• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سیڑھیوں پہ بچوں کی پیدائش ، اجتماعی بے حسی۔۔۔طاہر یاسین طاہر

سیڑھیوں پہ بچوں کی پیدائش ، اجتماعی بے حسی۔۔۔طاہر یاسین طاہر

لفظوں کی ترتیب نہیں بن پا رہی، نہ ہی خیالات کسی سمت کا رخ کر رہے ہیں۔سوچوں کی ایک لہر اٹھتی ہے تو دوسری اسے دبوچ لیتی ہے۔ہم کون لوگ ہیں؟ ہم کیا لوگ ہیں؟ ہم کیسا معاشرہ ہیں؟ کیا واقعی ہم ایک قوم کہلانے کے حقدار ہیں؟حکمران طبقات کے کاسہ لیس تواتر سے کہتے ہیں، اخبار نویس مایوسی پھیلاتے ہیں۔کیا اخبار نویس سیاہ کو سفید لکھا کریں؟صر صر کو صبا کہیں؟ظلمت کو ضیا کہیں؟ اخبار نویس نے تو وہی لکھنا ہے جو سامنے ہے، یہ کوئی پروپیگنڈا نہ تھا ،نہ ہی کسی خواہش کو خبر کا جامہ پہنایا گیا،نہ ہی “ذرائع” کا یہ کہنا تھا۔ یہ ایک معروضی خبرتھی مگر سماج کے منہ پہ طمانچہ۔ جو گنگا رام ہسپتال اور رائیونڈ کے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں پیش آیا وہ واقعی دلگیر ہے۔کیا اخبار نویس یا رپورٹر ان سانحات کو نظر انداز کر دیتے؟خبر ہے کہ خادم اعلیٰ سرکار نے دونوں واقعات پہ ایکشن لے لیا ہے۔اللہ اکبر۔کیا یہ ایکشن پہلی بار لیا گیا ہے؟اگر کوئی کمیشن بھی بن جائے تو کیاہوگا؟ ماڈل ٹاون سانحہ کے کمیشن کی رپورٹ کا کیا بنا؟سماج اس پریکٹس کا عادی ہو چکا ہے۔ہر خود کش حملے کے بعد وزیر اعظم ، وزرائے اعلیٰ تحقیقاتی رپورٹ مانگ لیتے ہیں۔ریپ ہو جائے تو خادم اعلیٰ مع لائو لشکر مظلوم کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ امداد کا اعلان،ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے دعوے اور پھر کسی نئے سانحے کا انتظار۔کیا یہی حل ہے؟گڈ گورنس کس چیز کا نام ہے؟
شاید ایسا قبل از مسیح میں بھی نہ ہوتا ہو گا،ممکن ہے وحشی قبائل بھی اپنے قبیلے کے نظم کے تحت زچگی کا مناسب انتظام کرتے ہوں،کوئی خیمہ تنا جاتا ہو،کسی غار کو مختص کر لیا جاتا ہو۔یہ مگر اکیسویں صدی کا پاکستان ہے اور اس کے صوبے پنجاب کا لاہور شہر۔صحت مند پنجاب، تعلیم یافتہ پنجاب کے اشتہارات پہ تکیہ کرنے والوں نے کبھی اصل صورتحال پہ توجہ ہی نہ کی۔پنجاب کے سرکاری ہسپتالوں کے ہر شعبے کا معاملہ تشویش ناک ہے۔ کوئی تین سال ادھر پنجاب کارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ میں کوئی دو درجن کے قریب مریضوں کو ایسی ادویات دی گئیں جو ناقص اور زائد المیعاد تھیں۔اس واقعے کی انکوائری بھی کرائی گئی تھی۔ نتیجہ؟ ذمہ داروں کو کیا سزا ملی؟تازہ واقعہ محکمہ صحت کی زبوں حالی اور بے حسی کی وحشت ناک مثال ہے۔ کیا اس سے دنیا بھر میں پاکستان کی سبکی نہ ہوئی ہو گی کہ گنگارام ہسپتال میں لیبر روم کے باہر فرش پر بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔اہلخانہ نے ہسپتال انتظامیہ پر غفلت کا الزام عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ خاتون شبانہ ریاض کو ڈیلیوری کے لیے گنگا رام ہسپتال لایا گیا لیکن چونکہ ان کے پاس ہسپتال کا کارڈ نہیں تھا، لہٰذا انتظامیہ نے انہیں داخل کرنے سے انکار کردیا۔جس کے بعد خاتون نے ہسپتال کے باہر سیڑھیوں پر بچے کو جنم دیا۔پیدائش کے تھوڑی ہی دیر بعد اُس وقت پریشان کن صورتحال پیدا ہوئی، جب بچے کی سانس اچانک رک گئی، جس پر ایک نرس نے آکر بچے کی سانس بحال کی۔واقعے کے بعد وزیر صحت پنجاب خواجہ سلمان رفیق گنگا رام ہسپتال پہنچے اور ڈائریکٹر ایمرجنسی ڈاکٹر عبدالغفار کو معطل کرتے ہوئے 3 رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس واقعے سے کوئی دو دن قبل رائیونڈ کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں ڈاکٹر کی عدم موجودگی اور عملے کی جانب سے علاج معالجے سے انکار کے باعث ایک خاتون نے ہسپتال کے باہر فرش پر بچے کو جنم دیا۔ہسپتال کی جانب سے کی گئی ابتدائی انکوائری کے مطابق رائیونڈ کے نواحی گاؤں سے ایک خاتون سمیرہ بی بی کو زچگی کے لیے صبح سوا 6 بجے کے قریب تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لایا گیا، تاہم ڈاکٹر موجود نہ ہونے پر عملے نے علاج معالجے سے انکار کردیا، جس کے بعد خاتون نے ساڑھے 6 بجے  ہسپتال کے باہر فرش پر بچے کو جنم دیا۔دونوں واقعات افسوس ناک بھی ہیں اور عبرت ناک بھی۔کوئی تین عشروں سے نون لیگ کسی نہ کسی شکل میں پنجاب پر حکمران ہے۔ مگر ڈھنگ کا ایک ہسپتال بھی نہ بن سکا۔جو پہلے سے موجود ہیں، ان کی حالت یہ ہے کہ کئی شعبے غیر فعال ہیں،اگر کوئی شعبہ فعال ہے تو ڈاکٹرز اور معاون عملہ پورا نہیں،اگر ڈاکٹرز اور عملہ موجود ہے تو مریضوں کے داخلے کے لیے بیڈز کم ہیں۔ایک عام تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں روزانہ گائنی کی او پی ڈی پانچ سے سات سو تک ہوتی ہے، اور ڈیلیوری تقریباً سات سے آٹھ روزانہ۔مجھے راولپنڈی کے کچھ ہسپتالوں کے مختلف شعبوں کے وزٹ کا اتفاق ہوا۔
مریضوں نے ہمیشہ ڈاکٹرز کے جارحانہ رویے کی شکایت کی،جبکہ گائنی کی ڈاکٹرز اور عملہ،پروٹوکول مریضوں کے علاوہ زچگی کے عمل سے گذرنے والی ہر مریضہ کو ڈانٹتا بھی ہیں، اور انھیں جاہل و گنوار بھی کہا جاتا ہے۔کیا ہفتہ صحت منانے،یا ہسپتال کے باہر اور اندرونی دیواروں پر خادم اعلیٰ کی تصاویر چسپاں کرنے سے محکمہ ٹھیک ہو جائے گا؟نہیں حضور ایسا نہیں۔یہ ایسا کون سا کارڈ ہے جس کے نہ ہونے کے بعد ایک مریضہ کو رسوا کن انداز سے گائنی وارڈ سے نکال دیا گیا؟بالکل ضروری ہوتا ہو گا یہ کارڈ جس پہ مریض کی تفصیلات ہوں گی، لیکن اگر کسی کے پاس نہ ہو ،یا کسی وجہ سے گم ہو گیا ہو،تو کیاوہ  ان حقوق سے دستبردار ہو جائے جو ریاست کی طرف سے اسے حاصل ہیں؟ کیا غریب لوگ ٹیکس نہیں دیتے؟
معاشروں کی ترقی کا راز اشتہارات نہیں۔اشتہارات میں تو ہر محکمہ ترقی کی اوج پہ ہے۔ زمینی حقائق مگر اور طرح کے ہیں۔گنگا رام ہسپتال کی وارڈ انچارج ڈاکٹر بھی تو اپنی ڈیوٹی پہ موجود نہ تھی۔ کیا اب اسے حق ہے کہ وہ محکمہ صحت میں خدمات انجام دے؟بالخصوص گائنی کے سٹاف اور ایمرجنسی میں کام کرنے والے سٹاف کو دیگر سے زیادہ خلیق اور رحم دل ہونا چاہیے۔یہاں مگر ڈاکٹرز ہی تو گردوں کی غیر قانونی پیوند کاری میں ملوث ہیں۔محکمہ صحت کا عملہ ہی تو نومولود بچوں کو ہسپتال کے اندر سے ہی غائب کرنے میں معاونت کرتا ہے۔ کئی مثالیں موجود ہیں۔فرش پر زچگی کے عمل سے گذرنے والی خواتین کیا ساری عمر ایک نفیساتی الجھن میں نہ رہیں گی؟ایسا واقعہ بالفرض دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں پیش آتا تو اس وقت تک سارا عملہ جیل میں ہوتا، وزیر صحت و سیکرٹری صحت مستعفی ہو چکے ہوتے۔ہمارے ہاں تو فارماسسٹ کمپنیاں ڈاکٹروں کو کمیشن دے کر ناقص ادویات لکھوانے پر راضی کر لیتی ہیں۔واللہ محکمہ صحت کے عملے کی ذہنی تربیت کے لیے ادبا و شعرا اور قلم کاروں سے لیکچرز دلوائے جانے ضروری ہیں، جو ان کے اندر یہ احساس بیدار کریں کہ ان کی حیثیت مسیحا کی ہے، مسیحائی یہ نہیں کہ مریض کو جاہل، گنوار کہا جائے ،بلکہ اس کی دلجوئی کی جائے، اسے زندگی کی امید دلائی جائے۔اجتماعی حیثیت میں تو ہماری حکومتی  ترجیحات میں نہ تعلیم ہے نہ صحت،نہ نئے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں، نہ بنے ہوئے ہسپتالوں کی حالت زار بہتر کی جا رہی ہے۔ صرف اشتہارات میں ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں، اور حالت یہ ہے کہ جگر کا ٹرانسپلانٹ کرانا پڑ جائے تو پاکستانی مریض کو پڑوسی ملک بھارت کا ویزہ لینا پڑتا ہے۔وہ بھی ہزار جتن کر کے۔گنگا رام ہسپتال ہو، یا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال رائے ونڈ،واقعے کے ذمہ داروں کو معطل کرنے کے بجائے محکمہ سے ہی بے دخل کیا جائے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply