑیاں شامل رہیں۔

سعودی عرب میں اونٹوں اور گھوڑوں کی  نقل و حمل کے بعد اس نئے ذرائع کے آنے کے بعد بعض لوگوں نے اپنی ملکیت ثابت کرنے کے لیے گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کو محفوظ رکھا۔ ان میں سے کئی عجیب عجیب نمبروں کی یاد گار نمبر پلیٹ آج بھی محفوظ ہیں، جن میں ایک نمبر پلیٹ پر دو تلواروں اور کھجور کے درخت کی علامت موجود ہے۔ اس کے علاوہ آل سعود کے ساتھ مخصوص اونٹ کی علامت کی حامل نمبر پلیٹ بھی محفوظ ہے۔

سعودی عرب میں قبائل اور خاندان اونٹوں کو مخصوص قبائل یا خاندانوں کے ساتھ مخصوص علامتوں کا نام دے دیتے تھے جو ہر خاندان یا قبیلے کو معلوم ہوتا تھا۔ ایک شخص کے پاس محفوظ گاڑی کی نمبر پلیٹ پر آل سعود کے اونٹ کی علامت موجود ہے۔ یہ علامت olo کے نام سے موسوم ہے۔ ایسے ہی ایک نمبر پلیٹ پر 36 کا عدد لکھا ہوا ہے جس کے بارے میں بعض مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ 36 ویں گاڑی تھی جو اُس وقت سعودی عرب میں منگوائی گئی تھی۔

گاڑیوں کی آمد کے ابتدائی دور میں گاڑیوں سے کئی عجیب واقعات بھی منسوب ہیں۔ سعودی عرب کے صحراء میں جب پہلی مربتہ گاڑی کو چلتے ہوئے دیکھا گیا تو کئی قبائلی مقامی لوگ اسے کوئی جنّاتی شے سمجھ کر اُس سے دور بھاگ جاتے تھے۔ کچھ لوگوں نے جب ابتدا میں گاڑیاں لی تو ان کے ملازمین نے ان گاڑیوں کو کھلانے کے لئے چارہ اور پانی رکھنے کی کوشش کی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سنہ ہجری 1350 کی دہائی میں سعودی عرب میں گاڑیوں نے مکمل طور پر اونٹ کے متبادل کی جگہ لے لی تھی اور وہ پورے سعودی عرب کے تمام علاقوں میں نظر آنے لگی۔ سنہ ہجری 1370 کی دہائی میں سعودی عرب میں پیٹرول نکلنے کے بعد جب معاشی حالات بدلنے لگے تو ہر خاص و عام شہری کے پاس گاڑیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہونے لگا اور بعض لوگ تو “مشوار ” نامی گاڑی میں لوگوں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے تک پہنچانے لگے۔ “مشوار” بطور ٹیکسی کے متبادل لفظ استعمال ہوتا ہے، آج کے سعودی عرب میں تقریباً  ہرشخص کے پاس ہی گاڑی موجود ہے، پھر بھی یہاں لیموزین (ٹیکسی) بھی غیر ملکیوں کی سہولت کے لئے ہیں۔ پیٹرول سستا اور گاڑیوں پر ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے غیر ملکی افراد بھی کم و بیش ذاتی گاڑی با آسانی رکھ لیتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply