2020تعلیمی بد حالی کا سال  ۔۔ محمد نعیم شہزاد

تعلیم انسان کا بنیادی حق اور دور جدید کی ایک اہم ضرورت ہے۔ دور جدید کی جدت کے ساتھ جدید مسائل سے بھی سابقہ پڑتا ہے اور انسان کو کو اپنی کم مائیگی اور کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور بسا اوقات انسان نئے چیلنجز کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ مگر انسان کا مقام و مرتبہ اسے ہار ماننے نہیں دیتا اور وہ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرتا ہوا کامیابی کو اپنا مقدر بنا لیتا ہے۔ سال 2020 میں دنیا بھر میں کرونا وائرس ایک بڑی آفت بن کر سامنے آیا اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پاکستان میں پہلا کرونا کیس کراچی میں 26 فروری کو رپورٹ ہوا اور اگلے ہی دن کراچی میں تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ جب کرونا کا پھیلاؤ بڑھا تو  ملک کے دیگر صوبوں میں بھی 15 مارچ سے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے۔ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ کاروبار زندگی بھی متاثر ہوا اور ہسپتالوں میں او پی ڈی، بازار، شادی ہال، مسجد اور دیگر تمام قسم کے اجتماعات پر پابندی عائد کر دی گئی۔ تعلیمی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے مجبوراً بغیر تیاری کے پہلی مرتبہ آن لائن سسٹم کی طرف آنا پڑا اور طلباء کو مسلسل چھے ماہ سے زائد مدت کے لیے اس تجرباتی طریقہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنا پڑا۔

یہ ایک افسوسناک امر تھا کہ ٹیکنالوجی کے عروج کے اس زمانے میں جبلک میں 5 جی ٹیکنالوجی آنے کو ہے ہمارے تعلیمی اداروں کے پروفیشنلز اور طلباء تعلیم کے لیے اس کے استعمال سے ناواقف ہیں۔ مشاہدے میں آیا کہ اس آن لائن نظام تعلیم سے بچوں سے بڑھ کر بڑے پریشان تھے اور سکول کے طلبا سے زیادہ یونیورسٹی کے طلباء پریشانی کا سامنا کر رہے تھے۔ وہ طلباء جو سابقہ حکومت کے دور اقتدار میں لیپ ٹاپ حاصل کر چکے تھے ان کی ایک بڑی تعداد آج تک اس کے استعمال سے بے خبر رہی۔ یقیناً اسے علم سے دوری اور عدم دلچسپی ہی کیا جا سکتا ہے کہ آج جب ہر شہر اور دیہات میں لوگ ہر طرح کی موبائل ایپلیکیشنز کا استعمال کر سکتے ہیں تو آن لائن تعلیم میں مشکل کیوں پیش آئی۔ اس سے قبل بھی ہم دیکھتے ہیں کہ وہ طلباء جو اپنے تعلیمی معاملات میں کمزوری دکھاتے ہیں آن لائن یا فزیکل ایکٹیوٹیز میں صف اول میں نظر آتے ہیں۔ شاید ہماری تعلیم سے بے اعتنائی ہی کا نتیجہ تھا کہ کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا سیکٹر بھی تعلیم ہی کا تھا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ ہمارے ملک میں تعلیم کسی مافیا کے زیر اثر نہیں ہے یا اگر ہے تو مافیا کو ادارے بند ہونے یا کھلنے سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ورنہ اشیائے خورد و نوش سے پیٹرولیم مصنوعات تک ہر چیز مافیا کے زیر اثر آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہے تو کیسے ممکن تھا کہ ایک لمبے عرصے تک تعلیمی ادارے مکمل طور پر بند رہتے۔

اس لاک ڈاؤن سے سب سے بڑھ کر وہ بچہ متاثر ہوا جو لاکھ جتن کے بعد سکول بھیجا گیا تھا۔ وہ بچہ جو کسی بھٹے پر کام کرتا تھا یا گلی محلے میں چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچتا نظر آتا تھا اور سابقہ حکومت کے دور میں خصوصی پیشکش پر سکول آنے لگا تھا۔ مگر اب تو اس طرح کے کئی اور بچے ملیں گے جنہوں نے لاک ڈاؤن طویل ہوتے ہ تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور اپنے گھر کا چولہا جلانے کی تگ و دو میں لگ گئے۔ لاک ڈاؤن کے دنوں میں جب بازاروں پر سے کچھ سختی ہٹائی گئی تو ایک ایسے ہی بچے نے، جو بازار میں ایک ٹوکرا اٹھائے روزی روٹی کے لیے پھر رہا تھا مجھے موبائل فون سے مارکیٹ کی تصویر لیتے دیکھ کر خیال کیا کہ میں میڈیا کا آدمی ہوں اور رپورٹنگ کرنے آیا ہوں، سوال داغا، “سر یہ لاک ڈاؤن کب تک ختم ہو گا؟” میں اس کے سوال میں چھپے مایوسی اور امید کے ملے جلے جذبات کو الفاظ میں بیان کرنے سے اپنا دامن خالی پاتا ہوں۔ اس کو ایک  اور امید دلاتا آگے بڑھا تو اس لڑکے کی آواز کانوں سے ٹکرائی جو اب اپنے ایک ساتھی سے بات کر رہا تھا کہنے لگا،” اوئے لگدا اے ہن ایہہ تصویر میڈیا تے آئے گی تے فیر چھاپہ پے جائے گا تے بازار فیر بند” (لگتا ہے کہ یہ تصویر میڈیا پر چلے گی اور پولیس چھاپہ مار کر مارکیٹ بند کرا دے گی)۔ کتنے ہی ایسے بچے ستمبر میں سکول کھلنے پر سکول نہ جا سکے۔ ان کے مستقبل کے ادھورے خواب کون چرا لے گیا۔ یقیناً ارباب اختیار و اقتدار کو اس بارے خوب سوچنا ہو گا۔

متاثرین میں دوسرا بڑھا طبقہ پرائیویٹ اداروں کے اساتذہ ہیں جنہیں یا تو نوکری سے برطرف کر دیا گیا یا بعض صورتوں میں نصف یا تھوڑی بہت تنخواہ پر آمادہ کر لیا گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ بہت سارے بچوں کے والدین نے فیس ادا نہیں کی کیونکہ ان میں سے بھی اکثر کرونا کی وجہ سے بیروزگار ہو چکے تھے مگر جن کا اچھا خاصا بزنس تھا وہ زیادہ روتے نظر آئے اور گورنمنٹ کی طرف سے 20 فیصد کم کی ادائیگی کے فیصلے کے باوجود بچوں کی فیس ادا کرنے سے باز ہی رہے۔ تاہم پھر بھی سکول مالکان کو اچھا خاصا ریونیو مل ہی گیا مگر کیا کیا جائے ان اساتذہ کا جنہیں قوم کی تعمیر و ترقی کی بجائے گھر کے چولہے اور پیٹ کی فکر لاحق ہو گئی۔ بہت سے اساتذہ تو توبہ تائب ہو گئے اور اساتذہ حالات کو جیسےتیسے برداشت کر گئے۔

متاثرین کا تیسرا طبقہ ان والدین کا ہے جو بچوں کو سکول بھیج کر خود چین کی بنسی بجاتے تھے۔ ان کا تو بچوں نے بینڈ ہی بجا دیا اور سکول کھلنے کے سب سے زیادہ طلبگار یہ والدین ہی تھے۔ حالانکہ ایسے وقت میں جب تعلیمی ادارے بند تھے والدین پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ وہ بچوں کو تعلیمی حرج سے بچائیں اور جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کو اپنی تعلیمی کمی پورا کرنے کے لیے فعال رکھیں مگر صد افسوس کہ والدین کی اکثریت نے اس وقت کو یہ سوچتے ہوئے گزار دیا کہ بچوں سے فرار کیسے حاصل ہو۔ بہت تھوڑی تعداد میں ایسے والدین بھی تھے جنہوں نے پوری ذمہ داری اور مستعدی سے بچوں کے اس وقت کو قیمتی بنایا اور ان کی تمام تعلیمی کمیوں کو دور کرنے کا شاندار موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ حکومت نے بورڈ کلاسز کے لیے سلیبس میں کمی کر دی اور امتحانات بھی تاخیر سے کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر بچوں کا ہونے والا نقصان صرف اسی صورت پورا ہو سکتا تھا کہ والدین خود ان کو وقت دیتے۔

ستمبر میں تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد سخت انتظامات کیے گئے اور ایس او پیز پر عمل کو یقینی بنایا گیا اسی وجہ سے تین ماہ سے بھی قلیل عرصہ کے لیے ادارے کھولنے پر اداروں میں خاطر خواہ کیس رپورٹ نہیں ہوئے۔ مگر حفظان صحت کے لیے ایک تدبیر کے طور پر ایک بار پھر سے اداروں کو نومبر کے آخری ہفتے میں بند کر دیا گیا۔ اوپر بیان کیے گئے متاثرین کے لیے یہ دوسرا لاک ڈاؤن پہلے سے شدید تر رہا اور جنوری میں اداروں کے دوبارہ کھلنے کا اعلان ایک بڑی نعمت لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وقت کبھی ٹھہرتا نہیں ہے اور کسی کا انتظار بھی نہیں کرتا۔ سال 2020 میں ہم نے جو کھویا اور جو پایا وہ اب ماضی کا حصہ بن چکا۔ سال 2021 میں تعمیری سوچ کے ساتھ آغاز کیجیے اور اپنے لیے بلند عزائم طے کریں اور پوری تندہی سے ان کے حصول کے لیے کمر بستہ ہوں۔ انسان ہونے کے ناطے یہی آپ کا شیوہ اور امتیاز ہونا چاہیے کہ کچھ بھی ہو اپنے مقصد اور لگن سے پیچھے نہ ہٹیں۔ یقیناً کامیابی آپ کا مقدر ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply