کمیونزم سوشلزم کیپٹلزم کیا ہیں(حصّہ اوّل)۔۔مکرم حسن بلوچ

کیپٹلزم (سرمایہ دارانہ نظام) سوشلزم اور کمیونزم (اشتراکیت) تینوں معاشی نظام ہیں۔

کیپٹلزم ایک ایسا معاشی نظام جس میں کسی ملک کی تجارت اور صنعت کو ریاست کے بجائے نجی مالکان کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا ہے اور منافع بھی نجی مالکان (Private Owners) کماتے ہیں۔

اس نظام میں سرمایہ بطور عاملِ پیدائش نجی شعبہ کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اس میں منڈی آزاد ہوتی ہے اس لیے اسے آزاد منڈی کا (Market Economy) نظام بھی کہا جاتا ہے۔ اس نظام میں پیداوار اور قیمت کا تعین ترسیل (Supply) اور طلب (Demand) سے کیا جاتا ہے۔ یعنی جس چیز کی مارکیٹ میں سپلائی کم اور طلب زیادہ ہوگی تو اس کی قیمت بڑھ جائے گی اور جس چیز کی سپلائی زیادہ اور طلب کم ہوگی تم قیمت خود بخود کم ہوجائے گی۔ جس چیز کی مارکیٹ میں طلب زیادہ ہوگی سرمایہ دار/نجی مالکان اسی چیز کی پیداوار بڑھائیں گے۔

اگرچہ آج کل کہیں بھی منڈی مکمل طور پر آزاد نہیں ہوتی مگر نظریاتی طور پر ایک سرمایہ دارانہ نظام میں منڈی مکمل طور پر آزاد ہوگی۔ آزادی، منافع خوری اور نجی ملکیت اس نظام کی بنیادی خصوصیات ہیں۔

مختصراًسرمایہ دارانہ نظام یہ کہتا  ہے کہ ذاتی منافع کے لئے اور ذاتی دولت و جائیداداور پیداواری وسائل رکھنے میں ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے، حکومت کی طرف سے اس پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم دنیا میں سو فیصد سرمایہ دارانہ نظام کسی بھی جگہ ممکن نہیں، کیونکہ حکومت کو کسی نہ کسی طرح لوگوں کے کاروبار میں مداخلت کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان، بھارت، امریکہ، برطانیہ، فرانس، اٹلی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد ایڈم سِمتھ (Adam Smith) نے رکھی جو ایک برطانوی فلسفی اور ماہر اقتصادیات تھا۔

کیپٹلسٹ سوشلزم کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

کیپٹلسٹس کا کہنا ہیں کہ سوشلزم کے کئی نقصانات ہیں جن میں کم معاشی نمو (Low Economic Growth)، کم کاروباری مواقع اور مقابلہ (Competition) کا نہ ہونا اور کم انعامات (Less reward) کی وجہ سے افراد کی حوصلہ افزائی کی ممکنہ کمی شامل ہیں۔ کیوں کہ جب لوگوں  کو منافع کمانے کا  لالچ اور محنت کے انعامات نہیں ملیں گے تو لوگوں میں کام کرنے کا جذبہ کم ہوگا کیونکہ انسان فطری طور پر  لالچی ہے۔ جب لوگوں کو نجی ملکیت رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی تو لوگوں میں محنت کرنے کا جذبہ نہیں رہے گا۔

سوشلزم (اشتراکیت) کی تعریف کچھ یوں کی جاسکتی ہے کہ “اجتماعی ملکیت کا فلسفہ جس میں معاشرے کے افراد میں ملکی وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، اشتراکیت کہلاتا ہے۔‘‘

اشتراکیت کے نظریے کو ایک جملے میں یوں بیان کرسکتے ہیں:

”ذاتی ملکیت کا خاتمہ“ یہ مارکس اور اینگلز کے مشہور کمیونسٹ مینی فسٹو کا ایک فقرہ ہے۔ ذاتی ملکیت کا خاتمہ یا دوسرے لفظوں میں ”سماجی ملکیت (Common ownership) کا نظام“

چنانچہ اشتراکی نظام (Socialism) میں کسی معاشرے کے تمام لوگوں کو ریاست ان کے حقوق دے وہ حقوق یہ ہیں ،ریاست کے ہر فرد کو خوراک، رہائش، تعلیم، صحت کی سہولیات و انصاف ریاست فراہم کرنے کے لیے ذمہ دار ہے اگر کوئی ریاست ایسا نہیں کرتی تو پھر اس ریاست کے حکمرانوں کو حق ِ حکمرانی نہیں دیا جا سکتا۔ اشتراکیت کے نظام میں تمام تر وسائل معاشرے/کمیونٹی/اجتماعی ملکیت ہوتی ہیں اور ریاست کے کنٹرول میں ہوتے ہیں۔ موجودہ زمانے میں کمیونزم کی اصل حالت میں کہیں  موجود نہیں ہے۔ آدم سمتھ اورڈے کارٹ نے محنت کو تمام دولت کا منبع قرار دیا۔ کارل مارکس کا اہم کام یہ ہے کہ اس نے اشتراکیت کے مثالی تصور کو نہ صرف قابلِ عمل بنایا بلکہ اسے ایک سائنٹفک اور منطقی نظام بنا کر پیش کیا۔

سوشلزم اور کمیونزم ایک ہی فلسفے کے دو درجے ہیں، کمیونزم سو شلسٹوں کا حتمی درجہ مقصود ہے اور سوشلزم ابتدائی منزل ہے۔ اس لئے ان دونوں اصطلاحوں کو بکثرت ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا جاتا ہے۔

کمیونزم میں ہر ایک کو ان کی صلاحیت کے اور ضروریات کے مطابق اجرت دی جائے گی اور سوشلزم میں ہر ایک کو ان کے محنت اور صلاحیت کے مطابق اجرت دی جائے گی۔ کمیونزم میں کوئی فرد کسی قسم کی نجی ملکیت نہیں رکھ سکتا اور سوشلزم میں لوگ نجی ملکیت رکھ سکتے ہیں لیکن ایسی کوئی ملکیت   نہیں رکھ سکتے جس سے پیداوار حاصل کی جاتی  ہے یا منافع کمایا جاتا ہے۔ منافع کمانے والی ملکیت صرف ریاست کے پاس ہوگی۔ سوشلزم میں پیداوار اور منافع سے تمام لوگوں کی  بنیادی ضروریات پوری  کی  جاتی  ہیں اور کمیونزم میں دولت کی تقسیم لوگوں کی  صلاحیت (Ability) اور پیداوار/کام کرنے میں شراکت (Contribution) کی  بنیاد پر ہوگی۔ جیسے کہ ایک ڈاکٹر کی صلاحیت زیادہ اور مزدور کی صلاحیت کم تو ڈاکٹر کی اُجرت زیادہ ہوگی، ایک ڈاکٹر پانچ گھنٹے اور ایک ڈاکٹر دس گھنٹے کام کرتا ہے تو دس گھنٹے کام کرنے والے کی زیادہ شراکت (Contribution) تو دس گھنٹے والے کی  دولت میں زیادہ حصہ ہوگا۔

سوشلسٹس کیپٹلزم
کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

دنیا کے بڑے بڑے فلسفیوں نے شخصی املاک کو معاشرے کی برائیوں کا  جزو  قرار دیا۔ کارل مارکس جو بابائے اشتراکیت ہے ان کا کہنا تھا کہ طاقتور طبقہ مزدوروں کی کمائی پر عیش کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہوسِ زر (Greed of wealth)، خود غرضی (Selfishness) اور ملکی وسائل پر قبضے کی خواہش اشتراکی فلسفے کے عملی نفاذ کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ رہے ہیں۔ مزدور صنعت کار (Industrial Class) کے ہاتھوں اور مزارعہ جاگیردار (Landlord) کے ہاتھوں استحصال (Exploitation) کا شکار رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی وجہ سے امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جارہا ہے۔

کسی  بھی ملک کے وسائل کم، ضروریات اور خواہشات زیادہ ہوتی  ہیں۔ ہر ریاست/ معاشرے کی کوشش ہوتی ہے کہ ملک کے موجودہ وسائل کو اس طریقے سے استعمال کیا جائے کہ ان کے ذریعے زیادہ سے زیادہ ضرورتیں پوری ہوسکیں۔

محدود وسائل اور لاتعداد ضروریات اور خواہشات کی وجہ سے چار بنیادی مسائل معیشت (economy) میں پیش آتے ہیں:

1۔ کیا پیدا کریں (What to produce)؟
2۔ کس طرح پیدا کریں (How to produce)؟
3۔ کس کے لئے پیدا کریں (For whom to produce)؟
4۔ اور معاشی نمو کے لئے کیا دفعات ضروری ہے ہیں (What provisions are to be made for economic growth)؟

پہلا مسئلہ: ترجیحات کا تعین (Setting Priorities)۔

جیسے کہ پہلے بتایا گیا کہ وسائل محدود اور ضروریات لامحدود ہوتی  ہیں تو کچھ ضروریات اور خواہشات جو کہ ناگزیر ہیں ان کو مقدم/اولین (prior/prefer) کرنا پڑیگا اور کچھ کو مؤخر کرنا پڑیگا۔ لیکن کون سی ضرورت کو مقدم کیا جائے اور کو نسی ضرورت کو مواخر کیا جائے؟ مثلاََ ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ان سے ہم موجودہ تین ضروریات میں سے کسی ایک ضرورت کو پورا کرسکتے ہیں۔

ضرورت نمبر ایک: ایک سکول اور ایک ہسپتال کی تعمیر

ضرورت نمبر دو: ملک کی دفاعکے لیے ایک ٹینک اور ایک ہیلی کاپٹر خریدا جائے۔

ضرورت نمر تین: ایک پارک اور ایک چڑیا گھر بنایا جائے۔

ہمارے پاس تین راستے (Option) ہیں۔ اب ان موجودہ وسائل سے کسی ایک ضرورت کو ہم پورا کرسکتے ہیں، کس ضرورت کو مقدم رکھا جائے؟ یہ متعین کرنا پڑے گا کہ ان وسائل کو کس طرح کس کام میں صرف کیا جائے اور کس چیز کی پیداوار کو ترجیح دی جائے؟اس مسئلے کا نام ترجیحات کا تعین ہے۔

دوسرا مسئلہ: وسائل کا مختص کرنا:( Allocation of Resources)۔

ہمارے پاس پیداوار کے کچھ عوامل و وسائل (Resources or Factors of Production) ہیں۔ معاشی ماہرین پیداوار کے عوامل و وسائل کو چار اقسام میں بانٹتے ہیں: زمین، مزدوری، سرمایہ اور کاروبار۔

پیداوار کا پہلا عنصر زمین ہے، اس میں نہ صرف زمین، بلکہ کوئی بھی چیز جو زمین سے آتی ہے شامل ہے۔ کچھ عام زمین یا قدرتی وسائل پانی، تیل، تانبا، قدرتی گیس، کوئلہ اور جنگلات، زری زمین، اور باغات ہیں۔

زمینی عوامل اور وسائل کو ہم کن کاموں میں کس مقدار میں لگائیں؟ مثلاََ اب کتنی مقدار میں ہم گنا کاشت کریں؟ کتنی مقدار میں چاول کاشت کریں؟اور کتنی زمین پر روئی اور کتنی زمین پر گندم کاشت کریں؟ اگر ہمارے پاس کار خانے لگانے کی صلاحیت ہے تو کس جگہ، کس شہر میں کن چیزوں کے کارخانے لگائیں۔ اب کتنے کارخانوں کو کھیلوں کے سامان بنانے میں استعمال کریں۔اور کتنے کارخانوں کو کپڑے بنانے میں لگائیں؟ اور کتنے کارخانوں کو کھانے دوائی بنانے کے لیے استعمال کریں؟ ان عوامل اور وسائل کے تعین کو معیشت کی اصطلاح میں وسائل کی تخصیص کہتے ہیں۔

پیداوار کا دوسرا عنصر مزدوری (Labor) یا محنت (Human resources) ہے۔ مزدوروں کی کوشش ہے کہ وسائل کی پیداوار میں حصہ ڈالیں۔ مزدوروں یا انسانی محنت میں تمام شعبوں کے وہ لوگ شامل ہیں جن کا وسائل کی  پیداوار میں کوئی نہ کوئی کردار ہے۔ مزدوری کے وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو اجرت (Wages) کہا جاتا ہے اور زیادہ تر لوگوں کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ تمام مزدوروں  کے ذمہ الگ الگ کام ہوتے ہیں جن کی  وہ مہارت رکھتے ہیں۔

پیداوار کا تیسرا عنصر سرمایہ ہے۔ پیداوار کی تیاری کے لئے پیسے، مشینری، اوزار اور عمارتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ سرمائے  کی  کچھ عام مثالوں میں اوزار، کمپیوٹر، مشینری اور ترسیل کے ذریعے شامل ہیں مثال کے طور پر، ڈاکٹر طبی خدمات فراہم کرنے کے لئے اسٹیتھوسکوپ اور معائنہ کے لیے ہسپتال یا ڈسپنسری/کلینک روم کا استعمال کرتا ہے۔ استاد تعلیمی خدمات دینے کے لئے درسی کتب، ڈیسک، اور ایک سفید تختہ استعمال کرتا ہے۔ ان تمام آلات کو سرمایہ کہا جاتا ہے۔

پیداوار کا چوتھا عنصر کاروبار شروع کرنے والا طبقہ (entrepreneurs) ہے۔ ایک کاروباری طبقہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو منافع کمانے کے لئے پیداوار کے دیگر عوامل یعنی زمین، مزدور اور سرمائے کو جوڑتے ہیں۔ سب سے کامیاب کاروباری افراد جو کہ سامان اور خدمات کی تیاری کے نئے طریقے ڈھونڈتے ہیں یا جو مارکیٹ میں نیا  سامان اور خدمات تیار کرتے ہیں۔ جاوید آفریدی، شہباز شریف ہنری فورڈ، بل گیٹس کاروباری شخصیت بارے میں آپ لوگ جانتے ہونگے۔ تاجر معاشی نمو کا ایک اہم انجن ہیں۔ تاجر ایسی معیشتوں میں ترقی کی منازل طے کرتے ہیں جہاں انہیں کاروبار شروع کرنے اور آزادانہ طور پر وسائل خریدنے کی آزادی ہے۔

تیسرا مسئلہ: (Distribution of Income) آمدنی کی تقسیم۔ جو آمدنی پیداوار سے حاصل ہو اس کو کس طرح معاشرے میں تقسیم کیا جائے؟ کس کو کتنی اجرت یا منافع دیا جائے؟ اس کو معاشیات کی اصطلاح میں آمدنی کی تقسیم کہتے ہیں۔ کسی بھی سرمایہ دارانہ معاشرے میں (جس میں زیادہ تر کاروبار افراد کی ملکیت میں ہوتے ہیں )، امیروں کو آمدنی کا ایک بڑا حصہ مل جاتا ہے۔ اس کو آمدنی میں عدم مساوات کہا جاتا ہے۔

چوتھا مسئلہ: ترقی (Development)، یعنی پیداوار کو کیسے مزید پائیدار بنائے اور کس طرح مقدار بڑائی جائے۔ اور کس طرح نئی نئی ایجادات اور مصنوعات پیدا کئے جائیں تاکہ معاشرہ ترقی کرے، لوگوں کو پاس کاروبار کے مواقع موجود ہو۔ ا س مسئلے کو معاشیات کی اصطلاح میں ترقی کہا جاتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام (Capitalism) ان چاروں مسائل کے لئے کیا حل پیش کرتی ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام کا نظریہ یہ ہے کہ  ہر انسان کو مزدوری، تجارتی اور صنعتی سرگرمیوں کیلئے بالکل آزاد (economic freedom) چھوڑ دیا جائے اور حکومت ان کی  کسی  سرگرمی میں مداخلت نہ کرے  (Laissez Faire)۔ سب لوگوں کو چھوٹ دی جائے کہ زیادہ سے زیادہ نفع کمانے کیلئے جو بھی کاروبار اور جو بھی طریقہ مناسب سمجھ کر اختیار کرے۔ اس سے اوپر بیان کیے گئے چاروں مسئلے خود حل ہوتے چلے جائینگے ۔کیونکہ جب ہر شخص کو یہ فکر ہوگی کہ میں زیادہ سے زیادہ نفع کماؤں تو ہر شخص معیشت کے میدان میں وہی کام کریگا جس کی معاشرے کو ضرورت ہے۔

اشتراکیت (Socialism/Communism) ان چار مسائل کے لیے کیا حل پیش کرتی ہے؟

اشتراکیت کی رائے ہے کہ تمام وسائل پر ریاست کا اختیار ہے، ریاست ہی ان چاروں مسائل کو حل کریگی۔ کس چیز کو ترجیح دینی چاہیے، موجودہ وسائل کو کس کام لگائیں، آمدنی کو کس طرح معاشرے  میں تقسیم کریں، اور معاشرے کو کس طرح ترقی دی جائے، یہ تمام کام ریاست یا اجتماعی طور پر  معاشرہ انجام دے گی۔
مختصر سوشلزم کمیونزم کی تعریف یہ ہے کہ سوشلزم میں چیزیں انسانی ضروریات پورا کرنے کیلئے بنائی جاتی ہیں ناکہ منافع کیپٹلزم (Capitalism) سوشلزم (Socialism) اور کمیونزم (Communism)۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply