• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ظلمت سے نور کا سفر(قسط8)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

ظلمت سے نور کا سفر(قسط8)۔۔۔محمد جمیل آصف ،سیدہ فاطمہ کی مشترکہ کاوش

کچھ جہد مسلسل سے تھکاوٹ نہیں لازم
انسان کو تھکا دیتا ہے کچھ سوچوں کا سفر بھی

آج کل اس کا مسئلہ اوور تھنکنگ ہی تھا، زندگی اس موڑ پر آ جائے گی کبھی اسے اندازہ نہیں تھا ۔اس عمر میں اس کی ہم عمر لڑکیاں  آنکھوں  میں خواب سجاتی ہیں ۔  کسی ایسے درخت کی تلاش میں ہوتی ہیں جس کے ٹھنڈے سائے، ذائقہ دار پھل اور مضبوط تنے کے نیچے،وہ زندگی کو حالات کے سرد وگرم سے محفوظ رکھ سکیں۔
اور اسے تو پہلے ہی اندیشوں کی امر بیل نے جکڑ لیا ۔

بے آرامی اور کچی نیند نے اس کی دماغی حالت کو متاثر تو کیا ہی، اس کے خواب بھی ٹین ایج لڑکیوں والے نہیں رہے ۔

“اتنا پانی آ رہا ہے ۔وہ دریا کنارے موجود اپنے خوبصورت سے گھر میں بیٹھی تھی ۔جب زور دار آوازیں اسے سنائی دیں ۔دل گھبرایا، ہاتھ پاؤں پھولنے لگے اور فوراً باہر پناہ کے لیے دوڑی ۔
اسے لگا کہ یہ تو طوفان نوح ہے ۔ڈوبتے لوگ بلکتے بچے، تنکوں سے سہارا لیتے بزرگ، جسموں سے نظر آتے صرف ہاتھ، خواتین کی چیخ و پکار اور نوجوان کی زندگی کے لیے جدوجہد نے اس کی رہی سہی ہمت توڑ دی ۔
زورسے چلانے لگی” بچاؤ بچاؤ”۔۔
کمرہ اس کی زور دار چیخوں سے گونجنے لگا ۔۔
” کیا ہوا ضوئی؟ ”
ضحی کی والدہ فکرمندی سے اسکے کمرے کی طرف دوڑی ۔
ریشماں بےزاری کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہوئی
” موصوفہ کے ڈرامے ”
زیرِ  لب اسے صلواتیں سنانے لگی ۔
ہمیشہ کی طرح لاپرواہ اس کا والد بھی آن پہنچا ۔۔
” کیا ہوا تمھیں کیوں چیخ رہی ہو”
ضحیٰ نے آنکھ کھولی اور اردگرد سب کو دیکھا ۔
“آہ! یہ خواب تھا،
توبہ اتنا بھیانک خواب”
اس کی دل کی دھڑکن بے لگام گھوڑے کی طرح  دوڑ  رہی تھی ۔اور پورا  جسم ایسے بھیگ چکا تھا جیسے وہ تیز بارش میں کھڑی ہو ۔ سینے کی جلن نے اس کی طبیعت کو اذیت میں الگ مبتلا کردیا تھا ۔ اس کا جسم بے جان تھا باوجود کوشش کے نہ وہ بول پا رہی تھی ۔نہ  ہی وہ جسم کے کسی حصے کو ہلا رہی تھی ۔خوف نے اسے جکڑ لیا ۔
“اُف  مجھے کیا ہو رہا ہے کیا میں مر چکی ہوں  ۔”
ایک احساس نے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ پیدا کی ۔
اور وہ بنا کسی کو جواب دئیے اپنے حواس کھو بیٹھی۔۔۔
پھر جب اسکی آنکھ کھلی تو اس نے سفید چھت دیکھی ۔۔۔ پھر آنکھیں زور سے میچ لیں اور پھر کھولیں، آس پاس دیکھا ، پانچ بیڈ، جن میں سے دو ہی بیڈ خالی تھے۔۔ اور ڈاکٹر بھی سرگوشی میں بات کررہے تھے ۔۔ اوہ ۔۔ وہ پھر سے ہسپتال کی ایمرجنسی میں تھی۔۔ شاید اسکی طبیعت زیادہ خراب ہو گئی تھی کہ اماں اسے پرائیویٹ ہسپتال میں لائیں تھیں۔۔ بازو سن ہوچکے تھے۔۔ اس نے بازو پر لگی ڈرپ کو دیکھا اور یاد کیا کہ کیا ہوا تھا۔۔ بُرا خواب۔۔۔۔۔ اس  نے بہت بُرا خواب دیکھا تھا۔۔ لیکن کہیں وہ سچ تو نہیں تھا میں دھماکے میں تو نہیں تھی میری آنکھیں،بازو ،ٹانگیں سب ٹھیک ہے ؟؟ سوچتے ہوئے لاشعوری طور پر وہ تھر تھر کانپنے لگی کہ ڈاکٹر کی توجہ اس پر مرکوز ہوگئی۔۔ اور وہ اسکی طرف آگئی۔۔
“ضحی اب آپ کیسا محسوس کر رہی ہیں”؟

ضحی نے سوچا جلدی سے سب پوچھ لیا جائے  اور ایک ہی سانس میں کئی سوال داغ دیے۔۔” میں کہاں ہوں۔۔مجھے کیا ہوا تھا۔۔ وہ خواب تھا یا سچ۔۔ میرے گھر والے کہاں ہیں ۔۔”؟
ڈاکٹر نے پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ “ضحی آپ پُر سکون ہو جائیں ۔۔ آپ ایک انتہائی اچھے ہسپتال کی ایمرجنسی روم میں ہیں۔ آپکے گھر والے باہر بیٹھے ہیں۔ آپکا شگر لیول اور بی پی ڈاؤن تھا اور آپ کو سلیپ پیرالائسزز ہوا جسکی وجہ سے  آپ کی آنکھ نہیں کھلی اور آپکے گھر والے آپکو یہاں لائے۔۔ آپ ٹھہریں ۔۔ پہلے آپ سے ڈاکٹر سفینہ نور بات کریں گی  وہ ہماری سائیکالوجسٹ ہیں۔پھر آپ اپنے گھر والوں کے ساتھ جاسکتی ہیں”
ضحی کی سمجھ میں آدھی باتیں آئیں ہی نہیں اور وہ ڈاکٹر کا انتظار کرنے لگی۔۔ تاکہ جلدی سے گھر جائے ہسپتال کا ماحول اور  ایک مخصوص خوشبو اسے مزید پینک کر رہی تھی۔۔
دروازہ کھلا اور ایک ڈاکٹر اندر آئیں ۔۔ انکے ہاتھ میں ایک فائل تھی اور ایک پین تھا۔۔ ضحی کے قریب چئیر پر بیٹھ گئیں ۔۔ ضحی کی ہتھیلیوں میں پسینہ اتر آیا اب یہ پوچھ گچھ کریں گی اُفف۔۔۔
ڈاکٹر نے نام ،عمر اور پیشہ پوچھنے کے بعد اسکی طبیعت پوچھی۔۔ ساری علامات بتانے کو کہا اور ضحی کے بتانے کے ساتھ ساتھ وہ کاغذ پر کچھ لکھتی جارہی تھی۔۔ جب ضحی خاموش ہوئی تو اسکا سارا جسم کان بن گیا۔۔ ڈاکٹر نے اپنے مخصوص طرز گفتگو میں کہا۔۔ “ضحی ! آپ پریشان نہ ہوں۔۔ آپکو اینزائٹی اور ڈیپریشن ہے جو وقت کے ساتھ فوبیا میں بدل رہا ہے۔۔ لیکن  پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے آپ یہ ادوایات وقت پر لیں۔۔ اور یہ فائل رکھیں۔۔ اس میں اپنی تمام سوچیں لکھیے گا۔ پندرہ دن بعد دوبارہ چیک اپ کرائیے گا”

Advertisements
julia rana solicitors

انکے جانے کے بعد ضحی نے پرچی پر نگاہ ڈالی جس میں ادوایات کی ایک لمبی فہرست تھی اور سوچنے لگی۔۔ کہ پرائیویٹ ہسپتال کے خرچے اور اسکے بزنس کا زوال اور یہ ڈیتھ فوبیا؟ زندگی کہاں لے کے جارہی ہے؟ چلو۔۔ زندہ تو ہوں نا  میں۔۔ ضحی نے عادتاً اپنی سانسیں ،نبضیں اور دل کی دھڑکن محسوس کی ۔۔ اور اس پر غنودگی طاری ہو نے لگی ۔۔ ضحی کو اب سونے سے بھی خوف محسوس ہورہا تھا مگر شاید  ڈرپ میں نیند کا اثر تھا کہ اسکی دنیا پھر اندھیرے میں ڈوب گئی۔
جاری ہے ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply