زید اور کورسیا (4)۔۔وہارا امباکر

ایک محفل میں کسی واقف کار سے بات چیت چھڑ گئی جو ناقابلِ یقین تھی۔ ہم انہیں “زید” کہہ لیتے ہیں۔ سیاست، ویکسین اور بہت کچھ اور۔ وہ کسی اور ہی متبادل حقیقت میں رہائش پذیر تھے۔ ہاں، مجھے بحث میں نہیں پڑنا چاہیے تھا لیکن ان کے دلائل کا پیٹرن جانا پہچانا تھا جو آپ کو بھی عام دیکھنے کو ملتا ہو گا۔ ان کے خیال میں کسی شعبے کے ماہرین کی رائے کی خاص وقعت نہیں (سائنسدان اکثر غلط ہوتے ہیں)۔ اور ساتھ ہی (بغیر اس تضاد کو پہچانے) کسی اور شخص کا شک ان سب پر فوقیت رکھتا تھا (کیونکہ وہ ٹھیک بھی تو ہو سکتا تھا)۔ مسلسل غیرمتعلقہ نکات اور اصرار کہ “ہمیں میڈیا کی بنائی ہوئی رائے سے ہٹ کر آزادانہ سوچنا چاہیے” (اس فقرے کا جو بھی مطلب ہے)۔ کچھ دیر گفتگو کے بعد، نہ ہی میں نے اور نہ ہی زید نے اپنی رائے تبدیل کرنے کا کوئی اشارہ دیا۔ مجھے اپنی فرسٹریشن میں جو بات سمجھ نہیں آ رہی تھی، وہ یہ کہ اتنی واضح چیزوں میں مسئلہ کہاں پر آ رہا تھا۔

اور اس وقت ایک سننے والے نے نکتہ اٹھایا جو بہت دلچسپ تھا۔ زید جس چیز کو کنفیوز کر رہے تھے، وہ کسی چیز کا ممکن ہونا اور امکان کی ریاضی تھی۔ اور یہی زید کے سارے آرگومنٹ کی بنیاد تھی۔ “آپ اس امکان کو رد نہیں کر سکتے کہ 2 مئی 2011 کو ہونے والے آپریشن میں مرنے والا شخص اسامہ نہ ہو” یا “ کیا یہ بالکل ہی ناممکن ہے کہ ویکسین لینے کے بعد ذہنی بیماری کے امکان میں بالکل بھی اضافہ نہیں ہو سکتا“۔ جی ہاں، خواہ ان کی بات کا امکان جتنا بھی کم ہو لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ “نہیں، اس کا امکان صفر ہے”۔ لیکن اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟
ہم فیصلے ممکن ہونے پر نہیں بلکہ اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ ہمارے بہترین اندازے میں امکان کتنا ہے۔ اس بات کا مطلب کیا ہے؟

اگر کسی بات میں دو چیزوں کا امکان ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ امکان برابر ہے۔ مثال کے طور پر آپ کسی کو رات کے کھانے کی دعوت دیتے ہیں اور وہ جواب دے “اگر کسی خلائی مخلوق نے زمین پر حملہ نہ کر دیا تو میں آ جاوٗں گا ”۔ ایسا ممکن ہے کہ رات کے کھانے سے پہلے کوئی خلائی مخلوق حملہ کر دے، خواہ اس کا امکان کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔ لیکن ہم ایسا ہونے کے امکان کو، ایسا نہ ہونے کے امکان کے برابر کی جگہ اپنے پلان میں نہیں دیتے۔
اس کی ریاضی کے لئے بیز تھیورم استعمال کیا جاتا ہے جو عملی فیصلوں کے لئے بہت مفید اوزار ہے۔ اس کی مکمل تفصیل پھر آئندہ۔ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟
ویکسین کے بارے میں ہماری بہترین سمجھ یہ کہتی ہے کہ اس سے ذہنی صحت پر فرق نہیں پڑتا۔ کیا یہ سو فیصد یقین سے کہا جا سکتا ہے؟ نہیں۔ کیونکہ ریاضی میں ایسا نہیں ہوتا۔ تو پھر؟ کیا زید ٹھیک نہیں؟ نہیں۔ وہ غلط سوال پوچھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ دستیاب شواہد کے مطابق میں نے اپنے بچوں کی صحت کا داوٗ اس فیصلے پر کھیلنا ہے تو پھر کس طرف؟ اب فیصلہ بہت آسان ہے۔ اگر مجھے بچوں کی صحت عزیز ہے تو درست فیصلہ ویکسین دینے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس طرح پاگلیوچی اپنے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں جس میں ان کی سوشل میڈیا پر کسی سے بات ہوئی۔ ہم انہیں “کورسیا” کہہ لیتے ہیں۔ کورسیا ذہین تھیں اور انہوں نے بہت کچھ پڑھا ہوا تھا۔ موضوع ارتقا کا تھا۔ پاگلیوچی کا اسی شعبے میں تیس سالہ تجربہ ہے۔ وہ اس کے ایکسپرٹ ہیں۔
اس بارے میں پاگلیوچی کی پوزیشن کیا ہے؟ اس پر ان کی بہت تحریریں ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ارتقا کی تھیوری خود ارتقا پذیر ہوتی رہی ہے۔ 1859 میں ڈارون ازم سے لے کر 1930 اور 40 کی دہائی میں ہونے والے سنتھیسز اور پھر موجودہ وقت میں ایکسٹنڈڈ سنتھیسز تک یہ کئی اقساط میں بدلتی رہی ہے اور یہ جاری رہے گا۔ ڈارون کے مشترک جد اور نیچرل سلیکشن کے اصل آئیڈیا میں کچھ بنیادی غلطی نہیں تھی لیکن اگلی ڈیڑھ صدی میں اس میں نئے شعبے، وضاحت کے تصورات اور ایمپیریکل رزلٹ آتے رہے ہیں۔ انکوائری کے علاقے کھلتے رہے ہیں اور یہ جاری رہے گا۔ کہانی ختم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
کورسیا کا خیال مختلف تھا کہ ڈارون ازم ایک “ریڈکشنسٹ” تھیوری ہے۔ گویا کہ یہ خود میں ایک الزام ہو۔ ریڈکشنزم سائنس میں ایک بہت کامیاب حکمتِ عملی ہے۔ اگر اس کو ٹھیک طریقے سے کیا جائے تو اس نے ہمارے علم کو بڑھانے میں بہت کردار ادا کیا ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ بڑے مسئلے کو حل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اسے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر یا جائے اور ہر حصے کو الگ الگ حل کیا جائے اور پھر ٹھیک طریقے سے جوڑ کر تصویر مکمل کی جائے۔
اس مکالمے کے بعد؟ اگلا مکالمہ غور سے پڑھنے والا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورسیا: “بیکٹیریا کے فلیجلا کی وضاحت کیسے کی جائے گی؟ یہ سوال مائیکل بیہے کا ہے (جو ڈیزائن کری ایشنسٹ ہیں)۔ بیہے سائنسدان ہیں۔ پی ایچ ڈی ہیں۔ اچھی یورنیورسٹی میں کام کرتے ہیں۔ اب بتائیں، پروفیسر پاگلیوچی”۔
پاگلیوچی: “جہاں تک بیہے کا تعلق ہے تو ہمیں ہمیشہ ہر شعبے میں ایسے اکیڈمک ملیں گے جو مین سٹریم پوزیشن سے ہٹ کر ہوں گے۔ ایسا ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ ہمیں سوچ پر مجبور کرتے ہیں اور چوکس رکھتے ہیں۔ کئی بار ایسے لوگ عام رائے سے اتنی دور ہوں گے کہ یہ گرے علاقہ ہو گا۔ کچھ خود کو باغی کہتے ہوں گے۔ کچھ کے لئے ان کی نظریاتی وابستگی ترجیح رکھتی ہو گی۔ لیکن یہ سب اچھا ہے کیونکہ سائنس ایک سوشل انٹرپرائز ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ساتھ کئی پیپر ڈسکس کر سکتا ہوں جو اس کے بارے میں وضاحت کے ایمپریکل ممکنات بیان کرتے ہیں”۔

کورسیا: “پھر ارتقا کے بارے میں سائنسدانوں میں اتنے اختلافات کیوں ہیں۔ اور ابھی تک زندگی کی ابتدا کے بارے میں کوئی جواب کیوں نہیں ہے”
پاگلیوچی، “دو الگ سوال ہیں۔ میں جتنے بھی پروفیشنلز کو جانتا ہوں، ان میں سے کوئی بھی اس سے بنیادی اختلاف نہیں رکھتا۔ کئی جزئیات پر اختلافات رہتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے کسی بھی اور شعبہ علم میں ہوتے ہیں۔ فزکس میں بھی کئی اختلافات ہیں۔ لیکن ان کا یہ مطلب نہیں کہ نیوٹن یا آئن سٹائن کے پورے فریم ورک سے ہی کوئی اختلاف رکھتا ہے۔

جہاں تک زندگی کی ابتدا کا تعلق ہے تو اس پر کئی خیالات ہیں لیکن کوئی بھی اتفاق نہیں پایا جاتا۔ ہمارے پاس انفارمیشن اتنی نہیں کہ ان میں سے ایک یا چند خیالات کو منتخب کر سکیں۔ اور شاید کبھی بھی نہیں کر سکیں گے۔ بدقسمتی سے، اتنا قدیم تاریخی ریکارڈ زمین سے ہمیشہ کیلئے مٹ چکا ہے۔ اگر ہم کبھی زندگی کو لیبارٹری میں شروع سے تخلیق کرنے کے قابل ہو بھی گئے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہو گی کہ زندگی پہلی بار ایسے ہی نمودار ہوئی۔ لیکن فرق کیا پڑتا ہے؟ ایسی کوئی گارنٹی نہیں کہ ہمیں ہر سوال کا جواب ملے۔ ہم اپنی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن یہ ہمیشہ کافی نہیں ہوتی۔ دانشمندی یہ ہے کہ تسلیم کر لیا جائے کہ انسانی علم کی اپنی حدود ہیں اور رہیں گی اور آگے بڑھ جایا جائے”۔
کورسیا: “اور وہ پینروز کی کوانٹم شعور کی وضاحت؟ کیا یہ نہیں بتاتی کہ شعور کائنات کی صفت ہے؟”
پاگلیوچی: “پینروز ایک بہترین سائنسدان ہیں اور ان کی اس بارے میں دلائل سائنسی بنیاد پر ہیں۔ بہت سے سائنسدان ان سے اس پر اتفاق نہیں کرتے۔ اور، وہ خود بھی تسلیم کریں گے کہ لازم نہیں کہ ان کی تھیوری درست سمت میں ہو۔ لیکن اگر ان کی تھیوری درست بھی ہے تو اس کا ارتقا سے کیا تعلق؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ گفتگو کئی روز تک چلتی رہی اور بغیر نتیجے کے ختم ہو گئی۔ اس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ کئی باتیں۔ اول تو یہ کہ ایسے مکالمات معاملات طے نہیں کرتے۔ خواہ وہ شعبے کا بہترین ماہر ہی کیوں نہ ہو۔ اب سوال یہ کہ کیا کیا جائے؟
یہاں پر یہ بات یاد رکھیں کہ کورسیا ذہین تھیں۔ وسیع مطالعہ تھا۔ اور واقعی میں متجسس تھیں۔ دوسرا یہ کہ چونکہ مطالعہ وسیع تھا تو نہ صرف انہوں نے نہ صرف سائنس کی اچھی کتابیں پڑھیں تھیں بلکہ ڈینٹن اور بیہے کو بھی۔ اور ان کو اس کا علم نہیں تھا کہ تفریق کیسے کریں۔ “یہ لکھنے والے بھی تو اچھی یونیورسٹیوں کے پی ایچ ڈی ہیں”۔

تیسرا یہ کہ ہم تصور کرتے ہیں کہ نالج ہمیشہ ہی اچھی چیز ہے۔ کئی بار “تھوڑا سا نالج” مکمل لاعلمی سے برا ہوتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اچھے اور برے نالج میں تمیز کرنا آسان نہیں رہتا۔ جہاں تک تو ارتقا کی بات ہے تو اس سے زیادہ نقصان نہ ہو، لیکن کئی دوسرے معاملات جیسا کہ ویکسین کی سیفٹی، موسمیاتی تبدیلی جیسے معاملات میں معاملہ بالکل مختلف ہے۔ نتائج تاریک نکل سکتے ہیں۔
چوتھا یہ کہ کورسیا جس چیز کا شکار ہوئی تھیں، وہ ایک اچھی معلوم تکنیک ہے۔ اس کا طریقہ مین سٹریم سائنس کے بارے میں شک پیدا کرنا ہے تاکہ سمجھدار لوگ ذہن ہی نہ بنا سکیں۔ تمباکو کی صنعت نے ایک وقت میں تمباکونوشی اور کینسر کے تعلق کے بارے میں ایسا خطرناک کھیل کھیلا تھا۔ موسمیاتی تبدیلی، ویکسین اور دیگر چیزوں کے بارے میں بھی سائنس مخالفین کی طرف سے استعمال کیا جانے والا یہ ایکموثر طریقہ ہے۔ سائنس مخالف تحریکوں کی یہ مرکزی حکمتِ عملی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پانچواں دلچسپ تضاد یہ کہ کورسیا نے پروسائنس تشکیک پسندوں کی اصطلاحات جذب کر لی تھیں۔ اس میں منطقی مغالطوں کے الزامات بھی تھے، جو عام طور پر دلائل سے بچنے میں مدد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر تھیوری کے بارے میں قابلِ اعتبار ذرائع کی طرف اشارہ کرنا کنفرمیشن بائیس بن گیا۔
اور آخر میں کورسیا کو اس پر فخر تھا کہ وہ اتھارٹی کو چیلنج کر رہی ہیں اور روایت شکن ہیں۔ کھلا ذہن رکھتی ہیں اور انقلابی ہیں۔ وہ ایک مشن پر تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورسیا کے بارے میں تو کچھ خاص نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ سخت پوزیشن لے چکی ہیں۔ اگر وہ خود چاہیں گی، تو ذرائع موجود ہیں اور وہ آہستہ آہستہ تفریق کر سکتی ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ سائنس مخالف پوزیشن جان بوجھ کر نہیں لیتے۔ سوال ان کا ہے۔ اور ہمارے سامنے ارتقا سے کہیں زیادہ اہم سوالات کھڑے ہیں جہاں پر غلط فہم معاشروں کے لئے تباہ کن ہے۔ میڈیکل سائنس ہو یا ماحولیات، حفظانِ صحت یا غذا کے معاملات، تحقیق کے شعبوں پر پابندیاں، فزکس، کیمسٹری اور بائیولوجی کی بنیادی تفہیم نہ ہونے کی وجہ سے قسم قسم کی ناقابلِ یقین سازشی تھیوریاں۔ یہ معاشروں کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں اور پہنچا رہی ہیں۔ حقیقت نظریاتی معاملہ نہیں۔ معاشرے مشترک حقیقت پر اتفاق سے ہی بنتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply