• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • طالب علموں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان اور ہمارا نظام تعلیم۔۔ عدنان چوہدری

طالب علموں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان اور ہمارا نظام تعلیم۔۔ عدنان چوہدری

لاہور کی درسگاہ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کےسامنے ڈریم ہوسٹل ہے۔ اس ہوسٹل کے ایک کمرے میں پنکھے سے اک نعش لٹکتی دیکھ رہاہوں۔یہ نعش UMT کے شعبے DPT کی طالبہ اقراء کی ہے۔جس نے فیل ہونے کے ڈر سے یا پھر امتحانات کے ڈیپریشن کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔پاکستانی طالب علموں میں خودکشی کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ خود کشیوں میں یہ اضافہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی تعليمی پولیسیوں پر سوالیہ نشان ہے۔ایک رپورٹ  کے مطابق خودکشی کی بڑھتی وجہ مایوسی ہے ۔یہ بات کئی سوالوں کوجنم دے رہی ہے، کہ وہ کیا مجبوری ہو سکتی ہے جس کی بِنا پر طالب علم خودکشی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔کم مارکس ،ڈاؤن گریڈ یا محنت کر کے فیل ہو جانا،والدین کے پیسے کا ضائع ہونا یا پھر اساتذہ  کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے طالب علم خودکشی کی جانب راغب ہوتے ہیں۔

اقراء کی نعش پہلی نعش ہے نہ ہی یہ کسی طالب علم کا خود کشی کا پہلا واقعہ۔۔اس سے پیچھے جائیے تو اکتوبر 2020 کو میانوالی کے طالب علم، چودہ سالہ محمد طفیل نے خود کشی کی۔اس نے پیپروں میں فیل ہونے کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا ۔یہ تو ہوگیا چھوٹی جماعت کا طالب علم جس نے ہو سکتا ہے کم عقلی یا غصے میں یہ کام کیا ہو لیکن ادھر تو پی۔ایچ۔ڈی سکالر بھی خود کشی کرنے پر مجبور ہیں۔اگست2020 کو جامعہ کراچی کے ڈاکٹر پنجوانی سنٹر کی پی۔ایچ۔ڈی کی طالب علم نادیہ اشرف کی خود کشی کا واقعہ پیش آیا۔ کہا جاتا ہے کہ نادیہ نے اپنے سپروائزر کے رویے سے تنگ آکر خودکشی کی۔کیا وجہ تھی کہ نادیہ پندرہ سالوں میں اپنی پی۔ایچ۔ڈی پوری نہ کر سکی اورخود کشی کرنے پر مجبور ہو گئی۔نجانے طالب علموں کی کتنی نعشیں ہمارے تعلیمی نظام پر تھوک رہی ہیں ۔صرف میڈیکل کے ڈاکٹری شعبے ایم۔بی۔بی۔ایس کی بات کریں تو ہر سال کسی  نہ کسی  میڈیکل کالج میں ایک آدھا طالب علم لازمی خودکشی کرتا ہے۔26 مارچ 2018 کو سہارا میڈیکل کالج کے طالب علم نے پھندہ لیتے ہوئےخودکشی کی۔13 اپریل سن2010 کو آغاخان یونیورسٹی میں طالب علم نے پنکھے سے لٹک کر خودکشی کی ۔یہ اِس کالج میں ہونے والی ساتویں خودکشی تھی۔17 اپریل2014 کو قائداعظم میڈیکل کالج بہالپور کے شاہنواز شریف نے ریل گاڑی  کے آگے چھلانگ  لگا کر خود کشی کی، اور 11 اپریل 2016 کو ہمدرد میڈیکل کالج کراچی کے عبدالباسط نےاپنے آپ کو اَگ لگا کر خود سوزی کی۔خودکشی کی وجہ لیٹ پہنچنے پر اسے پیپر میں نہ بیٹھنے دینا تھی ۔19 اپریل 2016 کو کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شکیل احمد نے خودکشی کی کوشش کی۔ مارچ 2017 میں رہبر میڈیکل کالج کے عثمان جاوید نے فرسٹ ایئر میں فیل ہونےکی وجہ  سے دل برداشتہ ہو کر اپنے گھر پنکھے سے لٹک کر پھندہ لے لیا ۔

اُوپر بتائے گئے گئے اعدادو شمار صرف ایم۔بی۔بی۔ایس (M.B.B.S) کی خود کشی کے ہیں۔ یہ صرف وہی ڈیٹا ہے جو خبروں یا سوشل میڈیا سے اکٹھا کیا جاسکا ہے۔اس سے الگ اور کتنے ایسے ہی واقعات ہیں جو رپورٹ نہ ہو سکے، اس بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔

لارڈ میکالے کے لائے ہوئے اس تعلیمی نظام نے ہماری تعلیمی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے ۔اِسی برصغیر کا لٹریسی ریٹ مغلوں کے دور میں   %90فیصد تھا اور جب انگریز بہادر نے لارڈ میکالے کا تعلیمی نظام نافذ کر کے برصغیر چھوڑا ،وہی لٹریسی ریٹ بارہ اور پندرہ پرسنٹ پر آگیا تھا۔انگریز بہادر تو چلا گیا مگر ہم آج بھی میکالے کے مسلط کردہ اس نظام سے باہر نہیں آسکے۔مثلا ً انڈیا کی مثال لےلیں ۔وہاں بھی عظیم برطانیہ کے وقت سے لارڈمیکالے کی تعلیمی پالیسیاں نافذ ہیں۔ کم مارکس اور ڈاؤن گریڈ کر کے طالب علموں میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح انڈیا میں ہے۔

2016 میں  (9474)طالب علموں کی خودکشی کے کیس سامنےآئے۔یعنی کہ ہر ایک گھنٹے میں ایک طالب علم نے اپنی زندگی اپنے ہاتھوں ختم کی ۔انڈین پارلیمنٹ کی طرف سے بتایا گیا کہ 2014 سے 2016 کے درمیان چھبیس ہزار طالب علموں نے خودکشی کی۔ 2014 میں 8068 ، 2015 میں 8934 اور 2016 میں9474 خودکشی کے واقعے دیکھنے کو ملے۔ طالب علموں نے کم مارکس ،خراب گریڈ اور پیپروں میں فیل ہونے کی وجہ سے خو کشی کی ۔انڈین سرکاری درالحکومت دلی میں 2014 سے 2016 تک 443 طالب علموں نے خود کشی کی۔ یہ طالب علم اٹھارہ یا اس سے بھی کم عمر تھے۔

برطانیہ جس کا تعلیمی  نظام ہم فالو کر رہے ہیں طالب علموں کی خودکشی میں وہ بھی کسی سے کم اور پیچھے نہیں ۔ 2016 میں انگلینڈ میں خودکشی کے130 کیسوں کا مطالعہ کیا گیا۔جس میں خود کشی کی وجہ پیپروں کا بے جا پریشر، درسگاہوں ، یونيورسٹيوں کی انتظامیہ کا رویہ، فیل ہونے کا خوف اور پروفیسرز کا برا سلوک  اور والدین کا کم نمبر حاصل کرنے والے  بچوں کے ساتھ غصہ اور لڑائی جھگڑا تھی ۔ یہ حال ہے انگلیڈ کے تعلیمی نظام کا جو ہم نے اپنے اوپر لاگو کیا ہوا ہے۔

UMTکی اقراء کی خودکشی سے پہلے ہمارے ہائرایجوکیشن کمیشن کو یہ کیوں نہ نظر آیا کہ جب پڑھایا آنلائن گیا ہے تو پھر طالب علموں سے پیپر فزیکل کیوں لیے جا رہے ہیں؟۔اقراء نے بھی پہلے آدھا سمیسٹر آنلائن پڑھااور پیپر فزیکل دیئے جن میں وہ فیل ہو گئی اور پھرباقی سمسٹر بھی آنلائن پڑھا  اور فائنل ٹرم پیپرپھر فزیکل ۔فیل ہونے کا خوف اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ ڈیپریشن کا شکار ہوگئی اور مجبور ہو کےاسے یہ قدم اٹھانا  پڑا ۔لیکن اقراء کی خودکشی سے پہلے ایچ۔ای۔سی کی ان باتوں سے غفلت کیوں تھی ۔ ایچ۔ای۔سی کو یہ کیوں نہ نظر آیا کہ یہ طالب علموں کے ساتھ زیادتی ہے؟۔پڑھایا آنلائن ہے اور پیپر فزیکل لیے جائیں۔ پڑھایا آنلائن جائے اور فیسیں پوری پوری لی جائیں۔پڑھایا آنلائن جائے اور طالب علم نے لیبارٹری، لائبریری، ٹرانسپورٹ ،الیکٹریسٹی اور نیٹ استعمال تک نہ کیا ہو پھر بھی اس کے پیسے چارج کیے جائیں۔جوطالب علم پوری فیس دینے سے انکار کر ے اسے فیل کرنے کلاس سے باہر نکالنے کی دھمکیاں دی جائیں ۔یہ وہ سوال ہیں جو آج کا طالب علم ایچ۔ای۔سی اور چئیرمین ڈاکٹر طارق بنوری سے پوچھنا چاہتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مضمون ختم کرنے سے پہلے میں آپ کی توجہ علامہ اسد کی طرف ضرور دلوانا چاہوں  گا۔1947ء میں پاکستان بننے کے بعد تعلیمی اصلاحات کے لیے ان سے مشورہ لیا گیا۔تو انہوں نے کہا تھا اگر ہم آنے والے دنوں میں خود کو دوسری قوموں کے ساتھ ترقی کے رستے پہ چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنا ذاتی تعلیمی نظام کا ماڈل بنانا پڑے گا ۔بھلے ہمارے بچے دو تین سال گلی ڈنڈا نہ کھیلتے رہیں لیکن ہم انہیں انگریز کا تعلیمی نظام نہیں پڑھنے دیں گے۔ہمارے طالب علموں کے لیے لارڈ میکالے کا مستعار لیا گیا تعلیمی نظام نہیں ہونا چاہیے ۔۔ ذاتی اور یونیک قسم کا نظام تعلیم ہی ہمیں پاکستان کے روشن مستقبل کی گارنٹی دیتا ہے۔ہم نے علامہ اسد کی اس بات پہ غورنہیں کیا جس وجہ سے آج اقراء اور نادیہ۔۔۔۔۔تو کبھی مبین اور شکیل کی نعشیں اٹھا رہے ہیں۔ضرورت اس پرانے اور فرسودہ تعلیمی نظام کو بدلنےکی ہے ۔ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں طالب علم مارکس،گریڈ،اور جی۔پی۔اے کے پیچھے دوڑنے کی بجائے کسی ٹیکنیکل مہارت کو سیکھنے کی کوشش کرے۔وقت آگیاہےہم لارڈ میکالے کے دیے ہو ئے اس ناکام  تعلیمی سسٹم سے جان چھڑوائیں۔ تاکہ آئندہ پھر ہمیں نہ کسی نادیہ اور نہ اقراء کی نعش اٹھانے کی نوبت آئے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”طالب علموں میں خودکشی کا بڑھتا رجحان اور ہمارا نظام تعلیم۔۔ عدنان چوہدری

  1. اس تعلیمی نظام کو بلکل بدلنا چاہیئے۔ خود میری بیٹی لمس حیدرآباد سے ایم فل کر رہی ہے جس کو پانچ سال ہو چکے ہیں ۔اس کو ہر بار فیل کردیا جاتا ہے صرف اس لیئے کہ وہ اپنے سپروائیزر کے روم میں جا کر بیٹھتی نہیں ہے اور ان سے گپیں نہیں لگاتی ۔ایسا نہیں ہے کہ وہ ڈفر ہے وہ پڑھنے میں بہت اچھی ہے ۔اسکے ساتھ والے سب پاس آئوٹ کر گئے ہیں ایک وہ واحد لڑکی ہے جو ہمیشہ پاس ہونے سے رہ جاتی ہے پھر بھی کہتی ہے کہ میں ان کے روم میں جاکے نہیں بیٹھوں گی

Leave a Reply to Engr Zia Unar Cancel reply