آئی ایم پاسیبل – دسواں ایڈیشن۔۔۔محمد شبیر خان

’’ہماری زندگی میں اگر اور کاش وہ پھندے ہیں جن سے روز ہماری مسرت اور آسودگی کی لاشیں ٹنگی ہوتی ہیں ۔ ‘‘
الفاظ میں نے پڑھے اور چند لمحوں کے لیے ان میں کھوگیا۔بات بڑی گہری اور پتے کی ہے ۔ہم میں سے ہر شخص اگر اور کاش کا لفظ بول کر دراصل اپنی کم ہمتی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔آپ نے اکثر لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہوگا

’’کاش میں تھوڑا ٹھہرجاتا تو ایسا نہ ہوا ہوتا۔‘‘
ایسا کہنے والا ہمیشہ ماضی میں پایا جاتا ہے جبکہ ماضی میں جھانکنے والا شخص پچھتاوؤں کے بھنور میں ایسا پھنس جاتا ہے کہ پھر جب نکلتا ہے تومایوسیوں نے اس کے دِل و دماغ کو مفلوج اور اس کی بصیرت کو ختم کیا ہوتا ہے ۔پھر وہ نہ تو لمحۂ موجود کا لطف اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی مستقبل کودیکھ سکتا ہے۔

میں نے اپنی تحریر کی ابتدا جس جملے سے کی یہ میرے ہاتھ میں موجود کتاب ’’آئی ایم پاسیبل‘‘ سے ماخوذ ہے ۔جس کے مصنف محترم جناب عار ف انیس ہیں.
۔230صفحات پر مشتمل یہ کتاب اپنے اندربہت کچھ رکھتی ہے۔مصنف نے اس کتاب میں حقیقی معنوں میں زندگی کو بہت قریب سے دِکھایا ہے اور قاری کو تمام جہات کی سیر کراتے ہوئے ہر ایک مقام پر اپنا مخصوص پیغام دیا ہے۔میں ان کے طرزِ تحریر سے متاثر ہوں۔

سلاست ایسی ہے کہ معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بھی باسانی اس کتاب کو پڑھ اور سمجھ سکتا ہے جبکہ کتاب کا اصل پیغام اس قدر گہرا اورجاذبیت بھرا ہے کہ وہ آپ کو سوچنے او ر عمل کرنے پر مجبور ضرور کرتا ہے.

کتاب میری محبت ہے ۔میں جب بھی کتاب پڑھتا ہوں تو صرف پڑھتا نہیں بلکہ اس کو بھرپور انجوائے کرتاہوں ۔اپنے استاد قاسم علی شاہ صاحب کی طرح میری انگلیاں بھی جملوں کو انڈرلائن کرنے میں مصروف رہتی ہیں۔میں لفظوں کے حسن میں کھوجاتاہوں اور ہر خوب صورت تعبیر پر سر دُھنتا رہتا ہوں۔میرامانناہے کہ کوئی بھی اچھی کتاب صرف اپنے تک محدود نہ رکھی جائے بلکہ اس میں موجود بات اور پیغام دوسروں تک بھی منتقل کیا جائے۔اسی وجہ سے ہر پڑھنے والی کتاب کو اپنی ڈائری میں نوٹ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ کوشش کرتا ہوں کہ اس کے متعلق اپنے تاثرات لکھ کر اپنے دوست احباب تک بھی پہنچاؤں۔

’’آئی ایم پاسیبل‘‘ پڑھتے ہوئے قاری کو کبھی کبھار لگتا ہے کہ وہ کسی ادیب کی ڈائری پڑھ رہا ہے جس میں لکھنے والا اس کو اپنی تصورات کی دنیا میں لے جاتا ہے اور کبھی لگتا ہے کہ وہ کسی دلچسپ تاریخ کو پڑھ رہا ہے جس میں زمانہ کروٹیں لیتا ہوا عروج وزوال کی کہانیاں بیان کرتاہے ۔مصنف کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے قوتِ مشاہدہ کی بدولت حالا ت وواقعات کو اتناخوبصورت رنگ دیا ہے کہ پڑھنے والا اس کو چھوڑ نہیں سکتا اور آخر تک ضرور دیکھنا چاہتا ہے.
’’کوئلوں پر چلنا مشکل ہے مگر اس زندگی سے نہیں جو میں نے گزاری ہے۔‘‘

فائر واکنگ کے مضمون میں انہوں نے زندگی کی مشکلات و مصائب کو سہہ کر بھی اپنے عزم کو پختہ رکھنے کا ایسا بھرپور سبق دیا ہے کہ انسان کا حوصلہ پہاڑ کو چھونے لگتا ہے اور حقیقت میں اپنے آپ سے عہد کرلیتا ہے کہ ہاں میں کرسکتا ہوں ۔میں لڑسکتا ہوں اورپھر اس کو غم حیا ت سے ڈر نہیں لگتااور بقول شاعر:
’’مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آسان ہوگئیں‘‘
اپنی قابلیت کے زعم میں مبتلا لوگوں کے لیے سلویسٹر سٹالون کا یہ جملہ
’’ اس سے مطلب نہیں کہ تم کتنا زوردارمکا مارسکتے ہو ،مطلب اس سے ہے کہ تم کتنا زوردار مکا سہہ سکتے ہو۔‘‘

انہیں کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ زندگی کی جنگ میں قوتِ برداشت وہ ہتھیا ر ہے جس کی بدولت کوئی بھی جنگجو یہ جنگ جیت سکتا ہے۔زمانے کے زناٹے دار تھپڑ کھاکر بھی استقامت سے کھڑا رہنے والے انسان کے سامنے پھر یہ زمانہ ڈھیر ہوجاتا ہے مگر شرط ’’قوتِ برداشت ‘‘ ہے.
’’ کام سے محبت ،آپ کو محبت سے کام کرنا سکھادیتی ہے۔‘‘
یہ جملہ پروفیشنل زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے کسی مستند نسخے سے کم نہیں۔کام سے محبت ہی بہترین معیار کو وجود دیتی ہے اور انسان کمال تک پہنچ جاتا ہے۔ان کا یہ لکھا ہوا جملہ کہ

’’چوٹی پر جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے ۔‘‘
ہر انسان کے عزم کو برانگیختہ اور اس کو کچھ کر گزرنے پر بھڑکاتا ہے۔

درحقیقت عروج کے دروازے ہر انسان کے لیے کھلے ہیں لیکن اس کے لیے بلند خیالی بھی چاہیے،کہ اس کی بغیر انسان اوجِ ثریا پر نہیں پہنچ سکتا۔
’’زندگی کو پنچنگ بیگ نہ بنائیں جس پر ہر ایرا غیرا باکسنگ کی مشق کرے۔‘‘
یہ جملہ پڑھنے والے کو زندگی کی قدر و قیمت بتاتا ہے کہ آپ کی زندگی پرآپ ہی کا اختیار ہے دوسروں کو اس سے کھیلنے کا موقع ہرگز نہ دیں بلکہ اپنے بل بوتے پر اپنے لیے راستے بنائیں اور یہ پیغام بھی کہ زندگی ایسا کوئی جیل خانہ نہیں جس کے اسیر بن کر بیٹھ جاؤ۔ناامید مت ہو بلکہ آگے بڑھو،کیونکہ

’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔‘‘
’’خوشی دنیا کو مٹھی میں بند کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے آپ کو جاننے کا نام ہے۔‘‘
یہ الفاظ ان لوگوں کے لیے ہیں جو راحت وآرام کی تلاش میں اتنے بے آرام ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اپنے لیے بھی وقت نہیں۔وہ دنیا کو مٹھی میں بند کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ان کے من میں موجود بچہ ان سے کچھ تقاضا کرہا ہے۔وہ جینا چاہتاہے ۔آزادی چاہتا ہے لیکن دولت وشہرت کے پیچھے بھاگنے والے اس معصوم کا گلہ گھونٹ دیتے ہیں۔
اپنے تبصرہ نما مضمون کااختتا م اسی کتاب میں عارف انیس کے ایک اور پیراگراف سے کرتاہوں اورامید کرتا ہوں کہ آپ جب بھی یہ کتاب پڑھیں گے تو اس سے زیادہ مفید پائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’’گردبار اور سائیکلون کا مرکزی حصہ بالکل پرسکون ہوتا ہے۔اپنے لیے وقت نکالیں. طلوع ہوتا سورج ،غروب ہوتے وقت کی شفق،چاند کی ٹھنڈی روشنی،ستاروں کی دل آویز چمک اور پرندوں کے سریلے نغمے سننے کے لیے وقت نکالیں۔ سورج آپ کے لیے نکلتا ہے۔قوس قزح کے رنگ آپ کے لیے ہیں۔چاند آپ کی خاطر پانی میں اپنا عکس دیکھ کر مسکراتا ہے اور ستارے صرف آپ کے لیے جھلملاتے ہیں۔ زندگی صرف تیز رفتاری کا نام نہیں۔اپنے لیے وقت نکالیں !!‘‘

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply