زخم زخم ہے میرا چہرہ
خون پسینہ ایک ہوئے ہیں
یہ رومال جو خون سے تر میرے چہرے سے
لمحہ بھر کو چپک گیا ہے
قرنوں تک میرے چہرے کا خاکہ
اس کے خال و خد، رخسار، دہن، آنکھیں، پیشانی
میرے خوں کا ترش ذائقہ
اپنے تار و پود میں ایسے جذب کرے گا
میرے بعد بھی میرا چہرہ
اس رومال میں آنکھوں والے دیکھ سکیں گے
کھوپڑیوں کے ڈھیر
گڑھوں میں لاشیں
جو عینی ناظر ہیں، ظلم و استبداد کا مظہر ۔۔۔۔۔۔
بد بو میں لپٹی لپٹائی جیسے
خوابیدہ ہوں
نیند سے موت تلک کی دوری ایک قدم ہے
اس کا علم
تو اس خود کُش بمبار کو بھی شاید تھا
جس کی
عمر لڑکپن کی دہلیز پہ کٹ کر ڈھیر ہوئی تھی
گھر، پانی کے نل، بسیں، کاریں ، دیواریں
مسجد اور منارے سارے ۔۔
گولی تو گولی ہوتی ہے
بچوں، بوڑھوں ، بہنوں، ماؤں ۔۔
سب کے سینے چھلنی کر کے
اپنی پیاس بجھا لیتی ہے
میں بھی شاید ان میں شامل اک بوڑھا ہوں
میرے سینے میں بھی گولی لگی ہوئی ہے
نام بدل جاتے ہیں، لیکن
کیا تاریخ ہمیشہ خود کو دہرائے گی؟
کیا ہر دور میں میرا چہرہ
زخموں کے انمِٹ خاکوں کو
رومالوں میں جذب کرے
———–
مسیحی حکایت ہے کہ ویرونکا نامی ایک خاتون نے، جس رومال سے مصلوب عیسیٰ کے چہرے کا خون اور پسینہ پونچھے تھے، اس رومال پر بجنسہ عیسیٰ کے چہرے کے خد و خال ابھر آئے تھے اور برسوں بعد بھی لوگ ان کو دیکھ سکتے تھے۔آج لاکھوں کی تعداد میں لوگ مرکٹ کر گر رہے ہیں۔ کیا یہ سب مسیح نہیں ہیں؟ ہے کوئی ان کا خون اور پسینہ پونچھنے والی ویرونکا؟ (ستیہ پال آنند)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں