تامل ٹائیگرز کے دیس میں (دوسرا حصہ)۔۔خالد ولید سیفی

میرا بازیاب شدہ پاسپورٹ خاتون کے ہاتھ میں، وہ آگے آگے، میں پیچھے پیچھے۔ کاؤنٹر سے بڑے افسر کے دفتر کا فاصلہ چند قدم تھا، مجھے لگا کہ بڑے افسر کے دفتر تک، میں کئی کلو میٹر کی مسافت طے کر کے پہنچا ہوں۔ ایک جانب سفر کی تھکاوٹ، دوسرا بڑے افسر کا خوف، دونوں نے مل کر کاونٹر اور دفتر کے فاصلے بڑھا دیے۔

مجھے خاتون کے پیچھے جاتے دیکھ کر محمد ہاشم اور منیر احمد جو دوسرے کاؤنٹر سے اپنے معاملات نمٹا چکے تھے، صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہمارے بلکہ میرے پیچھے ہو لیے۔

دفتر پہنچ کر خاتون نے پاسپورٹ، افسر کو تھماتے ہوئے اپنی بولی میں میرے سارے “جرم” بتانے شروع کیے۔ مجھے لگا کہ خاتون جرائم کی لمبی فہرست سنا رہی ہے۔ آخر میں مجھے کسی ڈرگ مافیا گروہ سے نہ جوڑا جائے۔ میں نے فورآ مداخلت کی اور ایک بار پھر اپنی پاکستانی شناخت ظاہر کرنے کی کوشش کی، کہ سیلوٹ نہ سہی، جان بخشی ہی ہو جائے۔

بڑے افسر نے منہ میری طرف کر لیا۔ انگریزی میں مجھ سے مخاطب ہوا۔ اپنی انگریزی ایسی، جیسے میزان چوک پر تربوز بیچنے والے خان گل کی اردو ہے۔ میری انگریزی گفتگو میں سے کچھ اس کے پلے پڑ رہا تھا کہ نہیں، مجھے نہیں معلوم، مگر میرے اپنے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔

چونکہ وہ وڈا افسر تھا، میرے الفاظ سے زیادہ چہرے کے تاثرات پڑھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میرے متعلق ان کے شکوک و شبہات کتنے صحیح اور کتنے غلط ہیں۔

چند منٹ کی بے وجہ تکرار کے بعد مجھے باعزت بری کرنے کا مژدہ سنایا گیا، اور پاکستان کو دوست ملک قرار دے کر کچھ حوصلہ افزائی بھی کی گئی۔ پاکستان دوست ملک کیسے، یہ اس وقت مجھے اندازہ نہ ہو سکا، بعد میں جا کر پتہ چلا کہ مشرف نے سری لنکا میں تین عشروں پر محیط تامل ٹائیگرز کی گوریلا تحریک کے خاتمے میں سری لنکن حکومت کی مدد کی تھی۔ مشرف نے صرف پاکستان نہیں ہر جگہ گل کھلائے تھے۔

میں مشکوک کیوں ٹھہرا تھا، کچھ خبر نہیں … مگر منیر نیازی کا یہ دریا بھی پار ہوگیا۔

دیگر ضروری چیکنگ سے فارغ ہوئے، ائیرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلنے ہی والے تھے کہ سادہ لباس میں ملبوس دو اہلکار راستہ روکے کھڑے تھے۔ بلوچستان میں تو سادہ لباس خوف کی علامت ہے، جس گھر میں آئے ماتم کی چادر ڈال کر چل دے۔ ہم تینوں کا ماتھا ٹنکا، سادہ لباس اہلکار۔۔۔ اٹھاکر نہ لے جائیں۔۔۔ ڈرل کر کے پھینک نہ دیں، یا اللہ تیرا ہی آسرا۔۔۔

اس سے پہلے کہ نومبر میں خوف سے ہمارے پسینے چھوٹتے، انھوں نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ اینٹی نارکوٹکس فورس سے ہیں۔
” آپ لوگ ساتھ والے کمرے میں تشریف لے جائیں۔”
یہ نئی آفت تھی۔

ہمارے آس پاس دیگر لوگ ائیرپورٹ سے باہر نکل رہے تھے، انھیں کوئی روک ٹوک نہ تھا، بس ہمیں پکڑ کر کمرے میں جانے کا کہا جا رہا تھا، یعنی ہم ایک بار پھر مشکوک ٹھہرے، پاکستانی جو ٹھہرے۔

اس کمرے میں دو اور پاکستانی اپنی تلاشی دے رہے تھے اور ان کے گرین پاسپورٹ ٹیبل پر پڑے منہ چڑا رہے تھے۔ جسم سے کپڑے نہ اتارے گئے تھے، باقی کچھ نہیں چھوڑا تھا۔ سارے بیگز کھول کر ٹٹولے جا چکے تھے، جیبیں الٹ دی گئی تھیں، جرابیں اتاری گئی تھیں، بوٹوں کا پوسٹ مارٹم جاری تھا۔

مجھے اندازہ ہوا کہ یہ مخصوص چیکنگ صرف پاکستان سے آنے والوں کے لیے تھی۔

ہم نے بھی بیگز کھول دیے، جوتے اتارے، جرابیں نکالیں، قمیص کے بٹن ان کے کہے بغیر کھولے ، بٹوے وغیرہ نکال کر جیبیں الٹ دیں، اسی دوران ایک اہلکار نے مجھے اپنے قریب بلایا، اپنا موبائل نکالا، میں سمجھا کہ میری شخصیت سے متاثر ہو کر سیلفی لینے لگا ہے، لیکن اس نے کچھ تصویریں دکھائیں اور بتایا کہ دو دن قبل یہ لوگ پاکستان (لاہور) سے آئے تھے، انھوں نے منشیات سے بھرے کیپسول کھائے ہوئے تھے جو ان کے پچھواڑے کے راستے برآمد کر لیے گئے، کیپسول کی تصویریں بھی ساتھ تھیں، مجرموں میں دو مرد اور ایک خاتون شامل تھیں۔
تینوں کا تعلق ” ہم زندہ قوم ہیں” سے تھا۔
…………………….

آج 6 نومبر ہے، ہماری فلائیٹ چار بج کر تیس منٹ پر کراچی سے روانہ ہوئی اور پورے تین گھنٹے بعد کولمبو ائیر پورٹ پر لینڈ کرگئی۔

موسم کراچی جیسا تھا، نومبر کی رات میں بھی ٹھنڈ کا وجود نہ تھا۔ کراچی، بمبئی، کولمبو ایک قطار میں ہیں، تینوں بڑے ساحلی شہر ہیں، بس سمندر کی شناخت الگ ہے جو بحیرہ عرب سے بحرہند بن جاتا ہے۔ مگر چابھار تا گڈانی بحیرہ بلوچ کیوں نہیں؟، سوال کی تشنگی برقرار ہے۔ کسی نے بتایا منتشر اقوام کے بحر نہیں ہوتے، ان کے دریا بھی نہیں ہوتے، ان کی مٹی بھی نہیں ہوتی۔۔۔ کیا سچ، کیا جھوٹ۔۔۔

شناخت بڑی اہمیت کی حامل چیز ہے۔ بہت اونچی چیز ہے، شناخت بچانے کے لیے یا بنانے کے لیے جنگیں لڑی جاتی ہیں، افراد میں بھی، اقوام میں بھی، قومیں فنا ہوتی ہیں، قبرستان آباد ہوتے ہیں، جانیں دی جاتی ہیں، لی جاتی ہیں، جان جائے، پر شناخت نہ جائے، شناخت ایک طرح عزتِ نفس کے ہم معنی ہیں، یعنی شناخت نہیں تو عزتِ نفس نہیں۔ عزتِ نفس نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

عزتِ نفس کے لیے حمل جیئند مرتے ہیں، داد شاہ مرتے ہیں، پہلے بھی مرتے تھے، آگے بھی مرتے رہیں گے۔

ہم ایئر پورٹ سے باہر آئے، سکھ کا سانس لیا۔ رات کے سائے پھیل چکے تھے۔ کولمبو کی چلتی ہوا ہم سے بوس و کنار ہو کر رات کے پھیلتے سائے کے ساتھ بغل گیر ہو رہی تھی۔ رات کا موسم اچھا تھا۔ کولمبو گرم علاقہ ہے۔ گرم علاقوں میں نومبر کی راتیں موسم کی معراج ہوا کرتی ہیں۔

باہر ٹیکسیوں کی قطار تھی۔ ہم نے بظاہر ایک بھلے مانس کو جا لیا اور ان سے کولمبو جانے کا کرایہ پوچھا۔
“تین ہزار بھیا”
” یہ بہت زیادہ ہے” ہاشم بول پڑا۔
” زیادہ کبھی نہیں بولنے کا۔” ٹیکسی ڈرائیور نے اعتماد سے جواب دیا۔
ہم نے زیادہ تکرار مناسب نہ سمجھی، سامان ٹیکسی میں رکھوا دیا اور ایئرپورٹ سے کولمبو شہر کو روانہ ہوئے۔
شہر اور ائیرپورٹ کے مابین کافی فاصلہ ہے۔

سری لنکا محمد ہاشم کا انتخاب تھا، منیر احمد نیپال کے جنگلوں کا خواہش مند تھا، میرا پروگرام تاجکستان یا ازبکستان جانے کا تھا، آذربائیجان کے بعد دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کو دیکھنے کا اشتیاق اور زیادہ بڑھ چکا تھا۔ موسم سے لے کر خوراک تک، تہذیب سے لے کر چلن تک، سب کچھ باکمال تھا، باوقار تھا، لاجواب تھا۔ وسط ایشیائی ممالک کے ہر پتھر پر تاریخ کے نقوش ملیں گے۔ برصغیر کی تاریخ کی ہر تان وسط ایشیا سے جا کر ملتی ہے؛ بابر سے تیمور تک۔

ٹیکسی رواں دواں تھی۔ ڈرائیور حد درجہ باتونی تھا۔ کامران نام کا مسیحی ڈرائیور اپنی ٹیکسی بکنگ کروانے کے چکر میں تھا۔

” تم کو سارا شہر دکھانے کا، پورا کولمبو گھمانے کا، کینڈی لے جانے کا۔”
وہ اگلی سیٹ پر بیھٹے محمد ہاشم کے ساتھ انھی باتوں میں لگا ہوا تھا اور ہماری سوئی گھوم پھر کر کرایہ پر آ کر رکتی تھی۔

” ایک دن کا کرایہ کتنا لینے کا؟” منیر احمد نے لقمہ ڈالا۔
” 7000 ہونے کا” کامران نے گردن گھمائے بغیر جواب دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply