انگریزی بول چال ہُنر یا ایک نفسیاتی الجھن۔۔عارف خٹک

ہمارے ہاں ایک طبقہ آج بھی اس احساس محرومی کا شکار ہے کہ انگریزی میں بول چال ترقی اور روشن خیالی کی ضمانت ہے۔ ان کی اس طرز ِ فکر  نے ہماری چار نسلوں کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پاکستان میں آج بھی دسویں تک ستر فی صد تعلیم سرکاری سکول میں دی جاتی ہے،جو کہ اُردو میں ہوتی ہے۔اس کے بعد اُردو میں پڑھنے والا  بچہ جس نے سائنس کے مضامین میں امتیازی نمبر لئے ہوتے ہیں، ایک دم سے جہاں کالج اور یونیورسٹی میں اس کا  واسطہ  انگریزی کتب سے پڑتا ہ،وہاں انگریزی زبان سے عدم واقفیت اُسے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی  ہے۔ اور پھر کتنا بھی قابل طالب علم ہو،ڈھیر ہوجاتا ہے۔اور یوں ہمارے غلط نظامِ تعلیم کی وجہ سے وہ بچہ عام زندگی میں ایک ناکام طالب علم کا ٹھپہ خود پر لگوا کر ناکارہ بن جاتا ہے۔

اُردو زبان کی ترقی و ترویج کےلئے جتنا کام سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ہورہا ہے۔آج سے سات سے پہلے سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ سوشل میڈیا نے نثر اور شاعری کو بامِ عروج تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ آپ کے ملک کے وزیراعظم اور فوج کے سربراہان کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے ،کہ وہ اپنے پیغامات سلیس اُردو میں دینے لگے ہیں۔ کیوں کہ اُن کو بھی معلوم ہوگیا ہے،کہ ملک کی نوے فی صد آبادی اُردو سمجھتی، بولتی اور پڑھتی ہے۔ تو کیا وجہ ہے؟کہ دوہرے نظام تعلیم کی وجہ سے آج بھی ہمارا بچہ کنفیوز پھر رہا ہے۔؟

میری بیوی کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ اُن کا لب و لہجہ تھوڑا سا الگ بلکہ امریکی تھا۔ انگریزی کی مثال ایسی تھی بقول یوسفی کہ گالی دے دی ہے۔ شادی کے شروع دنوں میں وہ میرا مذاق اُڑاتی تھی،کہ میں کرک کا باسی انگلش کو انگریزی کہتا ہوں۔ میں ہنس کر رہ جاتا۔ میں نے کبھی اُن سے انگریزی میں بات نہیں کی کیونکہ میرے جذبات و احساسات کیلئے میری اپنی زبان کافی تھی۔ ایک دفعہ غیرملکی دورے میں ایک بیرے نے فینش لب ولہجے میں آرڈر کے متعلق پوچھا تو میری بیگم ہونقوں کی طرح اُس کا منہ دیکھنے لگیں۔ میں آرام سے اِدھر اُدھر منی سکرٹس کے نظاروں میں محو تھا۔ بالآخر اُس نے مجھے ٹہوکا دیا۔۔ کہ یہ کیا کہہ رہا ہے؟میں سنجیدگی سے اُن کو دیکھ کر بولا،کہ کرک کے لوگ انگریزی بولتے ہیں انگلش تو آپ جیسے لوگوں کا ہنر ہے۔ بالآخر میں نے بیگم کو بتایا کہ یہ “Salty Licorice” کا پوچھ رہا ہے کہ آپ نے آرڈر کیا ہے؟یہ سُن کر وہ خجالت سے مُجھے دیکھنے لگیں۔

میری زندگی کا زیادہ وقت روس، اسیکنڈینیویا کے ممالک میں گُزرا ہے۔ روس، فن لینڈ اور پولینڈ میں ہر کوئی اپنی زبان کو ترجیح دیتا ہے۔ حتٰی کہ آپ افغانستان جیسے پسماندہ  میں ملک بھی جائیں،تو وہاں امریکہ پلٹ کوئی بندہ غلطی سے انگریزی کا ایک لفظ بھی استعمال نہیں کرتا، کیوں کہ یہ شرم کا مقام ہے اُن کیلئے۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں آج بھی 70 فی صد روسی زبان بولی اور لکھی جاتی ہے۔مگر اب قازقستان کے موجودہ صدر عاصم ہائیف نے روسی زبان پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔کہ ان کی اپنی شناخت اور قازق زبان موجود ہے تو وہ روسی زبان اور تمّدن کو کیوں جگہ دیں۔

مُجھے فارسی، پشتو، اُردو، روسی زبان اور کچھ حد تک فینیش زبان بھی آتی ہے۔مگر میں پاکستان میں اپنی اُردو زبان کو ترجیح دیتا ہوں۔ ہاں خیبر پختونخوا  میں گر چاہوں بھی تو اُردو نہیں بول سکتا۔وہاں مجھے لازماً پشتو میں بات کرنی پڑتی ہے۔

زبان کوئی بھی ہو وہ رابطے کا ایک آسان ذریعہ ہے۔مگر کسی زبان کو زبردستی کسی معاشرے پر مُسّلط کرنا یا عوام کو مجبور کرنا بذاتِ خود انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔ انگریزی ایک بین الاقوامی زبان سمجھی جاتی ہے انگریزی سیکھنا ایک اضافی خوبی ہے،مگر قابلیت ہرگز نہیں ہے۔ آج ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کرلی ہے،کہ کسی عربی بولنے والے کی بات کو آپ کا موبائل ایک سیکنڈ میں اُردو میں ٹرانسلیٹ کردیتا ہے۔ کہ سامنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ سو اس دور میں فرفر انگریزی بولنا اور اس پر فخر کرنا آپ کی نفسیاتی اُلجھن تو ہوسکتی ہے،لیکن آپ کی قابلیت ہر گز نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سو اپنی زبان پر توجہ دیں اور کوشش کریں عام بول چال میں آسان زبان کا استعمال کریں اور جناب سلیم فاروقی صاحب کی تحریک “تحریک برائے اُردو بحالی” کا حصہ بن جائیں۔ جہاں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ “پیریڈز” کو ماہواری کہنا آپ کی تکلیف کم تو نہیں کرسکتی،مگر بیٹیوں کو یہ ضرور سمجھا سکتی ہے  کہ ان کی ماؤں کو بھی اسی چیز کا سامنا کرنا پڑا تھا۔جوکہ باعثِ شرم و قابل اعتراض ہرگز نہیں ہے۔ آپ اس کے بغیر بھی ہمارے لئے مقدس ہو اور اس کیساتھ بھی قابل احترام ہو۔

Facebook Comments